بانی پی ٹی آئی کو زیادہ عرصہ جیل میں رکھنا ممکن نہیں، ریحام خان کا رہائی سے متعلق بڑا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
کراچی:
بانی پی ٹی آئی کی سابق اہلیہ اور سیاست دان ریحام خان نے کہا ہے کہ عمران خان اگر پاؤں پکڑ لیں تو شاید کوئی ریلیف مل سکتا ہے تاہم انہیں زیادہ عرصے تک جیل میں رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ریحام خان نے بانی پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک شخص کی ضمانت کے پیچھے سب پڑے ہیں جبکہ قیدی کی مدد تو ٹرمپ صاحب کریں گے سب کو اتنی فکر کیوں ہوگئی ہے ؟ درباری سیاست نہیں کرسکتی ہوں۔
ریحام خان نے کہا کہ ٹرمپ اپنے دوستوں کا بڑا خیال رکھتے اور یاری دوستی نبھاتے ہیں، تین ٹریلین ڈالر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے، ایلون مسک ان کے ساتھ کھڑے تھے، یاری دوستی ذرا دیکھ کر بناتا ہے، ایک ٹیسلا کا مالک ہے ایکس کا مالک ہے، میٹا کا مالک ہے ایک ایمازون کا مالک ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوستی یاری پروگریسو دنیا کو چلانے والے لوگ نکھٹو روتے دھوتے معزول قسم کے دوستوں کو تباہ کرنے والے ایسے دوست کی ان کی نظر میں کیا ویلیو ہوگی، وہ گھاٹے کا سودا نہیں کرتی۔
نہوں نے کہا کہ خط لکھنے سے تو کچھ نہیں ہوگا تاہم اگر وہ پاؤں پکڑ لیں تو شاید کچھ ریلیف ملے مگر انہیں زیادہ عرصے تک جیل میں رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ قیدی کو ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے کم از کم دو سال پورے ہوتا ہوا دیکھ رہی ہوں، کسی بھی کیریئر سیاست دان کو اتنی عرصے نہیں رکھا گیا، یہ کوئی صحیح بات نہیں چودہ سال یا پانچ سال رکھ سکتے ہیں۔
ریحام خان نے کہا کہ سیاسی جماعت جوائن کرنے سے بہتر خود پارٹی بنانے کا ارادہ رکھتی ہوں، پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ٹی وی پر بھی نہیں آسکتی تھی میڈیا کو فون کردیا جاتا تھا، اس وقت پی ٹی آئی سوشل ونگ کا چرچا ہے جسے سراہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، پی ٹی آئی کی سیاست چائنا کے خلاف تھی
مجھے جھنڈے والی گاڑی کی ضرورت نہیں۔
ریحام خان نے کہا کہ بانی چیئرمین کی بارے میں کوئی نیوز فالو نہیں کرتی اور کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے،
تین لیٹرز کو لکھوا لیے گئے ہیں، کچھ اور معافی تلافی کی خواہشات ہوں گی، تین خط کس طرح سے لکھے ہیں ناک سے لکھے یا سیاہی سے لکھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب پیر بھی پڑنا پڑیں گے، میری گناہ گار آنکھوں نے ڈٹے ہوئے کپتانوں کو پیر پکڑتے دیکھا ہے، جب پیر پکڑے جائیں گے کچھ معافی تلافی اور ریلیز ہوگی۔
ریحام خان نے دعویٰ کیا کہ انہیں کوئی دوست ملک بھی رکھنے کو تیار نہیں ہے، جو مغربی ممالک ان کو رکھنے کے لیے بے چین ہیں مقتدرہ ان کو جانے نہیں دے گی، لمیٹڈ ریلیز میں دیکھ رہی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلا امریکی صدر نہیں ہے جو ایسا کر رہا ہے، ان کی جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے وہ ایک لانگ ٹرم پلان ہوتا ہے، جن کے کندھوں پر آپ چڑھ کر آئے ہیں ان سے بنا کر رکھے۔
ریحام خان نے کہا کہ حکومت اسے کہتے ہیں جو گورننس کر رہی ہو، کراچی میں حکومت نظر آتی ہے نہ لاہور صاف نظر آتا ہے، گورننس ہوتی ہے جب لوگوں کی زندگیوں میں آسانی نظر آتی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے آرام سے پچھلی سیٹ لے رکھی ہے اور پی ایم ایل این سارا ملبہ اٹھا رہی ہے، جو حکومت کر رہا ہے وہ پانچ سال سے زیادہ بھی پورا کرے گا۔
ریحام خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ووٹر اور سپورٹر سے ہمدردی ہے، میں پی ٹی آئی سپورٹر رہی ہوں
