Express News:
2025-02-23@03:53:22 GMT

کراچی امن کی تلاش میں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

ڈمپر مافیا نے اس وقت پورے شہر میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اب تک سو کے قریب شہری ڈمپر مافیا کی بد احتیاطی یا من مانی کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان ہلاکتوں پر سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

ایم کیو ایم کے سینئر رہنما فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ شہر میں ہیوی ٹریفک خصوصاً ڈمپر مافیا نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ وہ آئے دن لوگوں کو کچل کر ہلاک کر رہے ہیں ایسے میں اگر لوگ ڈمپروں کو جلا رہے ہیں تو انھیں کیسے روکا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ایک فطری ردعمل ہے۔

اس سے قبل مہاجر قومی موومنٹ کے رہنما آفاق احمد بھی ڈمپرز کے شہریوں کو بلا روک ٹوک ہلاک کرنے پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کر چکے ہیں۔ سندھ حکومت نے ان کے بیان کو اشتعال انگیز قرار دے کر انھیں گرفتار کر لیا ہے۔

فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں آفاق احمد کی گرفتاری پر سوال اٹھائے اور انھیں فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت چاہے تو انھیں بھی گرفتار کر لے۔ شہریوں کی جانب سے شہریوں کو ہلاک کرنے والے ڈمپروں کو جلانے کا سلسلہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک لوگوں کی جانیں جاتی رہیں گی، اس سلسلے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور کسی مصلحت سے کام نہیں لینا چاہیے۔

یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے جب کراچی میں ہیوی ٹریفک کے لیے رات گیارہ بجے سے صبح6 بجے تک کا ٹائم مختص کر دیا گیا ہے تو وہ دن کے اوقات میں کیوں رواں دواں رہتی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ انھوں نے حکومتی اور عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔ ڈمپروں کے ذریعے روز ہی ہونے والی ہلاکتوں سے ایک تو مرنے والے کا غم پھر اس کے لواحقین کا غم کہ ان کی گزر بسر کیسے ہوگی؟

ٹریفک قوانین سے انحراف سراسر تعزیراتی اور معاشرتی جرم ہے۔ آخر ان ڈمپروں اور پانی کے ٹینکرز کے پیچھے کون ہے جو ان کی ہمت افزائی کر رہا ہے کہ وہ قانون تک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں؟ کیا یہ ڈمپرز اور ٹینکرز کے ڈرائیورز اپنے مالکان کے حکم پر قانون کی حکم عدولی کر رہے ہیں؟ کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسے بااثر لوگ ہیں جن کے آگے قانون بھی کوئی چیز نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر ہماری پولیس انھیں کیوں روک نہیں پا رہی ہے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ لگتا ہے ڈمپر اور ٹینکر مافیا کو جن لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے، پولیس ان کے آگے لاچار اور مجبور ہے، وہ ان کے خلاف کارروائی تو کیا آواز بھی نہیں اٹھا سکتی۔ اگر یہی صورت حال ہے تو پھر حالات کیسے درست ہوں گے اور شہریوں کی جانوں کو کیسے محفوظ بنایا جاسکے گا؟

شہر میں اس وقت دوسرا بڑا مسئلہ غیر قانونی اسلحے کی ریل پیل کا ہے۔ یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے جس کی وجہ سے شہر میں دہشت گردی، چوریاں، ڈکیتیاں اور اسٹریٹ کرائمز عروج پر ہیں۔ بدقسمتی سے شہر میں غیر قانونی اسلحے کی فراوانی کی وجہ اسلحہ لائسنس کے اجرا میں بے قاعدگیوں کا عمل دخل ہے۔ اسلحہ لائسنس تصدیق اور اسلحے کی دکانوں پر اسلحے کی خرید و فروخت کی انوینٹری کے ریکارڈ میں مافیا کی جانب سے مداخلت جاری ہے۔

دوسرے صوبوں سے بننے والے لائسنسوں کی سندھ کے متعلقہ ڈی سی آفسوں میں تصدیق کے بغیر ہی ان کا اجرا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لائسنس سے متعلق تمام ڈیٹا ڈیجیٹلائز نہیں کیا گیا ہے پھر متعلقہ اداروں کے درمیان رابطے کا بھی فقدان ہے۔

اسلحہ ڈیلرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی انوینٹری کا ریکارڈ رکھے تاکہ ضرورت پڑنے پر اسلحہ تیار کرنے والے اداروں تک پہنچایا جاسکے۔ کراچی میں غیر رجسٹرڈ اسلحے کی فراوانی کی وجہ سے ہی قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔

حال ہی میں مصطفیٰ عامر نامی نوجوان کے قتل نے غیر قانونی اسلحے کے مسئلے کو اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ مصطفیٰ عامر کو اس کے دوست ارمغان نے نیو ایئر نائٹ کو کسی مسئلے پر جھگڑا ہونے کے بعد اسے اپنے بنگلے پر بلا کر قتل کر دیا پھر حب بلوچستان میں جا کر اس کی لاش کو اس کی ہی گاڑی میں رکھ کر آگ لگا دی۔

اس دل خراش واقعے کے پیش آنے کے بعد پولیس نے شواہد ملنے پر ارمغان کے بنگلے پر چھاپا مارا تو وہاں سے باقاعدہ پولیس پر فائرنگ کی گئی بالآخر پولیس بنگلے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی تو وہاں بڑی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ موجود تھا۔ نہ صرف اس واقعے نے بلکہ اس سے قبل اور بھی واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ شہر میں لوگوں کے پاس کافی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے۔

