جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کیلئے جامع معاہدے کیلئے تیار ہیں، حماس
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
حماس کے ترجمان حازم قاسم نے قیدیوں کے تبادلے کے عمل کے تمام مراحل کو مکمل کرنے میں حماس کی مکمل سنجیدگی اور پائیدار جنگ بندی، غزہ سے انخلاء، اور اس کی جیلوں سے ہمارے قیدیوں کی رہائی کے قابض دشمن کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد معاہدے کے دوسرے مرحلے پر جامع انداز میں کام کرنےکے لیے تیار ہیں۔ حماس کے ترجمان حازم قاسم نے قیدیوں کے تبادلے کے عمل کے تمام مراحل کو مکمل کرنے میں حماس کی مکمل سنجیدگی اور پائیدار جنگ بندی، غزہ سے انخلاء، اور اس کی جیلوں سے ہمارے قیدیوں کی رہائی کے قابض دشمن کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔ حازم قاسم نے آج ہفتے کے روز جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے ساتویں تبادلے سے پہلے ایک پریس بیان میں کہا کہ ہمارے فلسطینی عوام قیدیوں کے تبادلے کے ایک بڑے آپریشن کو عملی جامہ پہنا کر اپنی ثابت قدمی، قربانیوں اور مزاحمت کی بہادری کی بہ دولت "طوفان ال اقصیٰ” کی جنگ میں ایک عظیم کامیابی کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج القسام بریگیڈز اور مزاحمت کار قابض صہیونی دشمن کے قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں اپنے لیے طے شدہ شرائط پر عمل درآمد کریں گے۔
خیال رہے کہ آج ہفتے کے روز غزہ کی پٹی میں جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے اندر قیدیوں کے تبادلے کی کارروائیوں کی ساتویں کھیپ میں 6 اسرائیلی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا ہے۔ القسام بریگیڈ کے مجاہدین کی ایک بڑی تعداد غزہ کی پٹی کے جنوب اور مرکز النصیرات میں چھ قیدیوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کے حوالے کرنے کی تیاریوں کے سلسلے میں تعینات کیے گئے تھے۔ حماس کے ذرائع کے مطابق رفح میں دو اور نصیرات میں چار اسرائیلی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا۔ دوسری جانب اسرائیلی جیلوں سے 602 فلسطینی قیدیوں کی رہائی متوقع ہے، جن میں عمر قید کی سزا پانے والے 50 قیدی، طویل سزاؤں کے حامل 60 قیدیوں کے علاوہ وفا الاحرار معاہدے میں رہا کیے گئے 47 قیدی بھی شامل ہیں جنہیں قابض فوج نے دوبارہ گرفتار کرلیا تھا۔ ان کے علاوہ غزہ کی پٹی کے 445 قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا جنہیں 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قیدیوں کے تبادلے قیدیوں کی رہائی جنگ بندی معاہدے قیدیوں کو
پڑھیں:
غزہ میں مستقل جنگ بندی کی ضمانت پر یرغمالی رہا کر دیں گے، حماس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے آج پیر 14 اپریل کو کہا ہے کہ ان کی تنظیم ''قیدیوں کے سنجیدہ تبادلے‘‘ اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کی اسرائیلی ضمانتوں کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب حماس قاہرہ میں مصر اور قطر کے ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی کے لیے بات چیت میں مصروف ہے۔
دوحہ اور قاہرہ کے نمائندے امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کے لیے سر گرم ہیں۔ حماس کے ایک سینئر اہلکار طاہر النونو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم قیدیوں کے تبادلے کے ایک سنجیدہ معاہدے، جنگ کے خاتمے، غزہ پٹی سے اسرائیلی افواج کے انخلاء اور انسانی امداد کے داخلے کے بدلے تمام اسرائیلی اسیروں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘تاہم انہوں نے اسرائیل پر جنگ بندی کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ''مسئلہ قیدیوں کی تعداد کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنے وعدوں سے مکر رہا ہے، جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کو روک رہا ہے اور جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اس لیے حماس نے قابض (اسرائیل) کو معاہدے کو برقرار رکھنے پر مجبور کرنے کے لیے ضمانتوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
‘‘ دوسری جانب اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Ynet نے پیر کو اطلاع دی ہے کہ تل ابیب کی جانب سے حماس کو ایک نئی تجویز پیش کی گئی ہے۔اس تجویز کے تحت حماس زندہ بچ جانے والے دس یرغمالیوں کو رہا کرے گا، جس کے بدلے میں امریکی ضمانت کے تحت اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت میں داخل ہو گا۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ، جو 19 جنوری کو شروع ہوا تھا اور اس میں متعدد یرغمالیوں کے تبادلے شامل تھے۔
