دشمن سید حسن نصر اللہ کے جنازے سے خوفزدہ ہیں!
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: لوگوں کو بیروت کی طرف جانے سے روکنے کے لیے ایک بے مثال سیاسی، میڈیا اور امنیتی کوشش ہو رہی ہے، اس لیے نہیں کہ لبنانی دارالحکومت کی سلامتی خطرے میں ہے، بلکہ اس لیے کہ اتوار کے دن کا ایک منظر تل ابیب اور واشنگٹن میں فیصلہ ساز حلقوں کے ذہنوں کے ذریعے بنائے گئے تمام منصوبوں کو تباہ کر دے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ لوگ جو حزب اللہ کے سکریٹری جنرل شہید سید حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد سے یہ استدلال کر رہے ہیں کہ مزاحمت ناکام ہو گئی ہے اور اس کی مقبولیت اور قانونی حیثیت ختم ہو گئی ہے، وہ اس واقعے کو رونما ہونے سے روکنے کے طریقے سوچنے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں۔ تحریر: مینا عظیمی
ابھی میتیں اٹھائی نہیں گئیں، سڑکیں ہجوم سے نہیں بھریں اور لوگوں نے نعرے بلند کر کے شہدا کیساتھ ایفائے عہد کے عزم اظہار نہیں کیا، کیمروں نے ابھی تک اس منظر کی عظمت کو ریکارڈ نہیں کیا، لیکن بند دروازوں کے پیچھے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک حماقت ہے۔ کیا؟ یہی کہ دشمن سید حسن نصر اللہ کے جنازے سے خوفزدہ ہیں! لوگوں کو بیروت کی طرف جانے سے روکنے کے لیے ایک بے مثال سیاسی، میڈیا اور امنیتی کوشش ہو رہی ہے، اس لیے نہیں کہ لبنانی دارالحکومت کی سلامتی خطرے میں ہے، بلکہ اس لیے کہ اتوار کے دن کا ایک منظر تل ابیب اور واشنگٹن میں فیصلہ ساز حلقوں کے ذہنوں کے ذریعے بنائے گئے تمام منصوبوں کو تباہ کر دے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ لوگ جو حزب اللہ کے سکریٹری جنرل شہید سید حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد سے یہ استدلال کر رہے ہیں کہ مزاحمت ناکام ہو گئی ہے اور اس کی مقبولیت اور قانونی حیثیت ختم ہو گئی ہے، وہ اس واقعے کو رونما ہونے سے روکنے کے طریقے سوچنے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں، گویا یہ اجتماع ان کے وجود کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے سید حسن نصر اللہ کے جنازے کے متعلق ایک نئی جنگ شروع کی۔
سید مقاومت کے جنازے کے خلاف بین الاقوامی مہم:
پہلے ہی لمحے سے، ایک بین الاقوامی مہم شروع کی گئی تھی، جس کا مقصد بیروت کی طرف ناقابل بیان تعداد کی نقل و حرکت کو روکنا تھا۔ جب ہم بین الاقوامی کہتے ہیں تو ہمارا لفظی مطلب پوری دنیا ہے۔ ایئر لائنز نے ترکی اور یورپی ممالک کے سیکڑوں مسافروں کے لیے ریزرویشن منسوخ کر دیے ہیں، یورپ سے 120 سے زیادہ پروازیں منسوخ یا ملتوی کر دی گئی ہیں۔ ترکش ایئر لائنز نے کوئی واضح وضاحت فراہم کیے بغیر اپنی 20% پروازیں باضابطہ طور پر منسوخ کر دی ہیں، جن میں جرمنی جانے والی پروازیں بھی شامل ہیں۔ کچھ ہوائی اڈوں پر لبنانی مسافروں کو بھی بلایا گیا اور ان کے سفر کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا، ایسا منظر جو لبنان کی خانہ جنگی کے تاریک ترین دور میں بھی ظاہر نہیں ہوا تھا۔ دباؤ فضائی سرحدوں پر نہیں رکا، بلکہ اس میں وہ کمپنیاں، ادارے اور میڈیا آوٹ لیٹس بھی شامل ہیں جو شرکاء کو ڈرانے دھمکانے کے ذمہ دار ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ ہوٹلز اور کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو برطرف کرنے کی دھمکی دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی کا لہجہ بڑھتا جا رہا ہے، گویا ہم کسی بڑے واقعے کے دہانے پر ہیں جس سے موجودہ عالمی نظام کو خطرہ ہے۔ آج کل مغربی حلقے جن اہم ترین لڑائیوں کو چھیڑنے کے خواہاں ہیں، ان میں سے صرف سیاسی میدان ہی شامل نہیں، بلکہ انہیں یادگار لمحات کے محفوظ کئے جانے کا خوف بھی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کس چیز کا انتخاب کریں تیزی سے ایک کے بعد دوسری تصاویر اور مناظر ہیں، ان کو ہٹائیں یا منظر پر رہنے دیں، جو بے حد و حساب عوامی شرکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لئے بڑی ٹیک کمپنیوں نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ پر ایسے صارف اکاؤنٹس کو محدود کرنا شروع کر دیا ہے، جو جنازے کے دن کے لیے مرحلہ وار تیاری پر عمل پیرا ہیں اور جنازے سے متعلق کسی بھی پوسٹ کو شروع ہونے سے پہلے ہی ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ کے جنازے پر اسرائیلی حملے کا احتمال:
آئیے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں اور ایک واضح سوال پوچھتے ہیں کہ اگر حزب اللہ ناکام ہو گئی ہے، جیسا کہ اس کے مخالفین کا دعویٰ ہے اور اگر اس کے حامی تھک ہار چکے ہیں، اداس اور مایوس ہیں، تو ایک جنازے کے اجتماع پر اسقدر گھبراہٹ کیوں؟ سید حسن نصراللہ کے جنازے میں شرکت کرنے والوں پر اسرائیلی دہشت گرد حکومت کی طرف سے براہ راست حملے کے احتمال کیساتھ عوام کی شرکت کو روکنے کے لیے انہیں اس حد تک جانے کی کیا ضرورت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جنگ ایک آدمی کے جنازے پر نہیں ہے، بلکہ اس آدمی کا ایک خاص علامت بن کر اجتماعی شعور میں سمو کر اس ہدف کی نمائندگی کرنا ہے، اس علامت بن جانے کی حیثیت کو مٹانے کی خواہش ہے۔ جب لاکھوں لوگ ان کے نام کا نعرہ لگانے کے لیے نکلتے ہیں تو وہ اس شخص کے لیے نعرے نہیں لگا رہے جو شہید ہو گیا ہو، بلکہ اس مقصد کے لیے، جس کو شکست نہیں ہوئی۔ جب ہجوم دیہی علاقوں سے بیروت میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ راکٹ سے زیادہ مضبوط اور زیادہ واضح پیغام لے کر جاتے ہیں، ہم یہاں ہیں، ہم مزاحمت جاری رکھیں گے اور یہ سرزمین ہماری ہے۔ یہ صرف ایک جنازہ نہیں ہے بلکہ اس عظیم جنگ کے بارے میں ایک مقبول ریفرنڈم ہے، جس کے لئے مزاحمت چار دہائیوں سے لڑ رہی ہے۔ یہ واضح اعلان کا لمحہ ہے کہ دہشت گردی سے کچھ نہیں بدلے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ دشمن جسم سے نہیں ڈرتے اش شخص سے خوفزدہ ہیں جس کی خاطر سب اکٹھے ہو رہے ہیں۔
باطل دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کی عظیم مثال:
