اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 فروری 2025ء) جرمنی کے مشرقی حصے میں بہت سے جرمن شہری یوکرین کی حمایت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور روس کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ یہی چیز سیکسنی، تھورنگیا اور برانڈن برگ میں انتخابات سے پہلے انتخابی مہم میں بھی حاوی نظر آئی۔

خارجہ پالیسی: ایک طویل عرصے تک، یہ ایک ایسا مسئلہ سمجھا جاتا تھا جس پر غور و خوض جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ہوتا تھا۔

کیونکہ ملک کی سلامتی اور خارجہ پالیسی جیسے معاملات کی ذمہ داری وفاقی حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے بارے میں بحث بنڈس ٹاگ یعنی وفاقی جرمن پارلیمان کی انتخابی مہموں میں حاوی رہی۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ تین جرمن ریاستوں کے سربراہاں حکومت اب یوکرین میں جنگ کے بارے میں اور روس کے صدر پوٹن کے ساتھ جنگ بندی یا جنگ کے خاتمے کے امکان کے بارے میں زورو شور شے بات کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس وقت تین مشرقی ریاستوں میں ایک اہم موضوع

وجہ: جرمن ریاستوں تھورنگیا، سیکسنی اور برانڈنبرگ میں ریاستی پارلیمانی انتخابات وفاقی انتخابات کے چند ہفتوں بعد ہی ہونا ہیں۔ اسی لیے ان تین مشرقی جرمن ریاستوں میں، یوکرین میں روسی جارحیت کی جنگ اور کییف کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی کا معاملہ ایک اہم سوال بن گیا ہے، یا شاید اس وقت کا سب سے اہم سوال۔

اور یہ سوال بھی کہ کیا بنڈس ویئر یعنی جرمن فوج کو اپ گریڈ کیا جانا چاہیے اور نئے امریکی ہتھیاروں کی تنصیب ہونی چاہیے؟ ان تمام سوالات پر جرمنی کے مشرقی حصے پر تذبذب اور بڑے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح ریاستی سیاست دان ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ جنگ یا امن کے سوال پر ووٹ؟

نئی وجود میں آنے والی جماعت ''بنڈنس سارہ واگن کنیشٹ‘ (بی ایس ڈبلیو) کی سربراہ سارہ واگن کنیشٹ نے اس سلسلے میں سب سے سے زیادہ شہرت حاصل کی۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کی سابق سیاست دان کی اس نئی پارٹی کو، جس کی بنیاد اسی سال کے آغاز میں رکھی گئی، انتخابات سے دو ہفتے قبل ریاست تھورنگیا میں تقریبا 20 فیصد ووٹ حاصل تھے۔ لہٰذا توقع ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل میں اس جماعت کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔ واگن کنیشٹ نے حال ہی میں متعدد موقع پر کہا تھا کہ بی ایس ڈبلیو صرف اسی صورت میں ریاستی حکومت کا حصہ بنے گی جب نئی حکومت 2026 سے جرمنی میں نئے امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی کے منصوبوں کو واضح طور پر مسترد کرے۔

حالانکہ اس کا فیصلہ تھورنگیا کے ریاستی دارالحکومت ایئرفورٹ میں نہیں ہونا۔ روس کی جارحانہ پالیسی کے پیش نظر یہ ہتھیار 2026 سے جرمنی میں نصب کیے جانا ہیں۔ ڈوئچ لینڈ فنک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واگن کنیشٹ نے اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے نشاندہی کی: ''مشرقی حصے میں ہونے والے انتخابات جنگ اور امن کے سوال پر بھی ووٹنگ ہیں۔‘‘ دوسرے لفظوں میں، جو کوئی بھی جنگ کے شکار ملک یوکرین کی حمایت کرتا ہے، وہ جنگ کے حق میں ہے۔

واگن کنیشٹ نے کہا کہ ان کے ووٹرز توقع کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں کہ خود جرمنی میں جنگ کا خطرہ نہ بڑھے۔ چین اور بھارت کو پوٹن پر اثر انداز ہونا چاہیے، کریشمر

سیکسنی اور برانڈنبرگ کے وزرائے اعلیٰ، مائیکل کریشمر (سی ڈی یو) اور ڈیٹمر ووئیڈکے (ایس پی ڈی) نے بھی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے بیانات سے توجہ حاصل کی۔

