امریکی شکاری نے 42 ہزار ڈالر دےکر چترال میں مارخور کا شکار کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
چترال کی رمبور ویلی میں پہلے شکار پر کیلاشی خواتین اور مردوں نے رقص کیا اور جشن منایا۔ فوٹو : فیس بک
چترال کے گول نیشنل پارک میں امریکی شکاری نے مار خور کا کامیاب شکار کرلیا۔
چترال کی رمبور ویلی میں پہلے شکار پر کیلاشی خواتین اور مردوں نے رقص کیا اور جشن منایا۔
امریکی شکاری جیمز واکر کرافورڈ نے 42 ہزار 500 امریکی ڈالر (تقریباً1 کروڑ 19 لاکھ روپے) ادا کرکے 10 سال کی عمر کے مارخور کا شکار کیا۔
وادی میں پہلی بار مارخور کے شکار پر کیلاشی مرد اور خواتین نے روایتی رقص کرکے خوشی کا اظہار کیا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ سوم)
مغرب کے ہر دور میں بدلتے دوہرے معیار کی ایک واضح مثال کے طور پر گز شتہ بار تفصیلاً بتایا گیا کہ جولائی انیس سو اڑتیس میں فرانس کے قصبے ایویان میں امریکا اور برطانیہ سمیت بتیس ممالک کی نو روزہ کانفرنس یورپی یہودیوں کو پناہ دینے کے کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے کے بجائے اس معاملے سے فٹ بال کی طرح کھیلتی رہی۔چنانچہ نازی جرمنی نے اس مسئلے کا حل بالاخر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
ایویان کانفرنس کے ایک ماہ بعد اگست انیس سو اڑتیس میں جرمنی نے غیر ملکی باشندوں کے اجازت نامے منسوخ کر کے نئے اجازت نامے جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔جرمنی میں اس وقت بارہ ہزار پولش نژاد یہودی بھی آباد تھے۔ان سب کو نئے اجازت نامے جاری کرنے کے بجائے پولینڈ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پولش حکومت نے انھیں یوں واپس لینے سے انکار کر دیا کہ ایک قانون کے تحت پانچ برس سے زائد بیرونِ ملک رہنے والے پولش باشندوں کی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی۔بالاخر کئی دن کی رد و کد کے بعد پولش حکومت نے بارہ میں سے آٹھ ہزار یہودیوں کو اپنا شہری تسلیم کر لیا۔
ان میں سے ایک پولش نوجوان یہودی تارکِ وطن ہرشل گرنزپین جو خود پیرس میں مگر اس کا خاندان انیس سو گیارہ سے جرمنی میں رہ رہا تھا۔اسے بھی جبراً پولینڈ بھیجا گیا۔ہرشل نے طیش میں آ کر سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارتکار ارنسٹ وان راتھ کو قتل کر دیا۔
نازی جرمنی نے اس واقعہ کا سنجیدگی سے نوٹس لیا۔ارنسٹ کے قتل کے دو روز بعد جرمن شہروں اور قصبات سے پولیس ہٹا لی گئی اور ہٹلر یوتھ کے دستے پورے ملک میں پھیل گئے۔عام جرمن بھی ان کے ساتھ مل گئے۔نو اور دس نومبر کی درمیانی شب جرمن تاریخ میں ’’ کرسٹل ناخت‘‘ (شیشوں کی رات ) کے نام سے مشہور ہے۔
اس رات جرمنی اور آسٹریا میں ایک ہزار سے زائد یہودی عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ساڑھے سات ہزار دوکانوں اور اسٹورز کو پھونک دیا گیا۔تیس ہزار سے زائد یہودی حراست میں لے کر لیبر کیمپوں میں بھیج دیے گئے۔اکیانوے یہودی مشتعل مجمع کے ہاتھوں قتل ہوئے۔یہودی قبرستانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
