پولیس نے مکھن دین کو عسکریت پسندی کا الزام لگا کر ان پر وحشیانہ تشدد کیا، اہل خانہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
مکھن دین کے والد کے مطابق کہ میرے بیٹے کی موت کے بعد بھی پولیس نے علاقے کو سیل کر کے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تاکہ لوگوں کی آواز کو دبایا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ 5 فروری کو ایک 25 برس کا شخص مکھن دین، جس پر عسکریت پسندی میں ملوث ہونے کا الزام تھا، نے مبینہ طور پر کٹھوعہ ضلع میں پولیس کے تشدد کے بعد خودکشی کر لی۔ کٹھوعہ کے بلاور کے رہائشی اور گجر برادری کے مکھن دین کی موت سرخیوں میں آگئی اور کشمیر کی کئی سیاسی جماعتوں نے معاملے کی جانچ کا مطالبہ کیا جس کے بعد پولیس اور انتظامیہ دونوں کو اس واقعہ کی الگ الگ تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ پی ڈی پی کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی مکھن دین کے گھر گئی تھیں۔ مکھن دین کے والد محمد مرید نے کہا کہ پولیس کی وحشیانہ پٹائی نے میرے بیٹے کو مرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلاور کے ایس ایچ او نے مکھن دین اور مجھے اوور گراؤنڈ ورکر (او جی ڈبلیو) ہونے کے جھوٹے الزام میں حراست میں لیا تھا اور پولیس نے ہمیں تھانہ بلاور میں تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں کہا کہ میرے بیٹے کو بہت زہادہ وحشیانہ مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مرنے پر مجبور کیا گیا۔
مکھن دین کے والد کے مطابق کہ میرے بیٹے کی موت کے بعد بھی پولیس نے علاقے کو سیل کر کے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تاکہ لوگوں کی آواز کو دبایا جا سکے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قصوروار پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے اور اس کی کاپی میرے حوالے کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا ظلم نہیں ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انصاف چاہیئے مالی امداد نہیں۔ مکھن دین کے بڑے بھائی لال دین نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مکھن دین کے قاتلوں پر مقدمہ چلایا جائے۔ محمد مرید نے کہا کہ پولیس کا کریک ڈاؤن اب بھی جاری ہے۔ پولیس کے ذریعے مزید افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ دریں اثنا محمد مرید نے بنی حلقہ سے آزاد ایم ایل اے ڈاکٹر رامیشور سنگھ کی تعریف کی، جنہوں نے اس مسئلے کو اجاگر کرنے اور پولیس کے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے میں مدد کی۔
مکھن دین نے اپنی موت سے قبل ایک ویڈیو ریکارڈ کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس افسران نے بے گناہ ہونے کے باوجود اسے عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا۔ انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے انہوں نے پولیس سے اپنی وفاداری اور دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہ ہونے کی بات بار بار دہرائی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ دوران حراست اس پر تشدد کیا گیا اور دہشت گردوں کے ساتھ اپنے روابط کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے خودکشی کا انتخاب اس لئے کیا تاکہ ان کے خاندان کے کسی دوسرے فرد کو ذلت اور اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