مثال کے طور پر کریشمر نے وفاقی بجٹ کے پیش نظر یوکرین کو اسلحے کی امداد میں کمی کا مطالبہ کیا اور یوکرین تنازعے میں سفارتی اقدامات کو فروغ دینے کی بات کی۔ انہوں نے جرمنی کے ایڈیٹوریل نیٹ ورک آر این ڈی کو بتایا: ''میں ایک بار پھر سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر ہمیں چین اور بھارت کے ساتھ ایسے اتحاد کی ضرورت ہے جو پوٹن کو جنگ بندی کے لیے تیار کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکیں۔

ووئیڈکے نے بھی اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا۔ سروے میں یوکرین کی حمایت کے بارے میں سخت شکوک و شبہات

ریاستی سیاست دانوں کی طرف سے خارجہ پالیسی کے بارے میں اظہار رائے کی وجہ عوام میں، ایس پی ڈی، گرینز اور ایف ڈی پی کی وفاقی اتحادی حکومت کی طرف سے یوکرین کے بارے میں پالیسی سے جڑے شکوک و شبہات ہیں، خاص طور پر، مشرقی جرمن ریاستوں میں۔

2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے، جرمنی نے انسانی بنیادوں پر امداد، ہتھیاروں اور براہ راست نقد ادائیگیوں کے زریعے، تقریباﹰ 23 بلین یورو کے ساتھ یوکرین کی مدد کی۔ یوں جرمنی امریکہ کے بعد یوکرین کی مدد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ رائے عامہ پر تحقیق کرنے والے ادارے فورسا کے مطابق مشرقی جرمنی میں 34 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ جرمنی یوکرین کی حمایت کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے۔

جبکہ 32 فیصد ٹینکوں جیسے بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کے حق میں ہیں۔ اے ایف ڈی اور بی ایس ڈبلیو، حکومت کی یوکرین پالیسی کے خلاف

اگرچہ وفاقی سطح پر سی ڈی یو اور سی ایس یو کی قدامت پسند اپوزیشن بڑی حد تک یوکرین کے حوالے سے حکومت کے اقدامات کی حمایت کرتی ہے، لیکن دو جماعتیں ہیں جو یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کو مسترد کرتی ہیں اور روس کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کرتی ہیں، ان میں حال ہی میں خاص طور پر مشرقی ریاستوں میں قوت پکڑنے والی انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند 'متبادل برائے جرمنی‘ یعنی اے ایف ڈی اور سارہ واگن کنیشٹ الائنس۔

برلن کی حکمراں جماعت دی گرینز کے وفاقی چیئرمین اومید نوری پور خاص طور پر ان دونوں جماعتوں کے اس مطالبے سے ناراض ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے رابطہ کیا جائے اور انہیں امن مذاکرات کی پیش کش کی جائے۔ کریشمر کے علاوہ تھورنگیا کے حکمراں بائیں بازو کے وزیر اعظم بوڈو رامیلو کے بیانات کے جواب میں انہوں نے آر این ڈی سے کہا: ''آپ ایسا برتاؤ کر رہے ہیں جیسے آپ اپنا سر ریت میں گھسا کر امن حاصل کر سکتے ہوں۔

لیکن بزدلی سے امن نہیں آتا۔‘‘ درحقیقت پوٹن نے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ تھورنگیا میں امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی، ایس پی ڈی کے لیے تحفظات کا سبب

اس بحث کے زور پکڑنے کی ایک اور وجہ روسی جارحیت کے پیش نظر جرمنی میں 2026 سے نئے امریکی درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تعینات کیے جائیں گے۔

اس کا اعلان سب سے پہلے جولائی کے وسط میں امریکہ میں نیٹو سربراہ اجلاس کے موقع پر کیا گیا تھا اور رواں ہفتے کے آغاز میں ایس پی ڈی نے، جو چانسلر اولاف شولس کی پارٹی ہے، اس تعیناتی پر اتفاق کیا۔ ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ جارج مائر نے تاہم ڈوئچ لینڈ فنک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اس فیصلے سے انتخابی مہم میں ہمارے لیے کوئی آسانی نہیں ہوگی۔

