ٹرمپ کا خواب یا انسانی حقوق کا ڈراونا خواب
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: بین الاقوامی قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو جبری طور پر کسی اور علاقے کی جانب نقل مکانی پر مجبور کرنا انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے اور حتی یہ اقدام ایک جنگی جرم یا انسانیت کے خلاف جرم بھی قرار پا سکتا ہے۔ غزہ کی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرزمین میں زندگی بسر کریں اور ان کی کسی قسم کی جبری جلاوطنی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ مزید برآں، غزہ کے باسی ایک ایسے تاریخی تشخص اور گہری تہذیب کے حامل ہیں جو ان کی سرزمین سے جڑی ہوئی ہے۔ لہذا انہیں کسی اور جگہ منتقل کرنے کا مطلب اس تشخص کو نظرانداز کرنا اور نفسیاتی اور سماجی بحران پیدا کرنا ہے۔ حتی عبری ذرائع ابلاغ نے بھی خبردار کیا ہے کہ اہل غزہ کی جبری جلاوطنی جنگی جرم قرار پا سکتا ہے۔ تحریر: کتایون مافی
رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامک جہاد فلسطین کے سیکرٹری جنرل اور ان کے ہمراہ وفد سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ سے متعلق منصوبہ احمقانہ ہے اور وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گا۔ رہبر معظم نے اس منصوبے کی حقیقت واضح کر دی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر نہ صرف اپنے منصوبے کے سامنے عملی اور انسانی حقوق کے چیلنجز سے روبرو ہے بلکہ ایسے منصوبے کے بانی کی عقل میں بھی شک کرنا چاہیے۔ امریکی صدر نے اس بحران سے بے توجہی کرتے ہوئے جو کئی سالوں سے جاری محاصرے اور فلسطینی عوام کے خلاف جنگ اور بے انصافی کے باعث معرض وجود میں آیا ہے ایک انتہائی عارضی اور سطحی راہ حل پیش کیا ہے۔ امریکی صدر نے حتی ایک قوم کا ماضی بھی نظرانداز کر ڈالا ہے جس کے باعث مغربی تجزیہ کار بھی اسے ایک قسم کی حماقت اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اسی طرح خود امریکہ کے اندر بھی رائے عامہ اس منصوبے کی مخالف ہے اور بڑی تعداد میں امریکی سیاست دانوں اور عوام نے ٹرمپ کے یکطرفہ اور غیر انسانی اقدامات کی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ کے معروف کالم نویس تھامس فرائیڈمین نے اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے تازہ ترین کالم میں غزہ کی مالکیت سے متعلق امریکی صدر کے منصوبے کی شدید مذمت کرتے ہوئے لکھا: "ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر کنٹرول کرنے، وہاں سے بیس لاکھ فلسطینیوں کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے اور ایک تفریح گاہ بنانے سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلاقیت اور پاگل پن کے درمیان بہت کم فاصلہ ہے۔" وہ مزید لکھتا ہے کہ ٹرمپ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے شدت پسند دائیں بازو کے رہنماوں اور عیسائی اینجلسٹ کی نظر سے مشرق وسطی کو دیکھتی ہے۔
بین الاقوامی قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو جبری طور پر کسی اور علاقے کی جانب نقل مکانی پر مجبور کرنا انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے اور حتی یہ اقدام ایک جنگی جرم یا انسانیت کے خلاف جرم بھی قرار پا سکتا ہے۔ غزہ کی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرزمین میں زندگی بسر کریں اور ان کی کسی قسم کی جبری جلاوطنی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ مزید برآں، غزہ کے باسی ایک ایسے تاریخی تشخص اور گہری تہذیب کے حامل ہیں جو ان کی سرزمین سے جڑی ہوئی ہے۔ لہذا انہیں کسی اور جگہ منتقل کرنے کا مطلب اس تشخص کو نظرانداز کرنا اور نفسیاتی اور سماجی بحران پیدا کرنا ہے۔ حتی عبری ذرائع ابلاغ نے بھی خبردار کیا ہے کہ اہل غزہ کی جبری جلاوطنی جنگی جرم قرار پا سکتا ہے۔
کچھ اسرائیلی تجزیہ کاروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک سیاسی بلبلے میں رہ رہے ہیں۔ امریکہ کی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر نے بھی اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر قبضہ کرنے پر مبنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ مضحکہ خیز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کا واحد مقصد قومی صفایا اور نسل کشی ہے اور فلسطینی عوام غزہ میں ہی باقی رہیں گے۔ دوسری طرف ہمیں اس بات سے غافل نہیں ہونا چاہیے کہ غزہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا گنجان آباد ترین علاقہ ہے اور بیس لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو دوسری سرزمین منتقل کرنے کے لیے وسیع مالی اور لاجسٹک وسائیل درکار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ وقت کی بھی ضرورت ہے جو عملی طور پر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں موجود سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے پیش نظر کوئی ملک بھی اتنی بڑی آبادی قبول کرنے پر تیار نہیں ہو گا۔
