جرمن وفاقی پارلیمانی انتخابات، کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 فروری 2025ء) یہ ایک مختصر لیکن سخت انتخابی مہم تھی، جس میں اکثر ایک لفظ سامنے آتا رہا، سمت کی تبدیلی۔ انتخابات سے دو ہفتے قبل قدامت پسند جماعتوں سی ڈی یو/ سی ایس یو کی طرف سے چانسلر کے امیدوار فریڈرش میرس نے کہا، ''آپ نے جرمنی میں تین برس تک بائیں بازو کی سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ اب اسے جاری نہیں رکھ سکتے۔
‘‘میرس جرمن پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں، ایس پی ڈی اور گرین پارٹی سے مخاطب تھے، جنہوں نے 2021 سے ایف ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت کی۔ نومبر 2024 میں دو بائیں بازو اور ایک معاشی طور پر لبرل پارٹی کا اتحاد بجٹ میں پیسے کی کمی کے معاملے پر مہینوں کے تنازعے کے بعد ٹوٹ گیا تھا۔ اس لیے 23 فروری کو قبل از وقت انتخابات ہو رہے ہیں۔
(جاری ہے)
ایس پی ڈی کے گرنے کا خطرہاگرچہ گرین پارٹی کو موجودہ انتخابات میں 2021 کی طرح ہی لوگوں کی حمایت حاصل ہے ، لیکن ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی کی حمایت میں کمی ہوئی ہے۔
ایف ڈی پی، پارلیمان میں پہنچنے کے لیے لازمی پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں بھی ناکام ہو سکتی ہے، جبکہ ایس پی ڈی کو سخت شکست کا خطرہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی تاریخ میں ایس پی ڈی کے لیے بنڈس ٹاگ کے انتخابات میں 20 فیصد سے کم کا نتیجہ بدترین ہو گا اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایس پی ڈی اس قدر سے کوسوں دور ہے۔چانسلر اولاف شولس گزشتہ 50 سالوں میں سب سے کم مدت کے ساتھ حکومت کے سربراہ ہوں گے اور ایس پی ڈی کے واحد چانسلر ہوں گے جو دوبارہ منتخب نہیں ہوں گے۔
یونین سب سے آگے، اے ایف ڈی دوسرے نمبر پررائے عامہ کے جائزوں کے مطابق فریڈرش میرس کے چانسلر بننے کے بہترین امکانات ہیں۔ سی ڈی یو کے چیئرمین سی ڈی یو اور سی ایس یو اتحاد کی قیادت کرتے ہیں، جو 16 سال حکومت میں رہنے کے بعد 2021 میں بنڈس ٹاگ میں سب سے مضبوط اپوزیشن قوت بن گئی۔ انتخابات میں دوسرے نمبر پر دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی ہے جسے 20 فیصد تک ووٹ ملنے کے امکانات ہیں۔
یہ تعداد 2021 کے مقابلے میں دو گنا ہو گی۔ایس پی ڈی کا ڈرامائی زوال اور اے ایف ڈی کا عروج، یہ کیسے ہوا؟ یونین چانسلر کے امیدوار میرس معیشت کے کریش کا حوالہ دیتے ہیں: ''ہمارے ملک، وفاقی جمہوریہ جرمنی کی معیشت اب یورپی یونین میں سب سے نیچے ہے۔‘‘
50,000 کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں، اور ہر سال تقریبا 100 بلین یورو کا کارپوریٹ سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے۔
میرس نے کہا کہ شولس اور ان کے وزیر اقتصادیات رابرٹ ہابیک، جو گرین پارٹی کی طرف سے چانسلر کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں، ''اب حقیقت کو بالکل نہیں سمجھیں گے۔‘‘
فریڈرش میرس کا مزید کہنا تھا، ''کیا آپ جانتے ہیں آپ مجھے کیسے دکھائی دیتے ہیں؟ دو ایسے تنخواہ دار منیجنگ ڈائریکٹرز، جنہوں نے کمپنی کو دیوار سے لگا دیا ہو اور پھر مالکان کے پاس جا کر کہتے ہوں کہ ہم مزید چار سال تک اسی طرح کام جاری رکھنا چاہیں گے۔
اگرچہ میرس نے انتخابی مہم میں ایک حریف کے طور پر ان پر سخت سے سخت حملہ کیے، تاہم چانسلر شولس ظاہری طور پر،حالیہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جرات مند، خود اعتماد اور لڑاکا دکھائی دیتے تھے، تاہم وہ اکثر اپنی پالیسیوں کا دفاع اور جواز ہی پیش کرتے رہے۔
