غزہ کی صورتحال دوسری جنگ عظیم سے بھی بدتر ہے، برطانوی ڈاکٹر
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
ایک اور سابق برطانوی سرجن پروفیسر نظام محمود، جنہوں نے غزہ کے ناصر ہسپتال میں کام کیا، نے تصدیق کی کہ طبی کارکنوں کو نشانہ بنانے اور پوری طبی ٹیموں کی تباہی کی وجہ سے اموات کی تعداد 186,000 سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ کی پٹی میں کام کرنے والے برطانوی ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے اثرات دوسری جنگ عظیم سے بھی بدتر ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈاکٹروں نے خدشہ ظاہر ہے کیا کہ بیماریوں، غذائی قلت اور صحت کی دیکھ بھال کا خاتمہ کے اثرات کئی دہائیوں تک جاری رہیں گے، کیونکہ ہسپتالوں اور صحت کے شعبے کی تباہی اور طبی کارکنوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے صورتحال گھمبیر ہو چکی ہے۔ برطانوی ڈاکٹروں کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی کل تعداد 186,000 تک پہنچنے کا خدشہ ہے، یہ تعداد غزہ میں وزارت صحت کی طرف سے اعلان کردہ شہداء کی تعداد سے چار گنا زیادہ ہے۔ برطانوی فلسطینی پلاسٹک سرجن، پروفیسر غسان ابو سیتا، جنہوں نے جنگ کے آغاز سے غزہ کے ہسپتالوں میں کام کیا ہے، نے کہا کہ وہاں غذائی قلت کی سطح اتنی شدید تھی کہ بہت سے بچے "کبھی بھی صحت یاب نہیں ہوں گے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ متعدی امراض اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی مسلسل تباہی کی وجہ سے فلسطینیوں کے مصائب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک اور سابق برطانوی سرجن پروفیسر نظام محمود، جنہوں نے غزہ کے ناصر ہسپتال میں کام کیا، نے تصدیق کی کہ طبی کارکنوں کو نشانہ بنانے اور پوری طبی ٹیموں کی تباہی کی وجہ سے اموات کی تعداد 186,000 سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی غزہ کی پٹی کا احاطہ کرنے والے چھ سرجنوں میں سے صرف ایک باقی رہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی آنکولوجسٹ زندہ نہیں بچا۔ انہوں نے مزید کہا کہ طبی پیشہ ور افراد کی پوری ٹیموں کو غزہ سے ختم کر دیا گیا ہے اور انہیں تبدیل کرنے کے لیے درکار تربیت میں 10 سال لگیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی وجہ سے انہوں نے میں کام کہا کہ
پڑھیں:
حادثات میں اموات دہشت گردی یا بیماری سے مرنے والوں سے زیادہ ہیں(عدالت عظمیٰ )
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ حادثات میں اموات دہشت گردی یا بیماری سے مرنے والوں سے زیادہ ہیں۔ بھاری گاڑیوں اور اوورلوڈنگ کے خلاف کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے کی جس میں وکیل بیرسٹر ظفر اللہ نے دلائل دیے کہ اصل ایشو گاڑیوں کی اوور لوڈنگ کے مقام کا ہے، جب تک لوڈنگ کے مقامات کے خلاف ایکشن نہیں ہو گا کنٹرول نہیں ہوسکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حادثات سے مرنے والوں کی تعداد دہشت گردی یا بیماریوں سے مرنے والوں سے زیادہ ہے، کیا حکومت کے پاس حادثات سے مرنے والوں کی تعداد موجود ہے؟ سارا مسئلہ ہی قانون پر عملدرآمد کا ہے۔ جسٹس حسن اظہر نے ریمارکس دیے کہ پورٹ قاسم ، کورنگی ،انڈسٹریل ایریا کی سڑکوں میں 2 ،2 فٹ کے گڑھے حادثات کا باعث بنتے ہیں، سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بہت سارے قوانین تبدیل کر کے جرمانے بڑھائے گئے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس کیس پر ہم تفصیلی حکم جاری کریں گے، کیس زیر التوا رہے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ صوبائی حکومتوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اوورلوڈنگ کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔ بعد ازاں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