ان واقعات کی یورپی اور امریکی میڈیا میں خاصی کوریج ہوئی۔آخری جرمن بادشاہ قیصر ولیلہم دوم نے تبصرہ کیا کہ ’’ پہلی بار مجھے جرمن ہونے پر شرمندگی ہے‘‘۔ امریکا نے ان واقعات کی مذمت میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا مگر سفارتی تعلقات نہیں توڑے۔
کرسٹل ناخت کے نتیجے میں اگلے دس ماہ میں مزید ایک لاکھ پندرہ ہزار جرمن یہودی ملک چھوڑ گئے۔
کرسٹل ناخت سے پہلے یہودیوں کو سماجی اور اقتصادی طور پر الگ تھلگ کر کے جرمنی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا مگر اب نوبت جسمانی حملوں اور اجتماعی تشدد تک پہنچ چکی تھی۔فضا بتدریج نسل کشی کے لیے تیار ہو رہی تھی۔مگر یہودیوں کے ہمدرد کہلائے جانے والے ممالک اب بھی اپنے دروازے کھولنے کو تیار نہیں تھے۔
مارچ انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے پورے چیکوسلوواکیہ پر قبضہ کر لیا۔یوں مزید ایک لاکھ اسی ہزار یہودی جرمن قبضے میں آ گئے۔برطانیہ نے کرسٹل ناخت کے بعد ترس کھا کر دس ہزار کمسن بچوں کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا مگر ان کے والدین کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔جون انیس سو انتالیس تک آسٹریا ، چیکو سلوواکیہ اور جرمنی کے تین لاکھ نو ہزار یہودیوں نے ستائیس ہزار امریکی امیگریشن ویزا کوٹے کے لیے درخواست دی۔
اگر ستمبر انیس سو انتالیس کے ہالوکاسٹ انسائیکلو پیڈیا کے اعداد و شمار پر اعتبار کر لیا جائے تو ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے بعد اگلے سات برس میں ساڑھے پانچ لاکھ جرمن یہودی آبادی میں سے دو لاکھ بیاسی ہزار اور آسٹریا کے ایک لاکھ سترہ ہزار یہودی ملک چھوڑ چکے تھے۔مجموعی طور پر یہ تعداد تین لاکھ ننانوے ہزار بنتی ہے۔ان میں سے پچانوے ہزار امریکا ، ساٹھ ہزار فلسطین ، چالیس ہزار برطانیہ ، پچھتر ہزار وسطی و جنوبی امریکا اور اٹھارہ ہزار جاپان کے زیرِ قبضہ شنگھائی پہنچ گئے۔
جنگ شروع ہونے تک جرمنی میں صرف دو لاکھ دو ہزار اور آسٹریا میں ستاون ہزار یہودی باقی رہ گئے۔ان میں سے بیشتر عمر رسیدہ لوگ تھے۔ اکتوبر انیس سو اکتالیس میں جب یہودیوں کی نقل مکانی پر نازی جرمنی نے مکمل پابندی لگا دی تب تک جرمنی میں صرف ایک لاکھ تریسٹھ ہزار یہودی باقی تھے۔اس دوران جرمنی نے فرانس ، ہالینڈ، پولینڈ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، بلجئیم، ناروے، ڈنمارک پر قبضہ کر لیا تھا۔اگر ان سب ممالک کی یہودی آبادی کو یکجا کر کے فرض کر لیا جائے کہ اکتوبر انیس سو اکتالیس کے بعد سب کو گیس چیمبر میں بھیج دیا گیا تب بھی ساٹھ لاکھ کا عدد پورا نہیں ہوتا۔یہ عدد کیسے تاریخ کا حصہ بنا ؟ یہ سوال اٹھانا بھی سنگین یہود دشمنی کے برابر ہے ؟
بہت سے یورپی ممالک میں اس عدد کو چیلنج کرنے کی سزا جیل ہے۔
بہرحال ایک واقعہ اور سن لیجیے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ آج جو اسرائیل کے محسن بنے پھر رہے ہیں پچاسی برس پہلے انھوں نے کیا کیا۔
