فنانس ایکٹ 2015ء کی شق 7 آئین سے متصادم ہونے پر کالعدم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ نے فنانس ایکٹ 2015ء کی شق 7 کو آئین کے متصادم گردانتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔آڈیٹر جنرل آرڈیننس 2001ء میں فنانس ایکٹ کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواست پر تفصیلی فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے جاری کیا۔عدالت نے اس قانون کے تحت کیے گئے تمام احکامات اور
کارروائیاں بشمول نوٹیفکیشنز کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین ملک کا سب سے بڑا اور بنیادی قانون ہے، باقی قوانین اپنی طاقت آئین سے حاصل کرتے ہیں،اگر کوئی قانون اپنے دیے گئے اختیارات سے تجاوز کر جائے یا کسی آئینی شق کے خلاف ہو، تو اسے غیر آئینی یا آئین سے متصادم الٹرا وائرس قرار دیا جاتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے دیے گئے اختیارات کے تحت قوانین بناتی ہے اگر کوئی قانون آئین یا اصل قانون پیرنٹ ایکٹ سے متصادم ہو تو وہ قانون غیر مؤثر سمجھا جائے گا، کسی قانون کو آئینی ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ منطقی، واضح اور عمومی قوانین یا آئین سے متصادم نہ ہو۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر بائی لاز بنانے میں قانونی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی ہو تو انہیں کالعدم کیا جاسکتا ہے، بائی لاز کسی دوسرے قانون سے متصادم ہوں یا اپنے بنیادی قانون کے خلاف ہوں تو انہیں کالعدم کیا جاسکتا ہے، مبہم، غیر واضح، غیر معقول اور غیر منطقی ہونے کی بنیاد پر بائی لاز کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد
پڑھیں:
پیکا ترمیمی ایکٹ کے اصل حقائق
25 جنوری کو قومی اسمبلی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے بل ’’پیکا ایکٹ‘‘کی منظوری دی تو ملک بھر کی صحافتی تنظیموں،پریس کلبز اور اپوزیشن جماعتوں نے سخت ردعمل اور ناگواری کا اظہار کیا۔ ہر طرف صدائے احتجاج بلند ہونے لگی۔ پیکا ایکٹ سینٹ اور صدر کی منظوری کے بعد اب پورے ملک میں نافذالعمل ہے اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اس ایکٹ کی خلاف ورزی پر پنجاب کے مختلف اضلاع میں متعدد افراد کے خلاف مقدمات کا اندراج بھی کیا جا چکا ہے۔اپوزیشن اور صحافتی تنظیمیں پیکا ایکٹ کو ناصرف کالا قانون بلکہ میڈیا اور آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دے رہی ہیں۔حکومت کا موقف ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور یوٹیوبرز کو ریگولیٹ کرنا موجودہ حالات میں بہت ضروری ہو گیا ہے۔پیکا ترمیمی ایکٹ میں نئی ریگولیٹری اتھارٹی کی بات کی گئی ہے۔ جبکہ سائبر کرائم ونگ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمات کی سماعت خصوصی ٹربیونل میں ہو گی۔ جس کا سربراہ ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا۔ تحقیقاتی ایجنسی کو بہت سے اختیارات بھی دئیے گئے ہیں۔ وہ غیر قانونی مواد سوشل میڈیا سے ہٹا سکے گی اور ایسے اکائونٹ بھی بلاک کر دئیے جائیں گے جو الیکٹرانک میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے جائیں گے۔مذکورہ ایکٹ کو منظور اور نافذالعمل ہوئے تین ہفتے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔لیکن صحافتی تنظیمیں ابھی تک سراپا احتجاج ہیں۔ ایکٹ کی منظوری پر تمام پریس کلبز میں احتجاجی کیمپ لگائے گئے۔جہاں صحافتی تنظیموں نے نا صرف احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ پیکا ایکٹ کو واپس نہ لیا گیا تو وہ ملک گیر تحریک چلائیں گے۔نیشنل پریس کلب اسلام آباد مذکورہ ایکٹ کے خلاف احتجاج کا سب سے بڑا مرکز رہا۔جبکہ لاہور پریس کلب میں بھی کلب کے عہدیداروں اور دوسری صحافتی تنظیموں نے احتجاجی کیمپ لگایا جس میں مقامی صحافی کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔حیران کن بات یہ رہی کہ اس احتجاج کے دوران کسی بھی حکومتی ذمہ دار نے صحافتی رہنمائوں سے ملاقات یا بات چیت کی کوشش نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پیکا ایکٹ کے حوالے سے بہت ہی غیر سنجیدہ ہے۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ترمیمی ایکٹ کی منظوری سے قبل صحافتی تنظیموں سے مشاورت کی جاتی۔جس کے بعد اس ترمیمی ایکٹ کو منظوری کے مراحل سے گزارا جاتا۔مگر پتہ نہیں حکومت کو کس بات کی جلدی تھی کہ جلدی جلدی میں معاملات کو اس نہج تک پہنچا دیا کہ آج ہر طرف پیکا ایکٹ کے خلاف احتجاج کی صدا گونج رہی ہے۔ایکٹ کی بہت سی شقیں سامنے آچکی ہیں جن پر بہت زیادہ بحث بھی ہو رہی ہے۔ایکٹ کو ناقابل ضمانت جرم بنایا گیا ہے۔