یہ ان کی حکومت نہیں بلکہ یوکرین پر روس کا حملہ تھا جس کی وجہ سے توانائی کا بحران اور افراط زر پیدا ہوا۔
شولس کے بقول، ''آج تک، معیشت اس کے نتائج سے نبرد آزما ہے۔‘‘ آنے والے برسوں میں امریکہ اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے 'پریشان کن‘ مطالبات کے حوالے سے صورتحال آسان نہیں ہوگی: ''ہوا سامنے کی طرف سے چل رہی ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں اس صورتحال بڑی تبدیلی نہیں ہو گی۔‘‘ مائیگریشن، سب سے بڑا معاملہانتخابی مہم کے دوران کمزور معیشت ایک بہت زیادہ زیر بحث موضوع رہا۔
تاہم شافن برگ میں ایک ایسے افغان پناہ گزین کی طرف سے مہلک چاقو کے مہلک حملے کے بعد مہاجرت کا موضوع غالب رہا، جس کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی۔ خاص طور پر جب فریڈرش میرس نے اس حملے کے فوراﹰ بعد اعلان کیا تھا کہ وہ بنڈس ٹاگ میں انتخابات سے قبل پناہ کی پالیسی کو سخت کرنا چاہتے ہیں، اور اگر ضروری ہو تو اے ایف ڈی کے ووٹوں سے بھی۔جنوری کے آخر میں یونین کی طرف سے پیش کی گئی پہلی تجویز کو پارلیمان میں اکثریت ملی تو اے ایف ڈی کے پارلیمانی سربراہ برنڈ باؤمان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے: ''اب کچھ نیا شروع ہو رہا ہے، اور ہم اے ایف ڈی کی قوت اس کی قیادت کر رہے ہیں۔‘‘ ان کی پارٹی سی ڈی یو/ سی ایس یو کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے ساتھ کوئی تعاون نہیںجرمنی میں سی ڈی یو کی طرف سے اے ایف ڈی کے ساتھ مل کر بنڈس ٹاگ میں قانون سازی کی کوشش کے بعد ملک بھر میں لاکھوں شہریوں نے مظاہرے کیے اور چانسلر شولس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''یہ غیر اہم نہیں ہے کہ آپ انتہائی دائیں بازو کے ساتھ کام کرتے ہیں یا نہیں۔ جرمنی میں نہیں!‘‘ شہریوں کو اس بات پر یقین نہیں کہ یونین اتحاد بنڈس ٹاگ انتخابات کے بعد اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔
اس کے بعد آنے والے دنوں اور ہفتوں میں میرس نے اے ایف ڈی کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور کہا کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا مقصد سی ڈی یو اور سی ایس یو کو تباہ کرنا ہے اور یونین کسی بھی صورت میں اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔
کون کس کے ساتھ اتحاد بنا سکتا ہے؟لیکن یونین اکیلے حکومت کرنے کے قابل نہیں ہو گی، اسے بنڈس ٹاگ انتخابات کے بعد کم از کم ایک اتحادی شراکت دار کی ضرورت ہو گی۔
جتنی زیادہ پارٹیاں بنڈس ٹاگ میں داخل ہوں گی، اکثریت بنانا اور اس طرح حکومت بنانا اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔اگر ایف ڈی پی کامیابی حاصل کر لیتی ہےاسے حکومت سازی کے لیے ممکنہ طور پر تین جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی ضرورت پڑے گی۔ چونکہ ایف ڈی پی نے پارٹی کانگریس کی قرارداد کے ذریعے گرین پارٹی کے ساتھ نئے سرے سے اتحاد کو مسترد کر دیا ہے، لہٰذا صرف سی ڈی یو / سی ایس یو ، ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی کے اتحاد کا امکان باقی رہے گا۔
اگر بنڈس ٹاگ میں کم پارٹیاں ہیں تو یہ ممکنہ طور پر یونین اور ایس پی ڈی یا یونین اور گرینز ہو سکتی ہیں۔ اے ایف ڈی الگ تھلگ ہےاے ایف ڈی کی طرف سے چانسلر امیدوار ایلیس وائیڈل کا کہنا ہے کہ اس طرح کا اتحاد سے صرف گزشتہ پالیسی کو ہی جاری رکھنا ہی ممکن ہو گا۔ ان کے بقول اے ایف ڈی اسے نہیں روکے گی تاہم سیاسی ''تبدیلی‘‘ آئے گی مگر صرف ''غیر ضروری تاخیر‘‘ ہو گی۔
