افریقہ-1 سب میرین انٹرنیٹ کیبل پی ٹی سی ایل سے منسلک کردی گئی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
ٹیلی کام کمپنی پی ٹی سی ایل نے ڈیجیٹل اور ٹیلی کام نظام کی بہتری کیلئے پاکستان کو افریقہ-1 سب میرین کیبل سے منسلک کر دیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بڑی مقدار میں ڈیٹا ٹرانسمیشن کی صلاحیتوں کی حامل سب میرین کیبل، افریقہ-1 کو کراچی میں پی ٹی سی ایل ایکسچینج سے منسلک کر دیا گیا ہے۔
پی ٹی سی ایل نے افریقہ-1 کیبل سسٹم کنسورشیم میں شمولیت کے لیے باضابطہ معاہدہ کیا ہے تاکہ عالمی ڈیجیٹل مراکز کے ساتھ پاکستان کے روابط اور قومی ٹیلی کمیونی کیشن ڈھانچے کو مستحکم کیا جا سکے۔
دس ہزار کلومیٹر طویل اس کیبل سسٹم میں جدید ترین ٹیکنالوجیز شامل ہیں، جو پاکستان کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، سوڈان، الجیریا، فرانس، کینیا، اور جبوتی سمیت اسٹریٹجک اہمیت کے حامل مقامات سے جوڑے گا۔
پی ٹی سی ایل کے گروپ نائب صدر برائے انٹرنیشنل بزنس، سید محمد شعیب نے اس موقع پر کہا کہ افریقہ-1 کیبل سسٹم میں ہماری شرکت پاکستان کے ’ڈیجیٹل وژن 2030‘ کے عین مطابق ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ڈیجیٹل تقسیم کا خاتمہ کر کے لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے پُرعزم ہیں، تاکہ مختلف شعبوں میں جدت کو فروغ ملے اور ملکی معیشت مستحکم ہو سکے۔
واضح رہے کہ افریقہ-1 کیبل سسٹم 2026 کے اوائل میں فعال ہو جائے گا جس کے بعد صارفین کو عالمی معیار کی انٹرنیٹ سہولیات دستیاب ہونگی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پی ٹی سی ایل کیبل سسٹم افریقہ 1
پڑھیں:
پاکستان کی پہلی کمپیوٹرائزڈ آبزرویٹری کراچی میں قائم، رمضان اور عیدین کےچاند کا مشاہدہ کیا جائے گا
کراچی:فلکیاتی علوم پر تحقیق اور کہکشائوں، سیاروں اور ستاروں کی حرکت کے مناظر کے مشاہدے کے لیے پاکستان کی پہلی کمپیوٹرائزڈ آبزرویٹری(رصد گاہ) کراچی میں قائم کردی گئی ہے جہاں سے رمضان اور عیدین کا چاند دیکھا جاسکے گا۔
یہ کراچی میں قائم دوسری رصدگاہ ہے جسے این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر انفارمیشن سسٹم میں قائم کیا گیا ہے، اس سے قبل فلکیاتی علوم پر تحقیق کے لیے واحد رصدگاہ جامعہ کراچی میں موجود تھی۔
اس رسد گاہ میں اعلی معیار کی جدید ٹیلی اسکوپ موجود ہیں جن میں سے ایک کو موبائل اپلیکیشن کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے جبکہ رصدگاہ میں آویزاں علیحدہ سے 14 انچ کے لینس پر مشتمل ایک بڑی ٹیلی اسکوپ کا شمار بھی جدید ٹیلی اسکوپ میں کیا جارہا ہے،رصدگاہ سے پہلی بار رمضان کا چاند دیکھنے کا انتظام بھی کیا جائے گا۔
این ای ڈی یونیورسٹی کے نیشنل سینٹر ان بگ ڈیٹا اینڈ کلائوڈ کمپیوٹنگ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اسماعیل نے "ایکسپریس" سے بات چیت میں یہ دعوی کیا کہ دنیا میں کمپیوٹرائزڈ آبزرویٹری بہت کم ہیں اور این ای ڈی کی رصد گاہ کا شمار بھی اب ان چند ایک کمپیوٹرائزڈ آبزرویٹریز میں ہورہا ہے جہاں تمام ٹیلی اسکوپ کمپیوٹرز سے configrate ہیں اور ٹیلی اسکوپس کے ذریعے فلکیاتی مناظر کے تجزیوں سے جو ڈیٹا حاصل ہورہا ہے اسے ہم ڈیٹا سینٹر میں اسٹور کررہے ہیں۔
ڈاکٹر اسماعیل کا مزید کہنا تھا کہ کمپیوٹرائزڈ آبزرویٹری کے سبب اب کسی بھی محقق کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ رصد گاہ میں آکر ہی ان فلکیاتی مناظر کا مشاہدہ کرے بلکہ وہ آبزرویٹری سے منسلک بگ ڈیٹا اینڈ کلاؤڈ کمپیوٹنگ سینٹر کے ذریعے گھر بیٹھے یا کسی دوسرے مقام سے یہ مشاہدہ کرسکتا ہے، اس کے لیے اسے آبزرویٹری سے خدمات لینی ہوگی، ان کا کہنا تھا کہ فلکیاتی ایونٹس پر تحقیق کے سلسلے میں اب این ای ڈی کی ناسا سمیت دیگر فلکیاتی اداروں سے کمیونیکیشن شروع ہوچکی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر اسماعیل کا کہنا تھا کہ اس رصدگاہ کو مکمل طور پر این ای ڈی کے انجینئرز نے تیار کیا ہے رصدگاہ سے رمضان اورعید دونوں چاند کے دیکھنے کا انتظام ہوگا۔
اس موقع پر موجود نیشنل سینٹر کے ٹیم لیڈر عزیر عابد نے بتایا کہ یہاں اسٹیٹ آف دی آرٹ آبزرویٹری میں موجود ٹیلی اسکوپ سے سورج پر موجود سولر اسپوٹ solar spots سے متعلق ڈیٹا جمع کیا گیا، مختلف algorithm اس پرلاگ آن کیے جس کی مدد سے ہم یہ forecast کرسکے کہ اب یہ "سن اسپوٹ" دوبارہ کب اور کس جگہ آسکیں گے پھر ہم نے اپنی پیش گوئی کی خود validation بھی کی۔
انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں جب مختلف سیارے ایک ساتھ align ہوئے تھے تو اس فلکیاتی منظر کا بھی مشاہدہ کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس وقت 30 کے قریب طلبہ/محقق اس رصدگاہ گاہ سے وابستہ فلکیاتی علوم پر تحقیق کررہے ہیں۔