جنگ شروع ہونے سے لگ بھگ ساڑھے تین ماہ قبل تیرہ مئی انیس سو انتالیس کو ایک جرمن مسافر بردار جہاز سینٹ لوئی جرمن بندرگاہ ہیمبرگ سے کیوبا کی بندرگاہ ہوانا کے لیے روانہ ہوتا ہے۔اس میں نو سو سینتیس جرمن یہودی ہیں۔ انھوں نے کیوبا کا ویزہ اور لینڈنگ سرٹیفکیٹ ڈیڑھ سو ڈالر فی کس رشوت دے کر خریدا ہے۔ان میں سے اکثر نے امریکی ویزے کے لیے بھی اپلائی کر رکھا ہے تاکہ فیصلہ ہونے تک کیوبا میں رہ کر انتظار کر لیا جائے۔کیوبا میں پہلے ہی سے ڈھائی ہزار یہودی تارکینِ وطن موجود ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ ، اور امریکی یہودیوں کی کچھ تنظیموں کو خبر ہے کہ اس جہاز کی روانگی سے ایک ہفتے قبل کیوبا میں صدر فریدریکو برو کی حکومت نے امیگریشن قوانین بدل دیے ہیں۔نئے قوانین کے تحت پرانے لینڈنگ سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ نئے سرٹفیکیٹ صرف کیوبا کی وزارتِ خارجہ جاری کر سکتی ہے اور اس کی فیس پانچ سو ڈالر فی مسافر ہے۔ خدشہ ہے کہ منسوخ سرٹفیکیٹس کی بنیاد پر سینٹ لوئی کے مسافروں کو کیوبا قبول نہ کرے۔مگر جہاز راں کمپنی کی جانب سے سینٹ لوئی میں سوار مسافروں کو کوئی خبر نہیں دی گئی۔
جب ستائیس مئی کو سینٹ لوئی ہوانا کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہوتا ہے تو صرف اٹھائیس مسافروں کو اترنے کی اجازت ملتی ہے۔ان میں وہ بائیس یہودی بھی ہیں جن کے پاس امریکی ویزہ بھی ہے ۔باقی نو سو آٹھ مسافروں کو اترنے کی اجازت نہیں ہے۔یہ خبر امریکی اور یورپی اخبارات میں شہہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوتی ہے۔دو جون کو جہاز کو مسافروں سمیت کیوبا کی حدود سے نکل جانے کا حکم ملتا ہے۔
سینٹ لوئی کا رخ میامی کی طرف ہے۔کچھ مسافر وائٹ ہاؤس تار بھیجتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ایک مسافر کو جوابی تار آتا ہے کہ وہ ضوابط کے مطابق اپنی درخواست پر فیصلے کا انتظار کرے۔درخواستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان پر ترتیب وار غور کیا جا رہا ہے۔جرمنی اور آسٹریا کے لیے سالانہ امریکی کوٹا ستائیس ہزار تین سو ستر مقرر ہے۔
سیٹ لوئی کے علاوہ ایک سو چار مسافروں سے بھرے فرنچ جہاز فلنادرے اور بہتر مسافروں سے بھرے برطانوی جہاز اورڈونا کو بھی واپس کر دیا جاتا ہے۔اورڈونا کے مسافروں کو بہرحال امریکی انتظام کے علاقے پاناما میں اترنے کی عارضی اجازت مل جاتی ہے۔
سینٹ لوئی اپنے مسافروں سمیت یورپ پہنچتا ہے۔ان میں سے دو سو اٹھاسی مسافروں کو برطانیہ ، ایک سو اکیاسی کو ہالینڈ ، دو سو چودہ کو بلجئیم اور دو سو چوبیس کو فرانس عارضی ویزہ جاری کر دیتے ہیں۔جو مسافر برطانیہ میں اتر جاتے ہیں وہ زندہ بچ جاتے ہیں۔جب کہ ہالینڈ ، بلجیم اور فرانس میں اترنے والے پانچ سو بتیس مسافر ان ممالک پر مئی انیس سو چالیس میں جرمن قبضے کے بعد کنسنٹریشن کیمپوں میں بھیج دیے جاتے ہیں۔ (جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)