ایکٹ کی خلاف ورزی پر خصوصی ٹربیونل کسی بھی فرد کو جرم ثابت ہونے پر تین سال قید،20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دے سکے گا۔بل کے مطابق ایسا کانٹینٹ جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو،یا ایسا مواد جو لوگوں کو اشتعال دلائے،قانون کو ہاتھ میں لینے کی دعوت دے۔لوگوں کو گمراہ کرے۔یا پھر کسی کمیونٹی یا سرکاری افسران یا اداروں کو خوف میں مبتلا کرے۔تجارتی یا شہری زندگی میں خلل ڈالے، ممنوع اور خلاف قانون ہو گا۔ایسا مواد پھیلانے والوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہو گی۔ایکٹ کے مطابق فرقہ واریت ابھارنے اور فحاشی پر مبنی کسی کانٹینٹ کی بھی قطعی اجازت نہیں ہو گی۔ اراکین پارلیمنٹ،عدلیہ اور مسلح افواج سے متعلق کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی قابل گرفت ہو گا۔ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی قابل گرفت ہو گا۔چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے حذف کیئے جانے والے الفاظ بھی نشر نہیں کیے جا سکیں گے۔کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات بھی نشر کرنے پر پابندی عائد ہو گی۔ہر وہ شخص جو جان بوجھ کر ممنوعہ معلومات پھیلائے گا یا وہ فیک ہوں گی کہ جس سے خوف و ہراس پھیلے یا عوام میں انتشار اور افراتفری پیدا ہو،اس شخص کو 3 سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔
بل کے تحت قائم کی جانے والی ریگولیٹری اتھارٹی،تحقیقاتی ایجنسی،ٹربیونل اور کمپلینٹ کونسل قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے متعین کردہ اختیارات کے تحت کام کریں گے اور فرائض انجام دیں گے۔بل کے تحت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے جو اتھارٹی قائم کی گئی ہے اسے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا نام دیا گیا ہے۔یہ اتھارٹی لوگوں کی آن لائن سیفٹی یقینی بنائے گی۔سوشل میڈیا پر غیر قانونی مواد کو ریگولیٹ کرے گی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹر،رینیو،معطل یا رجسٹریشن تک منسوخ کرنے کا اختیار بھی اتھارٹی کو حاصل ہو گا۔اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو وقتی طور پر یا مستقل بلاک کرنے کی بھی مجاز ہے۔ سوشل میڈیا کانٹینٹ سے متعلق ہدایات اور معیار مقرر کرنا بھی اتھارٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ تجویز کرنا بھی اتھارٹی کے اختیارات میں شامل ہے۔کسی غیر قانونی مواد کو بلاک کرنا مقصود ہو تو اسے بلاک کرنے کی مدت 30 دن ہو گی۔جبکہ اتھارٹی اس مدت میں اضافے کی بھی مجاز ہے۔آن لائن سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے یہ اتھارٹی دیگر بین الاقوامی ایجنسیز کے ساتھ بھی کام کرے گی اور انفارمیشن کی شیئرنگ کر سکے گی۔اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ان کے لیئے آسانیاں پیدا کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔غلط یا جھوٹی خبر سے متاثرہ شخص اتھارٹی کو خبر ہٹانے یا بلاک کرنے کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ جو اسے ایسی خبر یا کانٹینٹ کے نشر یا اجرا کے 24 گھنٹے کے اندر دینا لازم ہو گی۔قائم ہونے والی سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی چیئرمین اور 8 ممبران پر مشتمل ہے۔سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا اور چیئرمین پی ٹی اے ایکس آفیشل بھی اس کے ممبران میں شامل ہیں۔چیئرمین اور 5 ممبران کی تعیناتی وفاقی حکومت کا اختیار ہے جن کی تعیناتی کی مدت 5 سال ہو گی۔جن کو ایکسٹینشن نہیں دی جائے گی۔10 سالوں پر محیط تجربہ رکھنے والا صحافی،سافٹ ویئر انجینئر،وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل،آئی ٹی ایکسپرٹ بھی اتھارٹی کے ممبران میں شامل ہیں۔پالیسی میٹرز پر وفاقی حکومت اتھارٹی کو ہدایات جاری کر سکے گی۔ایکٹ کے مطابق نیک نیتی سے کئے گئے اقدامات اور فیصلوں پر اتھارٹی یا حکومت کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل عام لوگوں، تنظیموں اور شخصیات کی شکایات وصول کرے گی۔جس کے بعد تحقیقات کا آغاز ہو گا اور شکایت درست ہونے پر مقدمہ کا اندراج کیا جائے گا۔بعد ازاں مقدمہ کا چالان خصوصی ٹربیونل کو بھیجا جائے گا جو بعد از سماعت جرم ثابت ہونے پر مجرم کو متعین کردہ سزا دے گا۔مجرم کو سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا ہے۔جو وہ 30 دن کے اندر دائر کر سکے گا۔پیکا ترمیمی ایکٹ اچھا ہے یا برا،اس کے کیا اثرات ہوں گے۔اب حکومت اور صحافتی تنظیموں کے سوچنے کی بات ہے۔اس کا کوئی مثبت حل ضرور نکلنا چاہئے تاکہ ملک بھر کے صحافیوں میں جو خدشات پیدا ہو چکے ہیں ان کا خاتمہ ہو۔سب کچھ مشاورت سے بہتر طریقے سے طے پا جائے یہی اچھا ہے۔