غزہ جنگ بندی معاہدہ: حماس نے 6 اسرائیلی قیدیوں میں سے دو کو رہا کردیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
غزہ جنگ بندی معاہدہ: حماس نے 6 اسرائیلی قیدیوں میں سے دو کو رہا کردیا WhatsAppFacebookTwitter 0 22 February, 2025 سب نیوز
غزہغزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کا تبادلے میں حماس نے چھ اسرائیلی قیدیوں میں سے دو کو رہا کر کے رفحہ میں ریڈ کراس کے حوالے کردیا گیا۔
بدلے میں اسرائیل 602 فلسطینیوں کو آزاد کرے گا، اس سے قبل حماس نے مغوی اسرائیلی خاتون کی لاش اسرائیل کے حوالے کی جس کی اسرائیل نے بھی تصدیق کی۔
حماس نے اسرائیلی قیدی شیری بیباس کی باقیات ریڈ کراس کے حوالے کیں جس کے بعد اسرائیل کو ایک اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل نے جمعرات کو حماس کی جانب سے دی گئی لاشوں میں شیری بیباس کی عدم موجودگی کا دعویٰ کیا تھا۔
اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار اوری گولڈ برگ نے کہا کہ بیباس کی لاش کی واپسی ہفتے کے روز ہونے والے قیدیوں کے تبادلے کے لیے ”ایک ترغیب“ ہے تاکہ یہ عمل ”منظم انداز میں“ مکمل ہو سکے۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا، ’میرے خیال میں حماس نے اس معاہدے کو سنجیدگی اور مکمل عزم کے ساتھ پورا کرنے کے لیے غیر معمولی کوششیں کی ہیں۔‘
حماس نے جمعرات کو چار قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کیں، جن میں شیری بیباس، ان کے دو کمسن بیٹے کفیر اور آریل، اور ایک بزرگ یرغمالی شامل تھے۔ تاہم، اسرائیلی فرانزک ٹیموں نے تصدیق کی کہ دی گئی لاشوں میں سے دو بیباس بچوں کی ہیں، جبکہ بزرگ یرغمالی اوڈیڈ لیفشٹز کی شناخت بھی ہو گئی، لیکن چوتھی لاش شیری بیباس کی نہیں تھی۔
جس کے بعد ایک حماس عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ممکن ہے شیری بیباس کی باقیات دیگر افراد کی لاشوں کے ساتھ مل گئی ہوں، جو اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہو کر ملبے تلے دب گئے تھے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حماس کے عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا، ’یہ ممکن ہے کہ بیباس کی لاش غلطی سے دیگر لاشوں کے ساتھ ملی ہو‘، اور کہا کہ گروپ اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
بیباس کی غلط لاش دینے پر اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے حماس کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم شیری کو واپس لانے اور اپنے تمام یرغمالیوں کو—زندہ اور مردہ—واپس لانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے اور حماس کو اس ظالمانہ اور سفاک خلاف ورزی کی پوری قیمت چکانی ہوگی۔‘
ایک حماس عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ تنظیم نے نومبر 2023 میں ثالثوں کو آگاہ کیا تھا کہ وہ بیباس خاندان کے افراد کی لاشیں واپس کرنے پر تیار ہے۔
حماس نے نومبر 2023 میں ان کی لاشیں واپس کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن اس وقت نیتن یاہو نے انکار کر دیا تھا۔
حماس کا مؤقف ہے کہ یرغمالیوں کی ہلاکت اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہوئی اور تنظیم نے ان کے ساتھ انسانی سلوک کیا جبکہ انہیں محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔
دریں اثنا، حماس کے ترجمان اسماعیل الثوابطہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ شیری بیباس کی باقیات ممکنہ طور پر ملبے تلے دفن دیگر لاشوں کے ساتھ مل گئیں۔
ادھر اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں ہفتے کے روز ایک اور قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے لیے تیاریاں کی جا رہی ہیں، جب کہ اسرائیل میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس نے دو بچوں کو ”سفاکیت سے قتل“ کیا اور ان کی والدہ کی لاش کی جگہ ایک نامعلوم عورت کی لاش واپس کی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
غزہ جنگ بند کرنے کی ضمانت دیں تو تمام یرغمالیوں کی رہا کردیں گے؛ حماس کی پیشکش
حماس نے ثالث کاروں کے سامنے ایک بار پھر غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے قابلِ عمل حل کی پیشکش رکھ دی۔
عرب میڈیا کے مطابق حماس کے ایک سینئر عہدیدار طاہر النونو نے کہا ہے کہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ اسرائیل غزہ میں جنگ ختم کرنے، اپنی افواج واپس بلانے اور انسانی امداد کی فراہمی کی ضمانت دے۔
ان خیالات کا اظہار حماس کے نمائندے نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مصر، قطر اور امریکا کے ثالثوں سے مذاکرات کے بعد وطن واپس روانہ ہوتے ہوئے کیا۔
حماس کے سینئر رہنما نے اسرائیل پر جنگ بندی میں پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ یرغمالیوں کی تعداد کا نہیں بلکہ اسرائیل کی طرف سے معاہدے پر عمل درآمد سے انکار اور جنگ جاری رکھنے کا ہے۔
ادھر، حماس کے رہنما طاہر النونو نے اسرائیل کی یہ بے جا شرط کہ حماس ہتھیار ڈال دے، کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کا ہتھیار ڈالنا ابھی مذاکرات کا موضوع ہی نہیں ہے۔
طاہر النونو نے یہ بھی کہا کہ حماس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے پر عمل کرنے کے لیے عالمی ضمانتیں دی جائیں۔
ادھر اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Ynet نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک نیا معاہدہ حماس کے سامنے پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت امریکا نے 10 زندہ یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل کو جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی ضمانت دی ہے۔
رپورٹس کے مطابق اس وقت مذاکرات اس لیے تعطل کا شکار ہیں کیونکہ یرغمالیوں کی تعداد پر اختلافات ہیں۔ اس وقت بھی 58 افراد غزہ میں یرغمال ہیں جن میں سے 34 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال میں اسرائیلی مہم جو گروپ یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کا فورم نے مرحلہ وار رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ طریقہ قیمتی وقت ضائع کرتا ہے اور تمام یرغمالیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ صرف ایک ہی موزوں اور مؤثر حل ہے اور وہ جنگ کا خاتمہ اور تمام یرغمالیوں کی ایک ساتھ فوری رہائی ہے۔
یاد رہے کہ پہلی جنگ بندی 19 جنوری کو شروع ہوئی تھی، جو دو ماہ چلی اور اس دوران قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ بھی ہوا تاہم یہ بعد میں ناکام ہوگئی۔