ابھی نظر سے تحریر گزری جس میں ناکام لوگوں کی پہچان کے لیے کچھ نقطے واضح کیے گئے تھے۔ مثلاً ناکام لوگ ہر وقت اعتراض کرتے ہیں، ہر معاملے میں خود کو حق دار سمجھتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں کو دیتے ہیں، ان کو خود سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اپنی سوچ کو مکمل سمجھتے ہیں، گویا مسٹر پرفیکٹ سمجھتے ہیں۔ دوسروں سے علم چھپاتے ہیں، دوسروں کی ناکامی پر خوش ہوتے ہیں۔
ہم اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں تو اس طرح کے لوگ ہوتے ہیں جو صرف اپنی ذات کو اہمیت دیتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی نکمے، نامعقول، احمق اور سست ہوں لیکن ان کی نظر میں سارے اہل، معقول، عقل مند اور ذمے دار برے ہوتے ہیں، ہمارے معاشرے میں اس طرح کی بڑی مثالیں موجود ہیں جو نہ صرف ہمارے گھروں، اداروں بلکہ ریاستوں کے نظام میں بھی خلل ڈالتے ہیں۔
ناکام لوگ اگر اپنی ناکامی کی حقیقت کو قبول کر کے آگے بڑھیں تو نتائج مختلف ہو سکتے ہیں پر ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ زندگی کبھی نہ کبھی انھیں احساس دلا ہی دیتی ہیں پر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ ماضی اور اس سے جڑے رشتے، لوگ لوٹ کر نہیں آ سکتے۔
ماہر نفسیات کے مطابق ’’ہم اپنی ناکامیوں پر توجہ نہیں دیتے اور کامیابی پانے کے لیے سبق سیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔‘‘
’’دراصل ہماری عزت نفس ناکامی کی وجوہات پر غورکرنے کے بجائے کچھ فلمی سے انداز میں اس صفحے کو ہی پھاڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں انھیں ناکامی کی کہانی کے متعلق سوچنے سے بھی اذیت ہوتی ہے۔‘‘
پروفیسر سحر انصاری نے سالوں پہلے ایک دلچسپ بات کسی حوالے سے کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان اپنی تمام کامیابیاں بھول جاتا ہے کہ اس نے زندگی میں کیا کچھ حاصل کیا، کب، کیا، کیسے، کہاں، کس وقت؟ لیکن زندگی میں کوئی یا چند دکھی کر دینے والے واقعات یا حادثے یا باتیں دل پر جونک کی مانند چپک جاتی ہیں اور وہ تمام کامیابیوں کو ایک جانب کرتے دکھ کے چند گھنٹے، منٹ یا لمحات اپنی زندگی پر حاوی کر لیتے ہیں۔
یہ تو غلط بات ہے ناں کہ رب العزت نے آپ کو اتنی کامیابیاں دیں اس کو یاد کرکے خوش ہوں لیکن چند دکھی یادیں، باتیں زندگی پر سوار کرکے غم منانا ناشکری ہے۔
مغربی اور مشرقی مفکرین کی سوچ میں فرق ماحول اور معاشرتی رویوں کے لحاظ سے ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں مغربی سوچ کو بنا سوچے سمجھے مشرقی سوچ پر لاد کر ہمیشہ ہی اعلیٰ درجے پر رکھا گیا ہے۔ ہم مغرب کی بڑی بڑی درسگاہوں کے اساتذہ اور ریسرچرز کے نام بڑی شان سے کوڈ کرتے ہیں اور یقین جانیے کہ اس سے فرق پڑتا ہے، فرنگی عقل مندوں کے نام رتبے بڑھا دیتے ہیں، ہمیں اور مشرقی، دیسی عقل مندوں کے سارے فارمولے تجربات گنتی میں نہیں آتے۔
بلوچستان کا ضلع کیچ کا گاؤں بلیدہ میں ایک بچہ پیدا ہوا جو وہاں کے عام بچوں جیسا ہی تھا، لیکن اس کا ذہن سوچتا تھا، کھوجتا رہتا تھا اور اس کا یہی شوق اسے اسکول تک لے آیا۔ اس سے پہلے ان کے خاندان میں کسی نے اسکول کا منہ نہ دیکھا تھا۔
یہاں تک کہ خط تک پڑھنے کے لیے لوگوں کو ڈھونڈنا پڑتا تھا، یہ بچہ عبدالصمد بلوچ تھا۔ اس کا تعلق کسی غریب خاندان سے نہ تھا، ان کی زمین تھی پر پیداوار کم تھی، زیادہ بچے، زیادہ ضرورتیں اور مسائل بھی زیادہ لیکن عبدالصمد کے والدین اپنے بچوں کے لیے پرجوش تھے۔