تاہم، حقیقت میں، انہیں اس تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں: ''قومی سلامتی کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے، میرے تحفظات اس بات پر ہیں کہ یہ بات کیسے سامنے آئی اور اسے کیسے بتایا گیا۔‘‘ اے ایف ڈی اور بی ایس ڈبلیو امریکہ مخالف اور روس مخالف ہیں، کیزے ویٹر

سی ڈی یو کے پارلیمانی گروپ کے خارجہ امور کے ماہر روڈرش کِیزے ویٹر نے تازہ صورتحال پر کہیں زیادہ پرسکون انداز میں ردعمل کا اظہار کیا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''یہ اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ جرمنی میں سکیورٹی پالیسی کی بحث کس قدر گھمبیر ہے، جہاں سکیورٹی پالیسی یا ڈیٹرنس کے بنیادی اصولوں کو ہر جگہ، یہاں تک کہ سیاسی طور پر بھی نہیں سمجھا جاتا اور اس کی بجائے فوری طور پر ایک جنونی رد عمل سامنے آتا ہے۔ میری رائے میں ہتھیاروں کی تعیناتی کے اس معاملے کا انتخابات پر اثر محدود ہے، کیونکہ بی ایس ڈبلیو اور اے ایف ڈی پہلے ہی امریکہ مخالف اور روس کے حوالے سے اپنے نکتہ نظر کے زریعے زیادہ سے زیادہ ووٹرز کو متاثر کرنے کی حد تک پہنچ چکی ہیں، اور یوں اس طرح کے فیصلے پر اتفاق رائے بڑھے گا۔

‘‘

یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس سے ایس پی ڈی، گرینز اور ایف ڈی پی کی حکمران جماعتوں کے بہت سے نمائندوں کے ساتھ ساتھ قدامت پسند سی ڈی یو نمائندے بھی مشرقی ریاستوں میں اپنی انتخابی مہم میں اتفاق نہیں کرتے۔ یہ جماعتیں یوکرین کی مزید حمایت اور جرمنی میں نئے امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی کے معاملے میں تیزی سے اکیلی ہوتی جا رہی ہیں۔

ژینس تھوراؤ (ا ب ا/ک م)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی ہتھیاروں کی جرمن ریاستوں خارجہ پالیسی بی ایس ڈبلیو ریاستوں میں کے بارے میں نئے امریکی اور روس کے پالیسی کے ایس پی ڈی اے ایف ڈی جرمنی کے سی ڈی یو کے ساتھ کے لیے جنگ کے

پڑھیں:

دہلی کے انتخابات میں بی جے پی کی جیت

بھارت کے ریاستی انتخابات دہلی میںبی جے پی کے مقابلے میںمقبول مڈل کلاس جماعت عام آدمی پارٹی کی انتخابی شکست کا کسی کو بھی یہ یقین نہیں تھا ۔کیونکہ عام آدمی پارٹی نے دہلی کی سیاست میں عام اور غریب طبقہ کو بنیاد بناکر جو بنیادی نوعیت کی لوگوں کو سہولتیں دی، اس کے باوجود وہ کیونکر ہارے اس پر ان کے حمایتی ووٹرز پریشان ہیں۔

اس بار دہلی کے جو حالیہ انتخابات ہوئے عام آدمی پارٹی کل 70نشستوں میں سے محض22جب کہ بی جے پی کو 48نشستوں پر کامیابی ملی،جب کہ پچھلے انتخابات کے جو نتائج تھے اس میں عام آدمی پارٹی کو 70میں سے 62نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔جب کہ حالیہ دہلی کے انتخابات میں کانگریس کوئی بھی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے۔دلچسپ بات حالیہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروندکیچروال بھی بی جے پی کے ایک عام سیاسی ورکر کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔

27 برس کے بعد بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کو دہلی میں شکست دی ہے جو یقینی طور پر ایک بڑی سیاسی جیت کے طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ کیونکہ عام آدمی پارٹی نے دہلی کی سیاست میں نریندر مودی اور بی جے پی کو نہ صرف زبردست چیلنج کیا بلکہ ہر سیاسی محاذ پر ان کو سیاسی پسپائی پر مجبور کیا ہوا تھا۔

عام آدمی پارٹی نے جہاں دہلی کی سیاست میں اپنی طاقت منوائی وہیں پنجاب میں بھی اسے برتری حاصل ہوئی تھی۔اس بار ابتدا میں یہی دیکھنے کو ملا تھا کہ بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کے مقابلے میں اپنی انتخابی مہم میں بہت زیادہ شدت پیدا کی تھی۔

