گورنر پنجاب سلیم حیدر شہید لیفٹیننٹ حسان اشرف کی رہائش گاہ پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 فروری2025ء)گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ ملک کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے پاک فوج کے جوان ہمارا فخر ہیں۔
(جاری ہے)
گورنر پنجاب سلیم حیدر شہید لیفٹیننٹ حسان اشرف کی رہائش گاہ پہنچے جہاں انہوں نے شہید کے لواحقین سے اظہارِ تعزیت کیا اور شہید کے درجات کی بلندی کے لیے فاتحہ خوانی کی۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ملک کے بہادر سپوتوں کی بہادری اور شجاعت لازوال مثال ہے۔گورنر پنجاب نے کہا کہ پوری قوم دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ہے۔واضح رہے کہ لیفٹیننٹ حسان اشرف نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران جامِ شہادت نوش کیا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے گورنر پنجاب
پڑھیں:
سندھ میں جامعات کا نظام دو نیم
صوبائی حکومت نے سندھ اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں گورنر سندھ کی جانب سے اعتراض شدہ سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل 2025ء جو وزیر قانون و پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار نے پیش کیا، اپوزیشن کے بھرپور احتجاج کے باوجود پاس کر ڈالا۔ اس موقع پر شرجیل انعام میمن نے اپنے ایک پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ جن لوگوں نے احتجاج کیا اُن میں سے کسی نے بل کو پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ آئندہ ہر قابل و اہل شخص یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگ سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کے تحت پہلے مرحلے میں چانسلر جو گورنر ہوا کرتا تھا یہ گراں قدر عہدہ وزیراعلیٰ کو دیا اور اب رہی سہی کسر سب سے اعلیٰ درس گاہ کی زمام کو صلائے عام کر ڈالا۔ اس ایکٹ کے تحت پڑھنے والے بتاتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کے نظام کو دو نیم کرکے انتظامی اور تعلیمی شعبوں میں بانٹ کر کڑوا بنادیا گیا ہے۔ انتظامی سربراہ وائس چانسلر، فنانس ڈائریکٹر وغیرہ کا تقرر بیوروکریسی سے بھی ہوسکے گا۔ حاضر سروس اور ریٹائر بیوروکریٹ دونوں ہی حقدار ہوسکتے ہیں۔ درس و تدریس پروفیسر صاحبان کریں گے جو کر ہی رہے ہیں اُن کے سربراہ کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہونا اب ضروری نہیں ہوگا۔ یوں تعلیمی ادارے اب حکومت کی سرپرستی، بالادستی کے حامل ہوجائیں گے جس کا شکوہ بے بسی سے وزیراعلیٰ سندھ میڈیا میں کرچکے ہیں۔ اساتذہ کی تنظیموں نے اس کو طلبہ یونین کی بندش سے مشابہ بھی قرار دیا۔ یہ بل جو گورنر سندھ نے اعتراض کے ساتھ لوٹایا اس کی دوبارہ منظوری دے دی۔
سندھ میں تعلیم کا حال بہت بُرا ہے اس کا معیار قیام پاکستان سے قبل اتنا بلند تھا کہ بقول سید امداد محمد شاہ فرزند جی ایم سید تعلیمی تن آسانی کے لیے سندھ کے طالب علم ممبئی تعلیم حاصل کرنے جایا کرتے تھے، اس انتظامی تبدیلی سے حکومتی گرفت یونیورسٹیوں پر ہونے سے سیاسی تقرر تباہ کن ثابت ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ جو کچھ یوں بھی سمجھا جارہا ہے کہ فریق ثانی پر تعلیم سے ترقی کے در بند کرکے اس دسترس سے دور کردیے جائیں جس کی مبینہ ریہرسل حال ہی میں کراچی کے انٹر کے امتحانات میں بورڈ کے ذریعے بڑی تعداد کو فیل کرکے یا اتنے کم نمبر دے کر کہ وہ یونیورسٹی میں داخل ہی نہ ہوسکیں کی منظر عام پر آئی اب وی سی کے ذریعے اسی قسم کا خطرہ اس وجہ سے بھی کہ اپنوں کو نوازنے کا مرض پبلک سروس تک پھیل چکا ہے، اس کے درد سر اور بدنامی کا علاج ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو انٹر کے امتحانات کے رزلٹ کی صورت کیا گیا، ڈومیسائل، پی آر سی، ڈی، پھر بورڈ اور اب یونیورسٹی پر دسترس۔ حکیم محمد سعید جو پی پی پی کے گورنر سندھ بھی رہے کا ایک مطبوعہ انٹرویو ملاحظہ کریں جو چشم کشا ہے۔
جنرل محمد ضیا الحق نے ایک ہی وقت میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور ہمدرد یونیورسٹی کو چارٹر مرحمت فرما دیا یہ دونوں مرکزی فیڈرل یونیورسٹیاں قرار پائیں۔ وزارت تعلیم کے ایک عظیم بیورو کریٹ نے لاہور یونیورسٹی کو چارٹر عطا فرما دیا وہ فیڈرل یونیورسٹی بنی اور ہمدرد یونیورسٹی کا چارٹر سندھ حکومت کو بھجوادیا اور فرمایا یہ صوبائی سبجیکٹ ہے یہ سراسر ناانصافی تھی اور بدترین صوبائیت تھی جس کے مرتکب مرکزی سیکرٹری تعلیم ہوئے۔ سندھ حکومت نے ہمدرد یونیورسٹی کا چارٹر سات سال کے بعد مجبوراً عطا کیا۔ مجبوری یہ تھی کہ صدر پاکستان غلام اسحاق نے گورنر سندھ محمود ہارون کی تحریک پر فیصلہ کیا کہ وہ چارٹر عطا کریں گے اور 3 جون 1991ء کو انہوں نے کراچی آکر چارٹر عطا کرکے سندھ حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس چارٹر کی منظوری دے، یہ بدترین قسم کی بے انصافی تھی، تعلیم و ترقی کی راہیں کھوٹی مت کرو تقسیم سے تعمیر نہیں تخریب جنم لیتی ہے۔