لیاری کے اس اسکول میں ننھے عبدالصمد کے لیے ماحول اچھا تھا لیکن اسے آگے بڑھنا تھا، اس نے جلد ہی سیکھ لیا تھا کہ اسے آگے بڑھنے کے لیے انگریزی زبان کا آنا ضروری ہے کیونکہ اسے اپنا وقت اور اپنے باپ کی حلال کی کمائی اڑانا نہ تھی۔
بیٹے کی خواہش پر باپ اسے شہر کے بڑے اسکول میں لے کر گیا۔ اسکول کی پرنسپل کو پہلے ہی سب کچھ بتا دیا گیا تھا پر شاید انھوں نے بھی طے کر رکھا تھا کہ اگر ان کے اعلیٰ معیار کے مطابق بچہ نہ نکلا تو اسے گھر کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ ایسا ہی ہوا پرنسپل کے معیارات بہت بلند تھے نہ ہی بچہ شیکسپیئر کے بلند و بانگ ڈائیلاگز بول سکتا تھا نہ شیلے کی شاعری سمجھتا تھا، وہ تو اقبال کے چند اشعار اپنے باپ سے سن سن کر بڑا ہوا تھا، پر اس مقام پر ناکام ٹھہرا۔
عبدالصمد نے اپنے بھائیوں اور والدین کی نیک خواہشات کو اپنے سے جدا نہ کیا، چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو بڑا جانتے لیاری کے ہی ایک انگریزی میڈیم اسکول میں داخلہ لے لیا اور آگے بڑھتا چلا گیا۔ میٹرک میں اے ون گریڈ سے پاس ہو کر ڈی جے کالج میں داخل ہوا۔
پڑھنے کے ساتھ ٹیوشنز پڑھانے سے بھی ذہن کھلتا چلا گیا اور اے ون گریڈ کے ساتھ انجینئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں زبردست نمبر حاصل کرکے انٹری دی اور یوں اسکالر شپ حاصل کیا۔ غلام اسحق خان انسٹیٹیوٹ میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اس نے تحقیق کے شعبے میں آنا ہے۔ مختلف اداروں میں ملازمت، اسکالرشپس نے اسے ملکوں ملکوں سفر کرایا اور اس کا ریسرچ جو گرافین نامی مادے پر تھا بہت سراہا گیا۔ اس کے لیے کامیابیوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
آج ڈاکٹر عبدالصمد بلوچ ہمارے ملک کے نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے وہ اپنی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو سنبھال سنبھال کر آگے بڑھنے والا ایسا روشن ستارہ ہے جو اپنے ملک، صوبے اور علاقے کے نوجوانوں کے لیے راہیں متعین کرتا ہے کہ ناکامیوں سے گھبرا کر ریت میں منہ چھپا لینا دانش مندی نہیں حماقت ہے بلکہ آگے بڑھ کر، سنبھل کر قدم رکھنے سے مواقع اور وسائل ملنے کا امکان ہے۔
انسانوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی ذات پر اور اپنے رب کی ذات پر یقین رکھیے کہ ناکامی اور کامیابی کے بیچ اس ون ٹو ون رشتے کی طاقت اور اہمیت ہے۔ اگر ہمارا یہ رشتہ کمزور پڑا تو ہم کو ناکامیوں کی دلدل میں دھکیلنے والی دوسروں سے زیادہ ہماری اپنی ذات ہے۔
مایوسی ناکامی، نفرت، ڈپریشن نامی انگریزی بیماری کا نام نہیں بلکہ رب سے دوری کا نتیجہ ہے۔ رب سے قربت انسان کا اخلاق بلند کرنے پر توجہ دیتی ہے جو زندگی کے ہر مقام پر انسان کی طاقت بن جاتی ہے کہ انسان جہاں سے آتا ہے اور جہاں جانا ہوتا ہے۔ اس مالک کی طاقت ہی بلند ترین ہے اس آنے اور جانے کے بیچ کے سفر کو سہل بنائیں اور مثبت سوچیں تو زندگی کے جائز اور سارے خوب صورت رنگ آپ کے ہی ہیں اور یہی کامیابی کا راز ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارت اور بنگلادیش کے بگڑتے تعلقات مذاکرات بھی ناکام
محمد یونس سارک کو سرگرم کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارت مبینہ کراس بارڈر دہشت گردی کی وجہ سے اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ 2014 ء میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے یہ فورم غیر فعال ہو گیا ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
