کراچی(نیوز ڈیسک)کراچی میں مثبت سماجی تبدیلی لانے والے اداروں اور افراد کی خدمات کو سراہنے کے لیے کے۔ الیکٹرک کے زیرِ اہتمام چوتھے کے ایچ آئی ایوارڈز کی شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ رواں سال 13 مختلف کیٹیگریز میں 45 فاتحین کو ایوارڈز دیے گئے، جنہیں مجموعی طور پر 60 ملین روپے کی رعایت بجلی کے بلوں میں فراہم کی جائے گی۔
اس سال ایوارڈز کے لیے 166 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں 41 پہلی بار درخواست دینے والے تھے۔ ایک شفاف اور آزاد آڈٹ کے بعد، 129 درخواست دہندگان نے اپنے منصوبے ایک معزز جیوری کے سامنے پیش کیے۔ ایوارڈز میں صحت عامہ، تعلیم، پائیداری، تحفظ، روزگار و پیشہ وارانہ تربیت، ڈیجیٹل رسائی و شمولیت، کمیونٹی ڈیولپمنٹ، ورثہ و ثقافت سمیت مختلف شعبے شامل تھے۔
کے۔ الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی نے اس موقع پر کہا: “کے ایچ آئی ایوارڈز ایک ادارہ جاتی سطح کا ایسا پلیٹ فارم ہے جو نہ صرف مثبت سماجی اقدامات کو سراہتا ہے بلکہ تبدیلی کے خواہاں افراد اور اداروں کو یکجا کرتا ہے، تاکہ وہ کراچی کی ترقی کے سفر کو آگے بڑھا سکیں۔ مجھے خوشی ہے کہ الحمدللہ، کے۔ الیکٹرک کے بورڈ کے تعاون سے ہم نے انعامی رقم کو 40 ملین سے بڑھا کر 60 ملین روپے کر دیا ہے، جو ہمارے غیر متزلزل یقین کی عکاسی کرتا ہے کہ کمیونٹی کی سطح پر کیے جانے والے مثبت اقدامات حقیقی اور دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔”
ایوارڈز کے شفاف عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے، کے۔ الیکٹرک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن اور ایوارڈ جیوری کے چیئرمین سعد امان اللہ خان نے کہا: “ترقی کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک مربوط ماحولیاتی نظام درکار ہوتا ہے، جہاں تبدیلی کے خواہاں اور معاونین ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں۔ کے ایچ آئی ایوارڈز اس تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک محرک کے طور پر کام کر رہا ہے، جو کراچی کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں کردار ادا کرنے والے افراد اور اداروں کو یکجا کرتا ہے۔ اس ایوارڈ کے شفاف اور آزادانہ جانچ کے عمل کی قیادت ایک معزز جیوری نے کی، جسے عالمی شہرت یافتہ آڈٹ فرم EY کی معاونت حاصل رہی، تاکہ یہ ایوارڈز خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر دیے جا سکیں۔”
کے۔ الیکٹرک کی چیف ڈسٹری بیوشن اینڈ مارکومز آفیسر سعدیہ دادا نے کہا: “جب ہم نے اس سفر کا آغاز کیا، تو ہمارا مقصد کارپوریٹ گِونگ میں شفافیت اور مساوات کو یقینی بنانا تھا۔ اسی لیے ہم نے یہ ایوارڈز تخلیق کیے، تاکہ ادارے خود درخواست دے سکیں اور اپنے کام کا اعتراف حاصل کر سکیں۔ اس اقدام کو جو چیز منفرد بناتی ہے، وہ اس کا منظم ڈھانچہ ہے—ہم نے اسے ایک انجینئرنگ ذہنیت کے ساتھ ترتیب دیا، تاکہ ہر عنصر اثر پذیری کے بڑے نظام کا حصہ بنے۔ اس سال ہمیں 166 درخواستیں موصول ہوئیں—166 ایسے ادارے جو مثبت تبدیلی کے لیے آگے بڑھے۔ آج ہم ان 41 اداروں کو سراہتے ہیں جنہوں نے پہلی بار درخواست دی، جبکہ 10 نئے فاتحین اس پلیٹ فارم کا حصہ بنے۔ خصوصی طور پر ان نو خواتین کی قیادت میں چلنے والے اداروں کے لیے ایک زبردست داد، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ خواتین نہ صرف حقیقی تبدیلی لا رہی ہیں بلکہ کراچی کے سماجی و اقتصادی ڈھانچے کو بھی بلند کر رہی ہیں۔”
