مسک کے بیٹے کا ناک صاف کرکے ٹیبل پر پھیرنے کا معاملہ، ٹرمپ نے 145 سال پرانی میز کے ساتھ کیا کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دفتر کی 145 سال پرانی تاریخی میز کو تبدیل کردیا ہے، اور اس کی وجہ ایلون مسک کے چھوٹے بیٹے کی ایکس ایک شرارت بنی ہے۔
چند روز قبل ایلون مسک اپنے بیٹے کے ساتھ ٹرمپ سے ملاقات کےلیے اوول آفس گئے تھے، جہاں ایکس نے ناک میں انگلی ڈال کر ٹیبل سے ہاتھ صاف کیے تھے، اور اس منظر نے دیکھنے والوں کو حیران کردیا تھا۔
اس ملاقات کے دوران ایلون مسک کے بیٹے ایکس نے کئی شرارتیں کیں۔ وہ کبھی اپنے والد کی نقل اتارتے نظر آئے تو کبھی ٹرمپ کے قریب جا کر کچھ کہتے ہوئے دیکھے گئے۔
ایلون مسک کے بیٹے کی یہ حرکتیں کیمرے میں بھی محفوظ ہوگئیں اور سوشل میڈیا پر میمز کی شکل میں وائرل ہوگئیں۔ تاہم، سب سے زیادہ توجہ اس وقت ملی جب ایکس نے ٹرمپ کے دفتر کی تاریخی میز کے ساتھ کھڑے ہو کر ناک میں انگلی ڈال کر ٹیبل سے ہاتھ صاف کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو خود کو جراثیم سے خوفزدہ شخص قرار دیتے ہیں، نے اس واقعے کے بعد اوول آفس کی میز کو تبدیل کردیا۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ٹروتھ سوشل‘‘ پر ایک تصویر شیئر کی، جس میں ان کے سامنے ایک نئی میز دکھائی گئی ہے۔
ٹرمپ نے بتایا کہ یہ تبدیلی عارضی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ کیا یہ فیصلہ ایلون مسک کے بیٹے کی شرارت کی وجہ سے کیا گیا ہے یا کسی اور وجہ سے۔
تاریخی میز کا پس منظر
یہ میز 145 سال پرانی تھی اور اسے کئی امریکی صدور، بشمول جارج ڈبلیو بش، استعمال کرچکے تھے۔ ٹرمپ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ صدر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد 7 میں سے کسی ایک ڈیسک کا انتخاب کرے۔ موجودہ ڈیسک بھی بہت مشہور تھی، لیکن اب اس کی جگہ ایک نئی میز نے لے لی ہے۔
ایلون مسک کے بیٹے کی معصوم شرارت نے نہ صرف سوشل میڈیا پر ہلچل مچائی، بلکہ اس نے 145 سال پرانی تاریخی میز کی قسمت بھی بدل دی۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ٹرمپ اس میز کو دوبارہ واپس لاتے ہیں یا نئی میز ہی مستقل بنیادوں پر رہتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایلون مسک کے بیٹے تاریخی میز سال پرانی بیٹے کی
پڑھیں:
ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
اسلام ٹائمز: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اسکے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کیخلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ تحریر: مھدی جہانتیغی
سٹیو وٹکاف نے عمان میں ایران کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ "ہم نے بہت مثبت اور تعمیری بات چیت کی ہے۔" وائٹ ہاؤس نے بھی عمان میں ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بالواسطہ بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ "بہت زیادہ مثبت" بیان کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
ایک: پہلی بات تو یہ ہے کہ بالواسطہ مذاکرات کے آغاز میں ابتدائی مباحثے کو مثبت قرار دینا صرف اسی مرحلے تک مثبت سمجھنا چاہیئے، کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ موقف مذاکرات کے بعد کے مراحل کے لئے ایک مطلق اور عمومی بیان ہو اور صورت جوں کی توں رہے۔ ابھی اہم متنازعہ اور پیچیدہ مرحلے باقی ہیں اور بعد میں میٹنگ کے حالات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔
دوئم: مذاکرات کے "بہت مثبت" بیان سے کئی دوسرے مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی فریق اپنے آپ کو مذاکرات کے لیے پرعزم، سنجیدہ اور پرامید ظاہر کرے اور بعد میں کسی وجہ سے انہیں اگر مذاکرات کی میز کو چھوڑنا پڑے تو ایران پر مذاکرات کو ناکام بنانے کا الزام لگا سکیں اور اپنے آپ کو اس الزام سے بچا سکیں کہ انہوں نے مذاکرات کو سبوتاز نہیں کیا ہے۔
تیسرا: ایک اور مقصد جو کہ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی انتخابی مہم میں حالیہ ہفتوں میں اور یہاں تک کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے چار سال میں بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذاکرات کو پہلے مثبت قرار دیکر اس سے تشہیراتی فوائد حاصل کئے جائیں، بعد میں کیا ہوتا ہے، اسے مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ گویا یہ ایک قسم کا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں جلد عملی جامہ پہن رہی ہیں۔
چوتھا: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اس کے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کے خلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں معاشرتی اور معاشی نقصان کا ماحول پیدا کرکے ایرانی حکام کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ مذاکرات میں مبینہ رکاوٹ ڈال کر یا بے جا مطالبات کرکے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرانے کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔
پانچ: عام طور پر بات چیت کے عمل سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے نقطہ نظر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کے بیان کردہ شرائط اور ماضی کا بدنام زمانہ ریکارڈ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کی امید افزائی کو شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھا جائے اور اسے ممکنہ طور پر پروپیگنڈا اور ممکنہ طور پر ایک سوچی سمجھی سازش کر طور پر دیکھا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ متعدد مذاکرات کے عملی تجربات کے نتائج کی روشنی میں جب تک پابندیوں کے خاتمے اور ملکی معیشت پر ان مذاکرات کے حقیقی اثرات سامنے نہيں آجاتے آخری لمحے تک صبر اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی پروپیگنڈے، مسکراہٹ اور مذاکرات کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دینے جیسے دعووں کے فریب اور دام سے بچنے کی ضرورت ہے۔