تشیع جنازے کے مراسم پر حملہ نہ صرف ایک سیاسی جدوجہد ہے، بلکہ یہ جنگ معنویت، اقدار اور تاریخی تجربے پر مبنی عمیق مبارزہ کی عکاس ہے۔ یقیناً ایسے معاشرے ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی تاریخ میں اس سے بڑا لمحہ کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی وہ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ ایک ایسے لیڈر کا کیا مطلب ہے، جو دشمن کا آخری دم تک مقابلہ کرے۔ ان کے لیے قیادت ایک پیشہ ہے، عہدہ ایک ذاتی مقصد ہے اور ان کے اتحاد مادی مفادات پر استوار ہوتے ہیں، اصولوں پر نہیں۔ اس لیے ان لوگوں کے لئے سید حسن نصر اللہ کے جنازے کے دن جیسا منظر، جس میں لاکھوں لوگ ایک ایسے رہنما کو الوداع کرنے کی تیاری کرتے ہیں، جس نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا، ایک متحرک اور اشتعال انگیز منظر ہے، کیونکہ یہ انہیں ان کے سیاسی تجربات کی ناکامی کی یاد دلاتا ہے اور ان کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ حملہ سیاسی اور میڈیا اشرافیہ کی طرف سے بھی ہے جو اپنے عوام کے اجتماعی جذبات سے رابطہ کھو چکے ہیں، ان لوگوں کے لیے سب سے خطرناک حصہ وہ ہے جس سے یہ خوف محسوس کرتے ہیں، وہ خطرہ انہیں اپنے اردگرد کے سماجی ماحول سے ہے، جنہوں نے کبھی ایسا لمحہ نہیں گزارا، انہوں نے اپنے قائدین کو میدان میں لڑنے کے بجائے سفارت خانوں کی طرف بھاگتے دیکھا ہے۔ یہ ماحول کسی بھی طرح کے تجربے سے خالی ہے۔ اس لیے یہ سید حسن نصر اللہ کے باعظمت طرز قیادت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں، نہ صرف اس لیے کہ وہ مزاحمت اور مقاومت کو غلط سمجھتے ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ایسے لوگوں نے کبھی بھی ایسی پروقار قیادت کے سائے میں اس جیسا قابل فخر تجربہ نہیں کیا۔ تجربے کی یہ محرومی کچھ لوگوں کی طرف سے نہ صرف سیاسی اثر و رسوخ کے خوف سے شیعان علی علیہ السلام کیخلاف حملہ کرنے کا باعث بنتی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک تاریخی لمحے سے محروم ہو گئے ہیں جو کبھی نہیں دہرایا جائے گا۔ کچھ لڑائیاں صرف ہتھیاروں کی نہیں ہوتیں، بلکہ جذبات اور اقدار کے بارے میں بھی ہوتی ہیں، جو ان لوگوں کے درمیان ہوتی ہیں جن کی یادداشت اٹل موقف اور قربانی سے بھری ہو اور مقابلے میں وہ لوگ جو خاص وجودی خلا سے دوچار ہوتے ہیں جسے وہ اشتعال اور نفرت سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سید حسن نصر اللہ کے جنازے سے روکنے کے بلکہ اس لیے کر رہے ہیں ہو گئی ہے نہیں کیا کرتے ہیں جنازے کے یہ ہے کہ کی طرف ہے اور ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
الفیتہ الجہاد فی سبیل اللہ
کتابیں تو ہر دور میں بے شمار لکھی جاتی رہیں ، آج بھی لکھی جا رہی ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔مگر کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا تاثر اور تاثیر صدیوں تک برقرار رہتی ہے، جی ہاں کچھ کتابیں آنکھوں سے دماغ تک اور دماغ سے دل تک پہنچتی ہیں اور دل ہی میں پیوست ہو کر رہ جاتی ہیں، ہر پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں ہر پڑھنے والا ہر بار نئی چاشنی اور رہنمائی محسوس کرتا ہے ،ایسی کتابیں صرف ہاتھوں ہاتھ بکتی ہی نہیں بلکہ انسانیت کے دلوں پر حکمرانی کرتی ہیں، ظلم و عدوان سے بھری ہوئی اس دنیا میں حق اور سچ کا عدل و انصاف پر مبنی ہمہ جہت عالمگیر انقلاب برپا کرنے کی دعوت دیتی ہیں،آج ایک ایسی ہی کتاب اور اس سے نکلنے والی روحانی نورانی کرنوں پر خامہ فرسائی کرنے لگا ہوں ۔’’