اس سال تقریب میں کئی نمایاں اداروں کی خدمات کو سراہا گیا، جن میں کے ڈی ایس پی، کے وی ٹی سی، سیلانی، کھارادر جنرل اسپتال اور جی آئی اے شامل ہیں، جنہوں نے اپنی بے لوث خدمات کے اعتراف میں دو، دو ایوارڈز حاصل کیے۔ اس کے علاوہ، ہینڈز، انڈس اسپتال، ایل آر بی ٹی، اور بیت السکون جیسے ممتاز فلاحی ادارے بھی فاتحین میں شامل رہے۔
کے ایچ آئی ایوارڈز 2024 کے فاتحین میں 10 نئے ادارے بھی شامل ہوئے، جنہوں نے اپنے شعبوں میں نمایاں اثرات مرتب کیے۔ ان میں دربین، ڈریم فاؤنڈیشن ٹرسٹ، کھارادر جنرل اسپتال، تحریک نسواں، چارٹر فار کمپیشن، الفت ویلفیئر آرگنائزیشن، دعا فاؤنڈیشن، ٹرانسپیرنٹ ہینڈز، شائن ہیومینٹی اور مہردار آرٹ اینڈ پروڈکشن شامل ہیں۔ ان کی کامیابی کراچی میں سماجی ترقی میں کردار ادا کرنے والے اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی عکاسی کرتی ہے، جس سے مستقبل میں مزید ادارے بھی متاثر ہوں گے۔
کے ایچ آئی ایوارڈز کا یہ ایڈیشن نہ صرف مثبت سماجی اقدامات کو اجاگر کرنے بلکہ کراچی کے غیر منافع بخش ماحولیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے کے۔ الیکٹرک کے عزم کی ایک اور توثیق ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: الیکٹرک کے تبدیلی کے کے لیے

پڑھیں:

جرمنی کے انتخابات اور تبدیلی؟

میں نے حال میں ہی 6 دن کا جرمنی کا دورہ کیا ہے اور ہینوور سے براستہ فرینکفرٹ سٹٹ گارڈ تک طویل سفر کیا ہے۔ مغربی یورپ میں جرمنی، آبادی اور رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے ایک اندازے کے مطابق جرمنی کی آبادی تقریبا ً85ملین تک جاپہنچی ہے ایسا لگتا ہے کہ جرمن نسل تو سکڑ رہی ہے لیکن تارکین وطن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ جرمن کے لئے اب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے حتیٰ کہ 23 فروری کو جرمنی میں ہونے والے عام انتخابات کا محور بھی تاریکن وطن کی جرمنی میں اس قدر آمد ہی سب سے بڑا ایشو بن کر ابھرا ہے دائیں بازو کی جماعتیں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور مقامی باشندوں کے ووٹ اسی سنگل ایشو کی بنیاد پر حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں جبکہ روایتی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD جو امیگریشن کی حمایت یافتہ رہی ہے اس وقت تو حکومت میں ہے وہ بھی تارکین وطن کے بارے میں اپنی پالیسی کو بدلنے پر مجبور ہو رہی ہے یہاں حالیہ ماہ و سالوں میں آنے والے تارکین وطن میں شام سے تقریباً ایک ملین، یوکرین سے ایک ملین اور پچاس لاکھ کے قریب افغانی باشندے اور دوسرے ملکوں سے افراد جرمنی میں آئے ہیں ان کی اکثریت غیر قانونی راستوں کشتیوں کے ذریعے پہنچی ہے ٹرین سٹیشنوں، بس اسٹینڈوں اور بڑے بڑے پلوں کے نیچے بعض تارکین وطن نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جبکہ ہر بارڈر پر پولیس تعینات ہے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح تارکین وطن جرمنی میں داخل ہو رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں 30 ہزار تارکین وطن کو ڈی پورٹ بھی کردیا گیا