لیکن تمام سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ جس طرح کی مقبولیت عام آدمی پارٹی کو حاصل ہے اور جس طرح سے اس نے عوامی سہولیات کی فراہمی عملی طور پر دہلی کے عوام کو کو دی ہیں اس سے ان کو ہرانا اتنا آسان کام نہیں ہوگا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کے ہاتھوں شکست کیونکر ہوئی ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ عام آدمی پارٹی انتخابی معرکے میں پہلے ہی سے بہت زیادہ پر اعتماد تھی اور اس کا خیال تھا کہ ہم آسانی سے بی جے پی کو شکست دے دیں گے۔

اس کی ایک شکل ہمیں عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم میں دیکھنے کو ملی جہاں ان کے مقابلے میں بی جے پی کی انتخابی مہم میں زیادہ شدت اورکافی زیادہ پرجوشیت پائی جاتی تھی۔اگرچہ دہلی کے انتخابات میں کانگریس نے بھی حصہ لیا اول وہ کوئی نشست نہیں جیت سکے اور دوئم انھوں نے تن تنہا انتخابات میں حصہ لیا۔

اگر عام آدمی پارٹی اور کانگریس مل کر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو شاید انتخابی نتائج موجودہ انتخابی نتائج سے کچھ مختلف بھی ہو سکتے تھے۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دہلی کی آبادی عمومی طور پر مڈل کلاس افراد پر مشتمل ہے۔اسی آبادی میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی سمیت دیگر جماعتوں پر مقبولیت حاصل کی تھی۔

لیکن اب اس مڈل کلاس آبادی نے کیونکر عام آدمی پارٹی کو مسترد کر کے بی جے پی پر اعتماد کیا ہے اس کو زیادہ سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں انتخابات سے قبل جو انتخابی اتحاد نہیں ہو سکا اس کی بڑی ذمے داری عام آدمی پارٹی کے سربراہ پر عائد ہوتی ہے جو تن تنہا انتخابی میدان میں سرخرو ہونا چاہتے تھے۔

عام آدمی پارٹی کی بڑی مقبولیت کی وجہ کرپشن کا خاتمہ، اچھی حکمرانی اور عام آدمی تک وسائل کی فراہمی کے نعرے تھے۔اسی بنیاد پر عام آدمی پارٹی نے دہلی میں نہ صرف مقبولیت حاصل کی بلکہ واقعی کچھ کام بھی کر کے دکھایا اور دہلی کی مڈل کلاس آبادی کو لگا کہ عام آدمی ہی ان کی جماعت ہے۔عام آدمی پارٹی نے تعلیم ،صحت اور علاج کے حوالے سے بہت کچھ ایسا کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال دہلی کی سیاست میں نہیں ملتی تھی۔

عام آدمی پارٹی کی سیاست پر تجزیہ کرنے والے یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس حکومت کا پہلے دور کے مقابلے میں دوسرا دور زیادہ بہتر نہیں تھا اور دوسرے دور میں بہت سے معاملات ایسے ہوئے جس سے ووٹر ناراض ہوئے تھے۔

حالیہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شکست کی وجہ بھی عام آدمی پارٹی کا دوٹرز تھا ۔ان ووٹروں کے بقول پارٹی نے وہ کچھ نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔یعنی عام آدمی کے اپنے ووٹرز خود بھی پارٹی کی شکست کا سبب بنے ہیں۔اس لیے دہلی کے ان انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شکست کی کی بڑی وجوہات میں ان کی داخلی وجوہات زیادہ مضبوط نظر آتی ہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے داخلی معاملات میں بہت سی ایسی خرابیاں جنم لے چکی تھی جو ان کی بڑی شکست کی وجہ بنی ہے۔اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے تو یقینی طور پر انھوں نے ریاستی وسائل بھی دہلی کے انتخابات میں استعمال کیے ہوں گے لیکن یہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور اس کے باوجود دہلی کے عوام عام آدمی پارٹی کوہی ووٹ دیتے رہے ہیں۔