اے ایف ڈی کے ساتھ ووٹنگ کے معاملے کے بعد، یونین کے مقابلے میں ایس پی ڈی اور گرین کے مابین تعلقات زیادہ بہترین نہیں ہیں۔ آخر میں اتحاد یقینی طور پر اس بات پر منحصر ہو گا کہ متعلقہ جماعتیں اپنے کتنے سیاسی نظریات کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔
انتخابی مہم میں موسمیاتی پالیسی شاید ہی کوئی مسئلہ ہوایس پی ڈی سماجی پالیسی کو اولیت دے گی، گرین پارٹی آب و ہوا کے تحفظ کو۔
گرین پارٹی کی طرف سے چانسلر کے امیدوار رابرٹ ہاییک نے خبردار کیا، ''اگر جرمنی 23 فروری کو ایک ایسی حکومت منتخب کرتا ہے جو یہ اعلان کرے کہ وہ آب و ہوا کے تحفظ کے حوالے سے اپنے اہداف کو پورا نہیں کرنا چاہتی تو اس کا مطلب ہے کہ یورپ اپنے ماحولیاتی تحفظ کے اہداف کو پورا نہیں کرنا چاہے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کے بعد عالمی آب و ہوا کا تحفظ ختم ہو جائے گا۔ کوئی چانسلر، کوئی ماحولیاتی تحفظ کا وزیر یا کوئی کمشنر، بھارت، انڈونیشیا یا چین جا کر یہ نہیں کہہ سکے گا کہ دوستو، کوئلہ کم جلائیں اور زیادہ قابل تجدید توانائی استمعال کریں۔‘‘فریڈرش میرس جانتے ہیں کہ مذاکرات آسان نہیں ہو سکتے۔ تاہم، بنڈس ٹاگ کے انتخابات کے بعد، جرمنی کے مسائل کو حل کرنا ایک ''سیاسی ذمہ داری‘‘ ہے۔
میرس کے بقول یہ اے ایف ڈی کی افزائش گاہ کو ختم کرنے کے ''آخری مواقع میں سے ایک‘‘ ہے۔ میرس کے مطابق، ''اگر یہ کامیاب نہیں ہوتی، تو ہمیں صرف 20 فیصد دائیں بازو کی عوامیت پسندی کا سامنا نہیں ہو گا۔‘‘میرس کے بقول، ''پھر ایک دن دائیں بازو کے عوامیت پسندوں کے پاس بنڈس ٹاگ میں نہ صرف ایک بلاکنگ اقلیت ہو گی جو آئینی تبدیلیوں کی اجازت نہیں دیتی، اس کے بعد وہ اکثریت کے قریب آسکتے ہیں۔‘‘
اگلے متوقع چانسلر فریڈرش میرس اسے ایس پی ڈی، گرینز اور ایف ڈی پی کی ایک ذمہ داری قرار دیتے ہیں: ''یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے آپ بچ نہیں سکتے اور ہم اسے نبھائیں گے۔‘‘
زابینے کنکارٹس (ا ب ا/ا ا)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی طرف سے چانسلر دائیں بازو کے کے ساتھ اتحاد ایس پی ڈی اور بنڈس ٹاگ میں فریڈرش میرس گرین پارٹی چانسلر کے سی ایس یو ایف ڈی پی سی ڈی یو کے بقول نہیں ہو میرس کے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
وزیراعظم سے ڈیرہ غازی خان کے سیاسی و پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات
وزیراعظم شہباز شریف نے ڈیرہ غازی خان کے سیاسی اور پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔
اعلامیے کے مطابق ڈیرہ غازی خان کے مقامی رہنماؤں نے حالیہ مالی استحکام پر وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کیا اور علاقے کی فلاح و بہبود کے ترقیاتی کاموں پر شکریہ ادا کیا۔
اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے شرکاء کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے متحرک کرداد ادا کرنے کی تلقین کی۔
ملاقات میں متعلقہ حلقوں اور علاقے کے ترقیاتی امور کے حوالے سے گفتگو کی گئی جبکہ وزیراعظم نے کامیاب جلسے کے انعقاد پر ڈیرہ غازی خان کے عوام کو خراج تحسین پیش کیا۔
اعلامیے کے مطابق ملاقات میں وفاقی وزراء احسن اقبال، رانا تنویر حسین، عطا اللّٰہ تارڑ اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللّٰہ بھی شریک ہوئے تھے۔