الفیہ شریف‘‘کی تعریف اور تعارف اگرچہ کافی دنوں سے مختلف صحافی دوستوں اور درد دل رکھنے والے مسلمانوں سے سنتا چلا آ رہا تھا، مگر اب تک اس کی نورانی جھلک دیکھنے سے قاصر تھا، اللہ پاک جزائے خیر دے ہمارے دوست مولانا خالد اسلام آف کراچی کو کہ جن کے توسط سے یہ نورانی تحفہ بندہ ناچیز تک پہنچا ۔پہلی نظر پڑتے ہی دل و دماغ کے تمام دریچے روشن ہو گئے، خوبصورت ٹائٹل بہترین جلد بندی اعلیٰ معیار کا چاندی جیسا سفید کاغذ انتہائی معیاری اور دلکش کمپوزنگ اور سب سے بڑھ کر صاحب طرز ادیب درجنوں کتابوں کے مصنف مجدد جہاد امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر کے شاندار قلم سے اس کتاب کا لکھا گیا تعارف مقدمہ آخری دور کے مسیحہ حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جام تعارف ان کے حالات اور جہاد پر مشتمل دیباچہ میری آنکھوں اور دل کو نور علی نور کر گیا ۔
اس کتاب کی مذکورہ بالا عبقری صفات دیکھ کر ایک صحافی دوست نے تو یہاں تک لکھا کہ دور حاضر میں امت مسلمہ کی عزت وقار عروج اور غلبے کے لئے اس کتاب کا ہر مسلمان گھرانے میں ہونا بے حد ضروری ہے، صرف کتاب کا ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کتاب میں موجود احادیث مبارکہ ایک ایک مرد ایک ایک عورت اور ایک ایک بچے کو ازبر یاد کرا دینا بھی ضروری ہے، صاحب کتاب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس مبارک کتاب کی توفیق ملی والحمدللہ رب العالمین۔ کتاب کا نام ’’الفی الجہاد فی سبیل اللہ‘‘ہے اور یہ خالص حدیث شریف کی کتاب ہے اس میں جہاد فی سبیل اللہ کے موضوع پر حضور اقدس حضرت محمد ﷺکی ایک ہزار مرفوع احادیث جمع کی گئی ہیں ۔عربی زبان میں ایک ہزار کو الف کہتے ہیں الفیہ یعنی ایک ہزار کا مجموعہ اب تک الفیہ کے نام سے جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ ایک ہزار اشعار پر مشتمل ہیں اسی وجہ سے اہل فن کے نزدیک الفیہ اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں کسی ایک موضوع پر ایک ہزار اشعار ہوں،مگر الفی الجہاد فی سبیل اللہ میں اشعار نہیں ہیں،بلکہ حضور اقدس ﷺکی ایک ہزار احادیث مبارکہ ہیں اہل فن سے معذرت، کہ ان کی اصطلاح سے یہ بات ہٹ کر ہے مگر سب جانتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے عرفی اصطلاحات عرف کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں، الفی الجہاد فی سبیل اللہ کا نام دو دہائیوں سے دل میں بسا ہوا تھا، حضرت آقا محمد مدنی ﷺکی ایک ہزار جہادی احادیث مبارکہ اللہ کا شکر ہے کہ اب یہ وجد آفرین نام وجود میں آرہا ہے، یہ کتاب کن مشکل ترین حالات میں لکھی گئی مولانا لکھتے ہیں ۔