پھر بات وہی ہے کہ اگر ہمارے متعلقہ ادارے اور پولیس اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دیں تو غیر قانونی اسلحہ کہیں نظر نہ آئے اور شہر میں قتل و غارت گری اور ڈاکوؤں میں خاطر خواہ کمی واقع ہو۔ ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر میں امیرزادوں اور بااثر سرکاری عہدیداروں کے بگڑے ہوئے بچوں کی مشکوک سرگرمیاں سیکیورٹی کے لیے سخت خطرہ بن گئی ہیں۔

یہ بچے اپنے گارڈز کے ساتھ اپنے اسلحے سے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔ یہ نوجوان اکثر ڈانس پارٹیاں منعقد کرتے ہیں جن میں منشیات کا کھلے عام استعمال ہوتا ہے اس کے بعد یہ اپنے شور و غل سے علاقہ مکینوں کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں۔

پھر یہ آپس میں الجھ بھی جاتے ہیں اور کبھی کبھی اسلحے کے استعمال تک نوبت پہنچ جاتی ہے ، ان کی گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کے ہوتی ہیں، ان پارٹیوں میں لڑکیوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے بھی اکثر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، مصطفیٰ عامر کے قتل کی وجہ بھی ایسی ہی ڈانس پارٹی میں اس کی ارمغان سے تکرار بتائی جاتی ہے۔

شہر میں منشیات کی ریل پیل ہے اور یہ نوجوانوں کو باآسانی دستیاب ہو جاتی ہے۔ شہر کے کتنے خاندان ایسے ہیں جو اپنے منشیات زدہ بیٹوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔ شہر میں منشیات زدہ نوجوانوں کی منشیات کی لعنت کو چھڑانے کے لیے دھڑا دھڑ نئے نئے ادارے قائم ہو رہے ہیں جو خدمت خلق کرنے کا دعویٰ تو کر رہے ہیں مگر اصل میں وہ نہ صرف اس طرح دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ رہے ہیں بلکہ لگتا ہے وہی منشیات کے رجحان کو ہوا دینے میں مددگار بھی ہیں۔ اب تو پولیس بھی بعض سماجی تنظیموں سے مل کر منشیات زدہ نوجوانوں کے علاج میں مددگار بن رہی ہے۔

نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھنا ہے تو پولیس منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ان کے بیچنے والوں کے خلاف سخت مہم چلائے ۔ ڈمپر مافیا اور غیر قانونی اسلحے کی روک تھام کے لیے نہ صرف پولیس کو بلکہ متعلقہ اداروں کو بھی اپنی ذمے داریاں ایمان داری سے ادا کرنا ہوں گی۔ اس شورش زدہ شہر کو امن کی سخت ضرورت ہے مگر حکومت بھی تو لگتا ہے سوئی ہوئی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈمپر مافیا کی وجہ سے اسلحے کی رہے ہیں کے لیے دیا ہے

پڑھیں:

شوہر سے 15 لاکھ روپے ہتھیانے کیلیے اپنے ہی بیٹے کے اغوا کا ڈرامہ کرنے والی خاتون گرفتار

راولپنڈی:

راولپنڈی کے تھانہ رتہ امرال پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اپنے 9 ماہ کے بیٹے کے اغوا برائے تاوان کا مطالبہ کرنے والی ملزمہ کو گرفتار کرلیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اپنے ہی بیٹے کے اغوا اور پھر تاوان کا ڈرامہ رچا کر پولیس کو اطلاع دینے والی ملزمہ صوفیہ کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔

ملزمہ صوفیہ نے 15پر اطلاع دی تھی کہ اس کے بیٹے کو کسی نے اغواء کرلیا ہے، اس پر رتہ امرال پولیس فوری موقع پر پہنچی ،تحقیقات  پر ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔

ملزمہ نے اپنے شوہر سے  15 لاکھ  بٹورنے کی خاطر بوگس کال کرنے کا انکشاف کیا۔ رتہ امرال پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزمہ کو گرفتار کر لیا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ 15 ایمرجنسی ہیلپ لائن شہریوں کی سہولت کے لیے ہے، غلط استعمال پر قانونی کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • گھوٹکی پولیس کی شاندار کارروائی، 2مغوی بازیاب،ڈاکوفرار
  • کراچی، ساؤتھ پولیس کا منشیات مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن، 27 افراد گرفتار
  • مصطفیٰ قتل کیس میں نیا موڑ، معروف پاکستانی اداکار کا بیٹا منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار
  • امیر جماعت اسلامی کے خلاف جعلی مقدمہ
  • روشنیوں کا شہر کراچی، کہیں کھو گیا
  • تل ابیب کے قریب تین بسوں میں خوفناک دھماکے، مزید بموں کی تلاش جاری
  • مصطفیٰ قتل کیس میں منشیات کے پہلو پر بھی تفتیش کا آغاز کردیا، سی آئی اے پولیس
  • شوہر سے 15 لاکھ روپے ہتھیانے کیلیے اپنے ہی بیٹے کے اغوا کا ڈرامہ کرنے والی خاتون گرفتار
  • کراچی، پیٹرول پمپ پر 52 لاکھ روپے کی ڈکیتی کرنیوالے ملزمان گرفتار