بھارت اور بنگلادیش باہمی تعلقات کو معمول پر لانے اور سرحدی کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کوششیں سر ِدست ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ تاہم ان کی نظریں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بنگلا دیش کے عبوری حکمراں محمد یونس کے درمیان اپریل میں بنکاک میں ہونے والی ممکنہ ملاقات پر مرکوز ہیں۔ تجزیہ کار رشتوں کو معمول پر لانے کے حوالے سے مسقط میں بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور بنگلہ دیش کے مشیر برائے خارجہ امور محمد توحید حسین کے درمیان ملاقات اور نئی دہلی میں دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) اور بارڈر گارڈ بنگلا دیش (بی جی بی) کے درمیان مذاکرات کا ذکر کرتے ہیں۔ بی ایس ایف اور بی جی بی کے ڈائریکٹر جنرلز کی قیادت میں ہونے والے 4روزہ مذاکرات جمعرات کے روز ختم ہو گئے۔
اگرچہ دونوں نے مذاکرات پر اظہارِ اطمینان کیا ہے لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوئے ہیں۔ مذاکرات کے دوران باہمی سرحد کی زیرو لائن سے 150 گز اندر خاردار تاروں کی باڑ لگانے، بنگلا دیش سے بھارت میں ہتھیاروں اور منشیات کی مبینہ اسمگلنگ اور شورش پسندوں کی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ مذاکرات کے اختتام پر بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل دلجیت سنگھ چودھری نے کہا کہ بی جی بی کی جانب سے خاردار تاروں کی باڑ لگانے پر اعتراض کے معاملے پر تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔ بنگلا دیش مغربی بنگال کے مالدہ ضلع میں باڑ کی تعمیر کی مسلسل مخالفت کر رہا ہے۔ مذاکرات کے دوران بی جی بی کے ڈائریکٹر جنرل محمد اشرف الزماں صدیقی نے کہا کہ تاروں کی باڑ کی تنصیب منصفانہ ہونی چاہیے۔ بین الاقوامی سرحد سے 150 گز کے اندر کسی بھی قسم کی تعمیر سے قبل بات چیت اور باہمی رضامندی ضروری ہے۔ مذاکرات کے دوران بھارت کی جانب سے بی ایس ایف جوانوں اور سویلین پر حملوں کو روکنے، بین سرحدی جرائم کی روک تھام، بنگلا دیش سے سرگرم شورش پسندوں کے خلاف مشترکہ کارروائی، سرحدی انتظام سے متعلق منصوبے کے نفاذ کی مشترکہ کوشش اور بحالی اعتماد کے اقدامات جیسے اْمور کو اٹھایا گیا۔ بی جی پی کی جانب سے تاروں کی باڑ کی تعمیر، گندے پانی کی نکاسی کے لیے ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلان (ای ٹی پی)، سرحدی حد بندی، سروے اور ستونوں کی تعمیر اور دیگر ایشوز اٹھائے گئے۔ مذاکرات کے بعد جاری کیے جانے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ فریقین تنازعات کو ہر سطح پر مسلسل، تعمیری اور مثبت بات چیت سے حل کرنے کے عزم کے پابند ہیں۔ انہوں نے مذاکرات میں کیے گئے فیصلوں کو نیک نیتی کے ساتھ نافذکرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کی جو فضا پیدا ہو گئی ہے جب تک اسے ختم نہیں کیا جائے گا تنازعات کا حل ہونا مشکل ہے۔
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اورہارڈ نیوز نامی ویب سائٹ کے ایڈیٹر سنجے کپور کے مطابق فریقین اگر چہ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کے اندر بدگمانیاں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔ ہجوم کے ہاتھوں ڈھاکا میں شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن کے گھر کو 5فروری کی شب نذر آتش کرنے کے معاملے کو بھارت نے فراموش نہیں کیا اور نہ ہی معاف کیا ہے۔یاد رہے کہ بھارت نے اس واقعے کی مذمت کی تھی۔ وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن کے مکان کو تباہ کرنے کا واقعہ افسوسناک ہے۔ وہ مکان بنگلادیش کے قومی شعور اور تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ سنجے کپور کے مطابق بنگلا دیش کے قیام میں بھارت کے تعاون سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن اس واقعے کو بھارت کے تعاون سمیت ماضی کی تاریخ کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بنگلا دیش کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری بھارت پر عائد کیے جانے کے بعد فریقین کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
میڈیا میں ایسی خبریں ہیں کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بنگلا دیش کے حکمراں محمد یونس کے درمیان رواں سال کے اپریل میں بنکاک میں منعقد ہونے والے بمسٹیک (بی آئی ایم ایس ٹی ای سی) سربراہ اجلاس کے دوران ملاقات ہو سکتی ہے۔ دونوں اجلاس میں شرکت کرنے والے ہیں۔یاد رہے کہ 16 فروری کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں منعقد ہونے والی آٹھویں انڈین اوشن کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور بنگلا دیش کے مشیر برائے امور خارجہ محمد توحید حسین کی ملاقات کے بعد بنگلا دیشی میڈیا میں مودی یونس ملاقات کی خبریں شائع ہوئی ہیں۔ سنجے کپور کہتے ہیں کہ یہ ملاقات کثیر جہتی ہو سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈھاکا چاہتا ہے کہ شیخ حسینہ خاموش رہیں، بیانات جاری نہ کریں۔ دوسری جانب شیخ حسینہ چپ رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے شیخ حسینہ کو اس کے حوالے کرنے کے لیے بھارت کو ایک نوٹ بھیجا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر زور دیتی رہے گی اور وہ شیخ حسینہ کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہتی ہے۔ لیکن بھارت انہیں ڈھاکا کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایس جے شنکر اور محمد توحید حسین نے مسقط میں ملاقات کے بارے میں الگ الگ بیانات میں کہا تھا کہ انہوں نے باہمی تعلقات کے سلسلے میں بات چیت کی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے گزشتہ سال ستمبر میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے موقع پر ہونے والی اپنی آخری ملاقات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد سے فریقین نے مختلف سطحوں پر مذاکرات کیے ہیں۔ گزشتہ سال 9ستمبر کو دونوں ممالک کے درمیان وزارت خارجہ کی سطح پر بات چیت ہوئی تھی۔ جب کہ بنگلا دیش کے توانائی کے امور کے مشیر نے نئی دہلی میں 10 سے 11 فروری کو منعقد ہونے والے انڈیا انرجی ویک کے موقع پر ملاقات کی تھی۔
سارک کو متحرک کرنے کی کوششیں
اخبار ٹائمز آف انڈیا سے وابستہ سینئر تجزیہ کار سچن پراشر کے مطابق باہمی تنازعات میں ایک تنازع جنوب ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک (ایس اے اے آر سی) کو فعال کرنے کے بارے میں ہے۔ محمد یونس سارک کو سرگرم کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارت مبینہ کراس بارڈر دہشت گردی کی وجہ سے اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے یہ فورم غیر فعال ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ بھارت بنگلا دیش میں ہندو اقلیتوں پر ہونے والے مبینہ حملوں سے نمٹنے میں عبوری حکومت کے رویے پر مسلسل تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمان میں بیان بھی دیا تھا اور یونس حکومت سے اقلیتوں پر حملوں کو روکنے کا کہا گیا تھا۔ نئی دہلی میں منعقد ہونے والے مذاکرات کے دوران بی جی بی کے ڈائریکٹر جنرل محمد اشرف الزماں صدیقی نے کہا کہ بنگلا دیش میں اقلیتوں پر حملوں کی خبریں مبالغہ آمیز ہیں۔ ان کے مطابق درگا پوجا کے موقع پر بین الاقوامی سرحد کے آٹھ کلومیٹر کے اندر پوجا پنڈالوں کو سیکورٹی فراہم کی گئی اور پوجا کا پروگرام پرامن طور پر منعقد ہوا۔