قمر جہاں کے شعری مجموعے پیاسا دریا کی تقریب رونمائی ،مشاعرہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
انجمنِ تسکینِ ذوق پاکستان کی جانب سے شاعرہ اور تہذیب ویلفیئر آرگنائزیشن رجسٹرڈ کی نائب صدر قمر جہاں کے شعری مجموعے پیاسا دریا کی تقریب رونمائی اور مشاعرہ خراج تحسین برائے طاہرہ سلیم سوز منعقد کیا گیا
مجلس صدارت بزم یاران سخن کے روح و رواں معروف سینئیر شاعر ڈاکٹر نثار احمد نثار صاحب اور بزم نشاط ادب اور متعدد ادبی تنظیموں کے سرپرست اعلیٰ اور روح و رواں معروف شاعر ڈاکٹر افتخار ملک ایڈووکیٹ صاحب مہمانِ خصوصی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ شاعر و سماجی شخصیت ایڈووکیٹ سلیم تھیپڈا والا صاحب مہمانِ اعزازی شاہدہ عروج خان ایڈووکیٹ جاوید اقبال جاوید معروف نظم گو شاعر سہیل احمدنظامت حمیدہ کشش صاحبہ
تقریب کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن پاک اور حمد ونعت سے ہوا جس کی سعادت شیخ نعیم اور نعت گو شاعرہ راحت رخسانہ نے حاصل کی پہلے مرحلے میں قمر جہاں قمر صاحبہ کے چوتھے شعری مجموعے کی رونمائی کی گئی جس کا انتساب شاعرہ نے مرحومہ طاہرہ سلیم سوز اور اپنے بچوں کے نام کیا تھا ۔تقریب کا عنوان تھا محبتوں کے عالمی دن پر محبتوں کی سفیر طاہرہ سلیم سوز کو قمر جہاں قمر کا خراج تحسین
قمر جہاں قمر کی شاعری پرمعروف ادبی شخصیات نے اظہار خیال کیا جن میں شاہدہ عروج خان جہانداد منظر القادری حمیدہ کشش عرفانہ پیرزادہ ردا سہیل احمد ایڈووکیٹ محمد سلیم تھیپڈا والا ڈاکٹر افتخار ملک ایڈووکیٹ اور نثار احمد نثار صاحب شامل تھے قمر جہاں قمر صاحبہ نے اپنی سوانح حیات پر روشنی ڈالی اور مجموعہ کلام سے غزلیں سنا کر داد وصول کی
اور مسند نشین کو اجرکیں پیش کیں ۔
دوسرے مرحلے میں مشاعرہ کا آغاز کیا گیا شعرا میں حمیدہ کشش عرفانہ پیرزادہ ردا سلمیٰ رضا سلمیٰ شاہدہ عروج خان ایڈووکیٹ جاوید اقبال جاوید ایڈوکیٹ سلیم تھیپڈا والا ڈاکٹر افتخار ملک ایڈووکیٹ تنویر سخن حارث حسیں ایڈووکیٹ صدیق راز ایڈووکیٹ رفیق مغل م م مغل خالد حسین سید قادر بخش مستوئی آختر سروش منظوم کلام نظر فاطمی منیف اشعر ملیح آبادی ذوالفقار حیدر پرواز عادل کراچی والا رمیز قادری انجینئر الحاج نجمی نعیم قریشی خورشید احمد صاحب جبکہ دیگر سامعین میں قمر جہاں قمر کے بیٹے بیٹی بہو اور ان کی بہنوں نے عیسیٰ لیب سیساجد صدیقی زرک ڈاکٹر ارم اور اسٹاف نے شرکت کی۔
راحت رخسانہ نے اپنے خوبصورت ترنم سے قمر جہاں قمر کی غزل سنا کر محفل میں جان ڈال دی تقریب کے اختتام پر قمر جہاں کے صاحب زادے نعمان اسحاق نے اپنی والدہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ،ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قمر جہاں قمر
پڑھیں:
پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔
ملک میں مہنگی بجلی اور بجلی مسائل کے باعث پاکستان نے سولر پینلز درآمد کرنے میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔برطانوی توانائی تھنک ٹینک "ایمبر" کی عالمی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ کوئی بڑی قانون سازی ہوئی، نہ عالمی سرمایہ کاری کی یلغار اور نہ ہی وزیرِاعظم نے سبز انقلاب کا اعلان کیا، اس کے باوجود 2024 کے آخر تک پاکستان نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔ پاکستان نے صرف 2024 میں ہی 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جس سے وہ دنیا کی صفِ اول کی سولر مارکیٹس میں شامل ہو گیا ہے، یہ اضافہ 2023 کی نسبت دوگنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سولر درآمدات کی یہ وسعت خاص طور پر اِس لیے حیران کن ہے کیونکہ یہ کسی قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ہوا ہے۔ زیادہ تر مانگ گھریلو صارفین، چھوٹے کاروباروں اور تجارتی اداروں کی طرف ہے جو مہنگی اور غیر یقینی سرکاری بجلی کے مقابلے میں سستی اور قابلِ اعتماد توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سولر پر منتقلی اُن لوگوں اور کاروباروں کی بقاء کی کوشش ہے جو غیر مؤثر منصوبہ بندی اور غیر یقینی فراہمی کے باعث قومی گرڈ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، یہ پاکستان میں توانائی کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔ صرف مالی سال 2024 میں ہی پاکستان کی سولر پینلز کی درآمدات ملک بھر میں بجلی کی کُل طلب کا تقریباً نصف بنتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب قومی گرڈ کو اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے خود کو ڈھالنا پڑے گا کیونکہ موجودہ انفرااسٹرکچر اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا، اس منتقلی کو پائیدار اور منظم بنانے کے لیے نظام کی اپڈیٹڈ منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹرز نے نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی ہے اور درآمدات پر کچھ نرمی بھی کی گئی ہے، لیکن پاکستان کی سرکاری گرڈ سے منسلک سولر پیداوار اب بھی بہت کم ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ زیادہ تر نئی تنصیبات گرڈ سے باہر کام کر رہی ہیں اور قومی بجلی کے اعدادوشمار میں شامل نہیں ہو رہیں۔