جو نو مئی کو بند ہوا وہ اب کہیں نہیں رکھتا، یہ معصوم لوگ ہیں یہ ورغلانے گئے ہیں، میرا سافٹ کارنر عوام کے لیے ہے، پی ٹی آئی لیڈر شپ کے لیے ہمدردی ہوتی تو حالات تبدیل ہوتے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریحام خان نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی کا مالک ہے پی ٹی آئی نہیں ہے
پڑھیں:
جیل زدہ معاشرے میں دانشور،شاعر،ادیب ،یا سائنسداں کو اپنا ہیرو قرار دینا ممکن نہیں
کراچی (رپورٹ: حماد حسین) ہمارا نصاب اصل ہیروز کے ذکر سے خالی ہے چاہے وہ شاعر ہوں۔ ادیب ہو ں یا سائنسدان۔ نہ اسلاف کی باتیں اور نہ ہی کردار سازی کے لیے دانشوراور ادیب ہیں۔کسی سماج میں تعلیم یافتہ افراد یعنی دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور انہیں نوجوان نسل اپنا ہیرو یا رول ماڈل قرار دینے سے قاصر نظر آتی ہے تو یقیناً یہ معاشرتی تنزلی کی ایک واضح دلیل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر انٹر نیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سائنسز، جامعہ کراچی، یونیسکو چیئر ہولڈر اور ہلالِ امتیازپروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چودھری، وفاقی اردو یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں شعبہ تدریس سے 20سال سے وابستہ سلمیٰ نذیر، فثانوی تعلیمی بورڈ کے سابق رکن عباس بلوچ، جامعہ کراچی کی شعبہ اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر،شاعرہ اور مصنفہ ڈاکٹر شمع افروز اور نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ کی
کو چیئرپرسن ہما بخاری نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چودھری کا کہنا تھا کہ ا گر کسی سماج میں علم یافتہ افراد یعنی دانشورں، شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور انہیں نوجوان نسل اپنا ہیرو یا رول ماڈل قرار دینے سے قاصر نظر آتی ہے تویہ یقینا معاشرتی تنزلی کی ایک واضح دلیل ہے۔ پاکستان میں موجودہ نئی نسل زیادہ تر اداکاروں، گلو گاروں اور کھلاڑیوں کو ہی اپنا رول ماڈل تصور رکرتی ہے۔ اگر ہم 30،40سال پہلے تک کا پاکستانی سماج دیکھیں تو ہمیں شاعر، ادیب، دانشور، فلسفی، سائنسدان، خطیب، علما معاشرے میں رول ماڈل کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستان میں کسی شاعر یا لکھاری کی کتاب کی اشاعت ہزاروں کی تعداد میں ہوتی تھی کیونکہ سماج میں کتب بینی کی ثقافت عام تھی، لوگوں کے گھروں میں چھوٹے بڑے ذاتی کتب خانے ہوتے تھے، نوجوانوں میں ڈائجسٹ اور ناول پڑھنے کا رجحان بہت زیاد ہ عام تھا، یہ وہ دور تھا جب ایک ہی سرکاری چینل ہوا کرتا تھا جس پر بہرحا ل شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، فلسفیوں، سائنسدانوں، خطبا اور علما کو نہ صرف ہیرو بناکر پیش کیا جاتا تھا لیکن آج صورتِ حال بالکل برعکس ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو وہ پہلے کے مقابلے میں بہت ترقی کرچکا ہے، ایک چینل کے بجا ئے سیکڑوں چینل موجود ہیں لیکن اْن چینلوں پر اب علم یافتہ لوگ کم ہی نظر آتے ہیں، ٹاک شوزکے نام پر چیخ پکار سنائی دیتی ہے، کھیل کود، ناچ گانااور غیر معیاری ڈراموں کا زور نظر آتا ہے۔ نجی چینلوں پرجو مرد و زن میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہیں اْن کا یہ حال ہوتا ہے کہ نہ وہ مکمل طور پر صحیح اْردو بولنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی صحیح انگریزی بول سکتے ہیں، دوسری طرف ہماری نوجوان نسل ہے جو انگریری سے بے انتہا متاثر نظر آتی ہے، حال یہ ہے کہ نوجوان غلط اْردو بولنے پر فخر اور غلط انگریزی بولنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اب اس المناک سماجی صورتحال میں اور ایک جہل زدہ معاشرے میں لوگ کس طرح سے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو اپنا ہیرو قرار دے سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا، دانشور اور والدین نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی دھیان دیں اور انہیں حقیقی عالموں اور دانشوروں کے کارناموں سے آگاہ کریں۔ ثانوی تعلیمی بورڈ کے سابق رکن عباس بلوچ کا کہنا تھا کہ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ’’وقت کی ضرورت ہے کہ خود کو متنازع شخصیت نہ بنایا جائے‘‘ کیونکہ جوحال ہماری تاریخ میں ادیبوں اور شاعروں اور سائنسدانوں کا ہے اس سے کوئی بھی والدین نہیں چاہیں گے کہ ان کی اولاد اس طرف راغب ہوں اور محنت کرنے کے باوجود وہ اپنی شخصیت کو متنازع بنا دیں۔ علامہ اقبال نے شکوہ لکھا تو دین کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے ان پر کفر کے فتوے لگائے جب جواب شکوہ لکھا تو پھر یہاں کوئی نہیں بولا۔ جمہوریت کے لیے فراز صاحب نے اپنی آواز، اس پر کتاب لکھی لیکن نہ صرف ان کو جیل میں ڈال دیا گیا بلکہ ان کے بچوں کو نظر بند کر دیا گیا۔ اسی طرح طارق عزیز نے بھی جمہوریت کے لیے آواز اٹھائی، وہ بھٹو صاحب کے مشن حامی تھے تو ان کے اوپر بھی بہت سی پابندیاں لگا دی گئیں اور ان کو بھی متنازع بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب جو پوری دنیا میں ایک مثالی انسان ہیں اور انہی کی بدولت آج ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا آپ نے دیکھ لیا، ان کو بھی نظر بند کیا گیا۔ کسی بھی قوم کا اثاثہ اساتذہ اور ڈاکٹر ہوتے ہیں لیکن افسوس ہمارے ملک میں ان کا برا حال ہے، آئے دن اساتذہ اور ڈاکٹر اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کے لوگ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ وہ بھی ان لوگوں کی طرح بنیں اور اتنی محنت کے بعد اپنی شخصیت کو متنازع بنا دیں۔ جب ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بخوبی نظر آتا ہے کہ بہت کم وقت میں کون سے لوگ ہیں جو کامیابی کی بلندیوں کو چھو جاتے ہیں راتوں رات بہت کم محنت کرکے نہ صرف عزت و شہرت پاتے ہیں بلکہ وہ معاشی طور پر بھی مضبوط ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام آسائشیں ان کے پاس ہوتی ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اداکار، گلوکار، فنکار،کرکٹرز یہ وہ لوگ ہیں جو بہت کم وقت کے اندر بہت کم محنت کرکے کامیابی کی بلندیوں کو چھو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ شاعر ادیب اور سائنسدان نہیں بننا چاہتے۔ آج بچوں سے پوچھیں بانو قدسیہ کا، اشفاق احمد ،مستنصر حسین تارڑ صاحب، فیض احمد فیض پروین شاکر، امجد سلام امجد، منیر نیازی، احسان دانش، حفیظ جالندھری کا،یہ سب آج کے دور میں بہت گمنام ہو چکے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب، ڈاکٹر عبدالسلام،ثمر مبارک، عطاء الرحمن تک کو کوئی نہیں جانتا۔ ہماری سوچ کے ڈھانچے جیسے ہوں گے ویسی ہی سوچ نکلنا شروع ہو جاتی ہے، قائداعظم، علامہ اقبال، سرسید احمد خان وہ لوگ ہیں جو آئیڈیل ہوا کرتے تھے لیکن لوگ شاید یہ نام سن سن کر تھک گئے ہیں نئے چہروں کی شدید ضرورت ہے جو مثالی کردار ادا کریں۔ سلمیٰ نذیر کا کہنا تھا کہ یہ ہماری قوم کے لیے لمحہ فکرہے اور خاص طور پر اس لیے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ انسانی فطرت کے لحاظ سے ہر وہ چیز جو سامنے ہو متحرک ہو اپنا اثر رکھتی ہے اگر وہ چیز بار بار سامنے ہو اور متحرک اور متاثرکرنے والی ہو تو اثر دیرپا ہوگا۔ ذہن اس کے اثرات کو قبول کر تا ہے۔تو پھر اس جیسا بننا چاہتا ہے۔