قرآن مجید کی آیات جہاد پر کام چل رہا تھا حالات کچھ سخت تھے اور بظاہر سخت تر ہوتے جا رہے تھے دل میں خدمت جہاد کے کچھ نقشے تھے، گمنامی کے سفر میں ایک کاغذ پر چند کتابوں کے نام لکھ لئے کہ اللہ تعالیٰ نے موقع عطا فرمایا تو ان پر کام کریں گے انشااللہ۔ اور اگر نہ کر سکے تو یہ فہرست کسی کے لئے ان کتابوں پر کام کی ترغیب بن جائے گی، انشااللہ۔ ان کتابوں میں پہلا نام الفی الجہاد فی سبیل اللہ کا تھا ۔کاغذ پر الفی الجہاد فی سبیل اللہ کا نام لکھے 20 برس یا کچھ زیادہ کا عرصہ گزر گیا، مگر خواب تشنہ رہا بالآخر اللہ تعالیٰ نے احادیث مبارکہ کو جمع کرنے کے لئے مناسب حالات نصیب فرمائے، کام شروع ہو گیا کام بڑا بھی تھا اور مشکل بھی، مگر اللہ تعالیٰ جب رحمت فرماتے ہیں تو اسباب جڑتے چلے جاتے ہیں۔
حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت رکھی ہے ایسی برکت جو بے شمار برکات کا مجموعہ ہے۔ بس قسمت کھل جائے اور انسان ادب کے ساتھ حدیث شریف کی خدمت کے لئے جم کر بیٹھ جائے، پھر جو کچھ ہوتا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، پہاڑوں جیسی مشکلات دور ہو جاتی ہیں، بیماریاں راستہ روکنا چھوڑ دیتی ہیں اور وقت میں حیرت انگیز وسعت اور برکت آ جاتی ہے اور انسان گویا کہ کسی اور جہان میں پہنچ جاتا ہے، احادیث مبارکہ جمع ہو چکی تھیں، اب کتاب بنانے کا کام تھا اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی بس یوں سمجھیں کہ ہاتھ پکڑ لیا اور کام پر بٹھا دیا سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ صاحب کتاب کی دوران تصنیف اپنی کیفیات کیا رہیں ۔ اس بارے میں مولانا لکھتے ہیں ۔احادیث مبارکہ سے آنکھیں ٹکرائیں تو دل میں ایک ایسا سرور اترا جس کی معلوم نہیں کب سے تڑپ تھی، سچ پوچھیں تو زندگی کے بہترین دنوں میں سے یہ چند دن بھی تھے جن میں زندگی آسان تھی پرلطف اور حسین تھی، ہر حدیث شریف سیدھی دل میں اترتی تھی، الحمدللہ جہاد کی محبت میں اضافہ ہوا جہاد پر شرح صدر میں ترقی ہوئی جہاد کی ادنی خدمت کا موقع ملنے پر اپنی قسمت اچھی لگنے لگی اور دل میں وہ سچی امیدیں اور بڑھ گئیں جو غلبہ اسلام کے بارے میں ہر مسلمان کو تسلی دیتی ہیں، ایک خیال جو دل کو خوشی سے مست کر دیتا تھا وہ اس کام کے دوران حاوی رہا کہ اب بے شمار مسلمانوں کے گھر میں آیات جہاد کی الگ کتاب اور احادیث جہاد کی الگ کتاب موجود ہوگی فریض جہاد کے انکار کے دور میں یہ کسی مسلمان کے گھر کے لئے کتنی بڑی برکت ہوگی کہ وہ حالات سے نہیں گھبرایا اس نے جبر و تشدد کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور اس نے دین میں کوئی کمی برداشت یا گوارا نہیں کی وہ آیات جہاد کو سر آنکھوں پر رکھے بیٹھا ہے، اور احادیث جہاد کو بھی سر آنکھوں پر جگہ دیتا ہے دنیا جو کچھ بھی بن جائے بات تو اللہ اور رسول ؐہی کی چلنی ہے، لوگ جو کچھ کہتے ہیں کہتے رہیں کامیابی تو اللہ اور رسول ؐکے راستے پر ہی ملنی ہے ۔ آخر میں مولانا مسعود ازہر کی وقیع علمی عملی اور قلمی خدمات پر ایک شعر پیش خدمت ہے ۔
ملے گی غلب اسلام کی منزل یقینا کہ
نہیں جائے گی محنت رائیگاں مسعود ازہر کی