ہے میں نے لاہور سے 40سال پہلے جرمنی جانے والے سیاسی و سماجی رہنما سید ظفریاب زیادی کے ہمراہ جب شہروں کے مختلف حصوں کا دورہ کیا یا پھر پاکستان سینٹر ہینوور اور اُمہ مسجد میں پاکستانیوں جن میں چوہدری الیاس، افضل قریشی، الطاف قریشی، عمر کمال،راجہ نثار اصغر ساہی اور دیگر سے تارکین وطن کے بارے میں جب بات کی ہے تو وہ سب بھی اس حوالے سے فکر مند تھے کہ اب نسلی امتیاز اور تعصبات اور اسلام و فوبیا بڑھ رہا ہے چونکہ انہیں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں برے اثرات مرتب ہونگے اور جرمنی تبدیل ہوجائے گا میں نے جب جرمنی کی تیز ترین رفتار ٹرین انٹرسٹی جس کی رفتار 300کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اپنے سفر کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ ہر ملک کا باشندہ اس ٹرین میں سوار تھا مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ایک شام کی تارک وطن خاتون اپنے ساز و سامان کے ہمراہ تین کمسن بچوں کے ساتھ سفر کررہی تھی میں نے لپک کر مدد کے لئے ایک بچہ تھام لیا جبکہ ایک جرمن خاتون جو انگریزی بول سکتی تھی اس نے بھی ازراہ ہمدردی ایک بچہ تھام لیا جبکہ شیر خوار بچے کو ماں دوران سفر اپنا دودھ پلاتی رہی جبکہ میں اور جرمن خاتون باقی دو بچوں کی دوران سفر دیکھ بحال کرتے رہے ہیں ہمیں اس شامی خاتون کے سامان اتارنے میں بھی اس کی مدد کرنی پڑی اسی طرح کے مناظر اور تارکین وطن کے بھی دیکھنے کو ہرجگہ ملتے ہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جرمن یا یورپین ممالک تارکین وطن کو اپنے ہاں مجبوری میں ویلکم کرتے چلے آرہے ہیں لیکن اب ان ممالک کو خطرہ لاحق ہے کہ تارکین وطن ہی یہاں میجارٹی میں نہ آجائیں نسلی تعصب برتنے والے سفید فام لوگوں کی نمائندگی کرنے والوں کی بڑی پارٹی AFD جو باقی پارٹیوں کی بہ نسبت تبدیلی کی جماعت ہونے کی دعویدار ہے اس کی مقبولیت تقریباً بائیس فیصد ہوچکی ہے اور خطرہ یہ ہے کہ دوسری پارٹی کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی جو تیس فیصد پر جارہی ہے آئندہ دونوں حکومت ہی نہ قائم کر لیں ستم ظریفی یہ ہے کہ الیکشن سر پر ہیں اور جلتی پر تیل اس وقت چھڑکا گیا جب ایک 24 سالہ افغان لڑکے نے مبینہ طور پر میونخ میں ٹریڈ یونین کے احتجاجی مظاہرین پر چلتی گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں 16 افراد جان بحق اور 30زخمی ہوگئے ہیں مسلمانوں کی تعداد جرمنی میں کوئی چار ملین ہو گی جبکہ پاکستانیوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ کے لگ بھگ ہے طالب علم بھی کافی تعداد میں آ چکے ہیں۔
جرمنی میں 23فروری کو ہونے والے انتخابات کی ووٹنگ صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک جاری رہے گی یہاں الیکٹرانک ووٹنگ کے بجائے بیلٹ باکس کے ذریعے ووٹنگ ہوتی ہے پہلا نتیجہ شام ساڑھے چھ بجے متوقع ہے، جرمنی کی پارلیمنٹ، جسے وفاقی اسمبلی (Bundestag) کہا جاتا ہے، کے اراکین کی تعداد متغیر ہوتی ہے ہر عام انتخابات کے بعد، نشستوں کی تعداد انتخابی نتائج اور مخصوص قوانین کے تحت طے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2021ء کے انتخابات کے بعد وفاقی اسمبلی میں 736 اراکین شامل تھے اب اس تعداد کو اخراجات کو بچانے کے لئے ایک سو سیٹیں کردی گئی ہیں گزشتہ اسمبلی کے اخراجات 7ملین یورو سے بڑھ کر ڈیڑھ بلین یورو تک بڑھ گے تھے معیشت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سیٹیں کم کی گئی ہیں یاد رہے جرمنی کو یوکرائن کی جنگ میں برطانیہ اور ڈنمارک کی طرح سب سے زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑ گئے ہیں جرمن اس جنگ سے قطعاً خوش نہیں ہیں جبکہ جرمنی کے انتخابات بھی اس لئے جلدی ہورہے ہیں کہ حکمران اتحاد ان ہی ایشوز کی بنیاد پر ٹوٹ گیا تھا جبکہ الیکشن کی مقررہ مدت ستمبر 2025ء تھی یہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے چانسلر ہی وزیراعظم ہوتا ہے جبکہ صدارت کا عہدہ علامتی ہے عام انتخابات چار سال اور صدر پانچ سال کے لئے ہوتا ہے بڑی پارٹیوں میں گرین پارٹی، FDP، CDU, LINKE BSW انتخابات میں حصہ لے رہی اس دفعہ مسلمان اور پاکستانی بھی الیکشن میں حصہ رہے ہیں ہر ووٹر کے پاس دو ووٹ ہوتے ہیں ایک امیدوار کو ووٹ دیا جاتا ہے جبکہ دوسرا پارٹی کو جاتا ہے۔جرمنی کے کل 18 صوبے ہیں،ہر جرمن شہری، چاہے اس کی نسل یا مذہب کچھ بھی ہو، کو چاہیے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہئے اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دے ہر ووٹ گنتی ہوتا ہے اور وہ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے! میرا عمومی تاثر یہی ہے کہ اس پہلے حکمران جماعتوں SPD، CDU، گرینز اور FDP نے اقلیتوں کے حقوق کو کسی حد تک نظرانداز کیا ہے اگرچہ SPD اور گرینز تارکین وطن اقلیتوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں، لیکن جب فار رائٹس AfD اور CDU کی طرف سے دبا ئو آتا ہے تو وہ ہمیشہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں، اگرچہ ان دونوں پارٹیوں میں تناسب کے لحاظ سے زیادہ تعداد میں تارکین وطن پس منظر رکھنے والے سیاستدان موجود ہیں، لیکن ان کی آوازیں پارٹی کے اندر اس وقت غیر موثر ہوجاتی ہیں جب اسلحہ کی ترسیل، امیگریشن قوانین میں تبدیلی ان کی سکونت رہائش کا حق اور امتیازی سلوک وغیرہ کے معاملات دبائو آتا ہے سیدھے اقلیتوں کے تحفظ کے لئے یا خاص طور پر مسلمانوں کے سیاسی منظر نامے میں کوئی مئوثر پلیٹ فارم نہیں ہے البتہ جو مسلمان یا پاکستانی پہلے سے جرمنی میں قانونی طور پر سکونت اختیار کرچکے ہیں وہ سارے حقوق انجوائے کررہے ہیں، جرمنی میں مقیم میری پاکستانیوں سے ان کے مسائل اور پاکستان کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے جس کا ذکر پھر سہی۔

متعلقہ مضامین

  • ’پاک انڈیا میچ یا جنگ؟‘ ٹین اسپورٹس کے مثبت اشتہار نے شائقین کے دل جیت لیے
  • صدر ٹرمپ نے فوج کے سربراہ جنرل براؤن کو عہدے سے ہٹا دیا
  • 20 سال صرف ’ٹائم پاس‘ کیا؛ اپنی شادی پر آدر جین کو یہ اعتراف مہنگا پڑ گیا
  • 20 سال صرف ’ٹائم پاس‘ کیا؛ اپنی شادی پر آدار جین کو یہ اعتراف مہنگا پڑ گیا
  • تنخواہ دار و دیگر کچھ طبقات پرٹیکسوں کا بوجھ غیر متناسب ہے، وزیر خزانہ کا اعتراف
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس، سفاک ملزم کا دوران تفتیش نوجوان کو زندہ جلانے کا اعتراف
  • جرمنی کے انتخابات اور تبدیلی؟
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: سفاک ملزم کا دوران تفتیش نوجوان کو زندہ جلانے کا اعتراف
  • سینیٹر علامہ ساجد میر: مدبر سیاستدان و عالم دین