اب اگر غور کیا جائے تو ہمارے اداکار،گلوکار،کھلاڑی ہر طرف متحرک ہیں اور اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل جو بھی چینل استعمال کر رہی ہے ان سب میں صرف یہ ہی لوگ مثلاً ٹی وی،یو ٹیوب،انسٹاگرام میں ان تمام کے اکاؤنٹ بھی ہیں۔ اب ذرا تصویر کادوسرا رخ دیکھیے کیا ہمارے شاعر،ادیب،سائنسدان اور دانشور کہیں موجود ہیں اور وہ اثر انداز ہورہے ہیں۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے نصاب ہی ہمارے اصل ہیروز کے ذکر سے خالی ہے چاہے وہ شاعر ہو۔ ادیب ہو یا سائنسدان، نہ اسلاف کی باتیں اور نہ ہی کرداد سازی کے لیے دانشوراور ادیب ہیں۔ ایسے حالات میں ان کے کردار کے اثرات کیسے ہماری نوجوان نسل تک منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی شاعر ادیب دانشوروں اور سائنس دانوں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ جہاں تک تعلیمی اداروں کا ذکر ہے تو افسوس کا مقام ہے کہ دور حاضر کے اساتذہ بھی شاعر ادیب اور سائنس دانوں کے نہ تو ناموں سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کے کارناموں سے واقف ہیں۔ پھر حکومتی سطح پر بھی انہیں اداکاروں،گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو نوازا جاتا ہے۔ یہاں تک کے 14 اگست اور 6 ستمبر کے پروگرامات میں بھی نمائندگی ان ہی لوگوں کی ہے۔ اب اس صورتحال میں کس طرح کوئی شاعر،ادیب دانشور یا سائنسدان ہیرو بن سکتا ہے۔ ہما بخاری کا کہنا تھا کہ بقول شاعر آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی گئی جس نے خود اسے بہتر کرنے کا نہ سوچا ہو- اقوام کی ترقی کا دارومدار اچھی تعلیم وبہترین تربیت ہے۔ تعلیم بہترین سوچ کے ساتھ مرتب کیے گئے نصاب کے ذریعے اور تربیت بہترین مثالوں کے ذریعے کی جائے تو پسماندہ سے ترقی یافتہ کا سفر باآسانی طے ہوجاتا ہے۔ آج اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم اس سفر میں بہت پیچھے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے تعلیم کے اس پہلو کو قطعاً نظر انداز کردیا ہے جو ہمیں ہماری ثقافت سے جوڑ دے۔ ہمیں ان مثالی شخصیات سے روشناس کرائے جنہوں نے اس سرزمین کو دنیا بھر میں منوایا ہے۔ جن کی تقلید ہمیں، ہماری نوجوان نسل کو قابل فخر پاکستانی بناسکے۔اسلحہ و بارود کی جنگوں سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کسی قوم کے اجاگر ذہن کو، سوچ کو سلب کردیا جائے۔ اس ٹیکنالوجی سے بھرپور دور میں اگر پاکستان کے پالیسی میکرز نے ہر سطح پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے سفر نامے کو ہر پلیٹ فارم پر روشناس کرانا شروع کردیا جس کی تقلید پوری دنیا میں کی جاتی ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے نوجوان اپنے اندر موجود چھپی کسی بھی صلاحیت کو اپنی ہی زمین سے پیدا ہونے والے اور اپنے ناموں کو اپنے کارناموں کو امر کرنے والوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے نام پر اک رہنما کی مہر ثبت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹرشمع افروزکا کہنا تھا کہ بہت کم دانشور،شاعر و ادیب اور سائنس دان بطور ہیروز بنانے کا تعلق ہے تواس کا تعلق تعلیم سے ہے علوم و فنون سے ہے۔ باشعور قوم اپنے ہیروز خود بناتی ہے ، دانشور، شاعر و ادیب اور سائنسدانوں کو ہیرو بنانے کے لیے جو حقیقت میں ہیرو ہیں ہمیںان کو کے کام کو سامنے لانا ہو گا تاکہ ان کو دیکھ کر ان کو سن کر ان کی انتھک محنت کر کر نوجوان ان کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لہٰذا ہمارے ہیروز دانشور شاعر و ادیب اور سائنسدان کیسے ہو سکتے ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ دوسری جانب کیا ہم کتاب کلچر سائنس کلچر دانشورانہ کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اگر نہیں دے رہے تو یقینا اس کے نتائج بھی تسلی بخش برآمد نہیں ہوں گے۔