ٹرمپ کا یہ خیالی ترین منصوبہ مشرق وسطی میں تناو کی شدت میں مزید اضافے کا باعث بنے گا اور عرب ممالک، بین الاقوامی تنظیموں اور فلسطین کے مزاحمتی گروہوں کی جانب سے شدید ردعمل بھی سامنے آئے گا۔ حتی ایسا اقدام ممکن ہے مزید جنگوں اور خطے میں مزید عدم استحکام کا بھی باعث بن جائے۔ امریکی صحافی فرائیڈمین اس بارے میں لکھتا ہے: "ٹرمپ کا منصوبہ کسی امریکی صدر کی جانب سے مشرق وسطی میں امن کے لیے پیش کیے جانے والا خطرناک ترین منصوبہ ہے۔" وہ مزید لکھتا ہے: "ایسا راہ حل پیش کرنے کی جرات فلسطینیوں اور حتی اسرائیلیوں کی توہین ہے جس میں انتقال، قومی صفایا اور دیگر جنگی جرائم کو دہرایا گیا ہے۔" یہ امریکی صحافی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ پوری اسلامی دنیا میں امریکی سفارت خانوں اور مفادات کو خطرے میں ڈال دے گا۔
عبری ذرائع ابلاغ اس منصوبے کے بارے میں لکھتے ہیں: "یہ منصوبہ عملی پہلو سے کوئی اساس اور بنیاد نہیں رکھتا اور صرف ایک ایسا خواب ہے جو خطے کی سیاسی اور فوجی حقیقت سے بہت دور ہے۔" فرائیڈمین نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں ٹرمپ کے منصوبے کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا: "اس طرح کا منصوبہ شاید فلموں میں ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ نہ تو امریکہ کرے گا اور نہ ہی کوئی اور طاقت کرے گی بلکہ یہ فیصلہ صرف فلسطینی قوم ہی کرے گی۔ ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مشرق وسطی خطے کے حالیہ بحران کا واحد راہ حل غزہ میں مکمل اور پائیدار امن کی بحالی، صیہونی فوج کی فلسطینی سرزمینوں سے انخلاء اور فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی پر مشتمل ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی جبری جلاوطنی قرار پا سکتا ہے فلسطینیوں کو بین الاقوامی امریکی صدر کا منصوبہ جنگی جرم ٹرمپ کا کسی اور کی جانب ہے اور اور ان اس بات غزہ کی کیا ہے کہ غزہ
پڑھیں:
ایران جوہری ہتھیار کا خواب ترک کرے ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار رہے، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو سخت الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران اگر جوہری ہتھیار بنانے کا خواب نہیں چھوڑتا تو امریکا فوجی کارروائی سمیت ہر ممکن آپشن استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران بظاہر امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے پر پیشرفت میں تاخیر کررہا ہے اور اگر اس نے اپنے عزائم ترک نہ کیے تو امریکا سخت ردعمل دے گا۔
مزید پڑھیں: ایران نے معاہدہ نہ کیا تو ایسی بمباری ہوگی جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی، ٹرمپ کی کھلی دھمکی
ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار کا خیال چھوڑ دینا ہوگا، انہیں یہ واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایران نے معاہدہ نہ کیا تو کیا امریکا فوجی حملے کا راستہ اختیار کرے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یقیناً، ہمارے پاس تمام آپشنز موجود ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے کافی قریب پہنچ چکا ہے اور اسے جلد فیصلے لینے ہوں گے تاکہ امریکا کے سخت ردعمل سے بچا جا سکے۔
ادھر عمان میں حالیہ دنوں امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات کا پہلا دور ہوا، جسے فریقین نے مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ دوسرا دور آئندہ ہفتے اٹلی کے دارالحکومت روم میں متوقع ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا سے بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار، ایران نے ٹرمپ کے خط کا جواب دیدیا
ذرائع کے مطابق ان مذاکرات کا مقصد ممکنہ معاہدے کے فریم ورک پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔ یاد رہے کہ سابق صدر باراک اوباما کے دور میں 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کو ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 میں ختم کر دیا تھا، جبکہ بائیڈن دور میں بھی ایران کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں مگر خاطر خواہ پیشرفت نہ ہو سکی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران ٹرمپ