تاہم یکم مارچ کو پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد جنگ بندی کی نئی کوششیں رک گئی ہیں، جس کی ذمہ داری فریقین ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ نونو کا یہ بھی کہنا تھا کہ حماس خود کو غیر مسلح نہیں کرے گی، یہ ایک ایسی اہم شرط جو اسرائیل نے جنگ کے خاتمے کے لیے رکھی ہے۔
غزہ میں جنگ حماس کےسات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں 1,218 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ عسکریت پسندوں نے 251 کو یرغمال بھی بنا لیا، جن میں سے 58 اب بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں 34 اسرائیلی فوج کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں۔غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے اتوار کے روز کہا کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے بعد 18 مارچ سے اب تک کم از کم 1,574 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جس سے جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 50,944 ہو گئی ہے۔
جرمنی کی تنقید کے بعد اسرائیل کا غزہ میں ہسپتال پر حملے کا دفاعاسرائیل نے پیر کے روز جرمن دفتر خارجہ کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر تنقید کی ہے، جس میں شمالی غزہ میں ایک ہسپتال کی عمارت پر اسرائیلی فوج کے حالیہ فضائی حملے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ حملہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی طرف سے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے طور پر استعمال ہونے والی ایک عمارت پرحملہ تھا، نہ کہ ہسپتال کی بنیادوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کا رد عمل جرمنی کے دفتر خارجہ اور سبکدوش ہونے والی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک کی اتوار کو شیئر کی گئی اس ایک پوسٹ کا جواب تھا، جس میں کہا گیا تھا، ’’حماس کی ظالمانہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا جانا چاہیے، تاہم شہری مقامات کی حفاظت کے لیے خصوصی ذمہ داری کے ساتھ بین الاقوامی انسانی قانون لاگو ہوتا ہے، ایک ہسپتال کو 20 منٹ سے کم وقت میں کیسے خالی کرایا جائے؟‘‘
اسرائیلی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ جرمن بیان میں''اہم حقائق‘‘ کا فقدان ہے، بشمول یہ کہ اسرائیلی فوج نے پیشگی وارننگ جاری کی تھی اور یہ کہ اس حملے میں کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے تاہم کہا کہ ہسپتال کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈھانوم گیبریئس نے ایکس پر لکھا، ’’ہسپتال کے ڈائریکٹر کے مطابق ہسپتال سے انخلاء کے دوران دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ایک بچے کی موت ہو گئی۔‘‘ یورپی یونین کی فلسطینی اتھارٹی کے لیے مالی امدادیورپی یونین فلسطینی اتھارٹی کے لیے 1.6 بلین یورو (1.8 بلین ڈالر) کے تین سالہ پیکج کے ساتھ اپنی مالی امداد میں اضافہ کرے گا۔
یہ بات مشرق وسطیٰ کے لیے ذمہ دار یورپی کمشنر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتائی۔بحیرہ روم کے لیے یورپی کمشنر ڈیبراوکا سوئیکا نے کہا کہ مالی امداد فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات کے ساتھ مشروط ہو گی، جس پر ناقدین بدعنوانی اور خراب حکمرانی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ سوئیکا نے کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کریں کیونکہ اصلاح کیے بغیر، وہ صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے مضبوط اور قابل اعتبار نہیں ہوں گے۔
‘‘کمشنر کا یہ تبصرہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد مصطفیٰ سمیت سینئر فلسطینی حکام کے درمیان آج پیر کو لکسمبرگ میں ہونے والے پہلے ''اعلیٰ سطحی سیاسی مکالمے‘‘ سے پہلے آیا ہے۔ یورپی یونین فلسطینیوں کے لیے سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے اور یورپی یونین کے حکام کو امید ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے پر حکمران فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد ایک دن غزہ کی ذمہ داری بھی قبول کر لے گی۔
شکور رحیم، اے ایف پی، ڈی پی اے اور روئٹرز کے ساتھ
ادارت: افسر بیگ اعوان، رابعہ بگٹی