بھارت میں مودی مخالف سیاستدان دہلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی شکست پر بہت زیادہ خوش نہیں ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ دہلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی جیت نے مستقبل کی سیاست میں بی جے پی کو مضبوط اور ان کو کمزور کیا ہے۔ہریانہ اور مہاراشٹرا کے ریاستی انتخابات 2024 میں بی جے پی کو کامیابی ملی تھی اس پر بھی ان کے سیاسی مخالفین کو بہت زیادہ حیرت ہوئی تھی اور اب دہلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی جیت میں ان کو اور زیادہ حیران و پریشان کر دیا ہے۔

بی جے پی کے خلاف ان کے سیاسی مخالفین نے عام انتخابات کے انتخابی معرکے میں ایک وسیع تر اتحاد بھی تشکیل دیا تھا۔لیکن ہمیں ان ریاستی انتخابات کے تناظر میں ہمیں بی جے پی کے خلاف بننے والے اس بڑے اتحاد کی کوئی مشترکہ حکمت عملی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ایسے لگتا ہے کہ بی جے پی کے خلاف بننے والا یہ اتحاد خود اپنے داخلی تضادات کا شکار ہے اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہورہاہے۔

اسی برس اکتوبر میں بہار کے ریاستی انتخابات ہیں اور اگلے برس مغربی بنگال کے انتخابات بھی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کو یہ خدشہ ہے کہ اگر بی جے پی ان ریاستی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو اس سے ان کی مستقبل کی سیاست پر سیاسی گرفت اور زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔

نریندر مودی کی کوشش ہے کہ وہ جہاں جہاں ریاستی انتخابات ہو رہے ہیں وہاں بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔کیونکہ ان ریاستی انتخابات کی کامیابیاں ہی ان کو اگلے عام انتخابات میں ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

ویسے بھی نریندر مودی کا سیاسی جادو بدستور موجود ہے اور جو لوگ یہ رائے دے رہے تھے کہ جادو ٹوٹ چکا ہے وہ تین ریاستوں کے انتخابات کے نتائج سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نریندر مودی کی سیاست آج بھی بھارت کی سیاست میں ایک مضبوط اثر رکھتی ہے۔

نریندر مودی اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں ون پارٹی سسٹم بنانا چاہتے ہیں اگرچہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن یہ ان کی خواہش ہے اور اگر ان کے سیاسی مخالفین میں داخلی تضادات بدستور قائم رہے تو پھر یہ کام نریندر مودی آسانی سے کر سکتے ہیں۔

بی جے پی کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اپنے خلاف اٹھنے والے ایک بہت بڑے سیاسی ماڈل یعنی عام آدمی پارٹی کو انتخابی معرکے میں شکست دی ہے۔اس عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کی سیاست کو نہ صرف چیلنج کیا تھا بلکہ ایک متبادل سیاسی نظام بھی پیش کیا تھا۔

دلی کے ان انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شکست سے ان کی سیاست ختم نہیں ہو گی بلکہ ان کا کردار اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔عام آدمی پارٹی کو اپنی داخلی سیاست کا بے لاک تجزیہ کرنا ہوگا اور ان وجوہات کو سامنے لانا ہوگا جو ان کی شکست کی وجہ بنی ہے۔

عام آدمی پارٹی کو ایک نئے سرے سے ایک نئی منظم جدوجہد اور ایک مضبوط اپوزیشن کے ساتھ خود کو اپنی نئی سیاست کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔اسی طرح عام آدمی پارٹی کو چاہیے کہ وہ بی جے پی کے سیاسی مخالفین کے ساتھ اپنے سیاسی اتحاد کو موثر بنائیں اور جہاں جہاں مل کر بی جے پی کو مشکل وقت دیا جا سکتا ہے وہاں عام آدمی پارٹی کو بھی مودی کے مخالفین کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • دہلی کے انتخابات میں بی جے پی کی جیت
  • پیس انیشی ایٹیو، پاکستانی تارکین وطن اور جرمن پارلیمانی انتخابات
  • جرمن وفاقی پارلیمانی انتخابات، کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے؟
  • پی ٹی آئی ایک بار پھر اداروں کے خلاف مہم چلانا چاہتی ہے، مصدق ملک
  • جرمن انتخابات: سرکردہ سیاست دانوں کے درمیان آخری مباحثہ
  • سیاسی مخالفین کے خلاف ہمارا مجموعی سیاسی کلچر
  • جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک
  • جرمنی کے انتخابات اور تبدیلی؟
  • پاکستانی خارجہ پالیسی کو ’’ست‘‘ سلام