بالی ووڈ کی ماضی کی معروف اداکارہ اور ’بگ باس 18‘ کی سابقہ امیدوار شلپا شیروڈکر نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر فلم انڈسٹری  کو چھوڑ کر شادی کا فیصلہ کیا تھا۔

ایک انٹرویو میں شلپا نے بتایا کہ بالی ووڈ کو انہوں نے اپنی والدہ کے مشورے پر خیرباد کہہ کر شادی کر لی تھی اور انہیں اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔

اداکارہ نے بتایا کہ ان کی والدہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ ہر کام کا وقت ہوتا ہے، اور جو کام وقت پر نہ ہو وہ بعد میں صرف پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔ شلپا نے کہا کہ ان کی والدہ کے مطابق وہ ان کی شادی کی عمر تھی اور وہ ہی شادی کیلئے بہترین وقت تھا۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by BollywoodShaadis.

com (@bollywoodshaadis)

 شلپا نے بتایا کہ ’میں نے 2000 میں شادی کی اور میری والدہ کا ماننا تھا کہ ہر چیز کا صحیح وقت ہوتا ہے، اس لیے بالی ووڈ میں نام کمانے کے بعد میری زندگی کا اگلا قدم شادی تھی۔ 26-27 سال کی عمر میں شادی کرنا ضروری تھا، اور میں نے خوشی سے فلم انڈسٹری چھوڑ دی۔‘

شلپا نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ اپنی والدہ کے فیصلوں پر یقین رکھتی ہیں اور انہیں کبھی بھی والدہ کے کیے فیصلوں پر عمل کر کے افسوس نہیں ہوا۔ شلپا نے یہ بھی کہا کہ وہ کبھی بھارت چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں، لیکن تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ شادی کے بعد ملک سے باہر چلی گئیں اور مکمل طور پر ایک گھریلو خاتون بن گئیں جس پر وہ خود بھی خوش اور مطمئین ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بالی ووڈ والدہ کے

پڑھیں:

قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) دوسری عالمی جنگ کے بعد جب ایشیا اور افریقہ کے ممالک آزاد ہوئے تو یہ توقع کی گئی کہ کلونیل عہد کے اداروں اور روایات کا خاتمہ کر کے نئے مُلک کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ اس سلسلے میں سابق محکوم قوموں کے ذہن کو بھی بدلن بھی ضروری خیال کیا گیا۔کیونکہ یورپی سامراج کے دور میں اُنہوں نے اس کا مقابلہ ماضی کی اپنی شان و شوکت اور عظمت کو اُبھار کر کیا تھا۔

لیکن آزادی کے بعد ماضی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اب قوموں کو ترقی کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا تھا۔ ماضی اب اُن کے لیے رکاوٹ کا باعث تھا۔ اس لیے ایک نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت تھی، جس میں کلونیل دور کے اُن غلطیوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا تھا جن کی وجہ سے اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

(جاری ہے)

آزادی کے بعد ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں نے آمریت کے نظام کو نافذ کیا۔

وہ راہنما جنہوں نے آزادی کی تحریک کی حمایت کی تھی۔ وہ قوم کے ہیرو بن گئے، لیکن عام لوگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ کیونکہ آمروں کو کلونیل دور کا سیاسی نظام پسند تھا۔ اس لیے اُنہوں نے سابق ریاستی اداروں کو جن میں فوج، نوکر شاہی، پولیس اور خفیہ ادارے شامل تھے، اُنہیں اپنے اقتدار کے لیے باقی رکھا۔

جن افریقی اور ایشیائی مُلکوں میں جمہوریت کی ابتداء ہوئی تھی اُسے آمرانہ قوتوں نے ختم کر دیا اور آمر با اختیار ہو کر طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔

انتخابات کی جگہ ریفرنڈم کی روایت شروع ہوئی تا کہ حکمراں پارٹی کو انتخابات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر الیکشن کرانا پڑے تو اُنہیں محدود کر دیا گیا۔ جیسا کہ پاکستان میں بھی ہو چکا ہے۔

جب آمر اور حکمراں طبقہ بااختیار ہو جائے تو اس کے نتیجے میں خوشامد کی پالیسی پروان چڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بدعنوانی اور رشوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔

طالبعلموں، مزدوروں اور خواتین کی تحریکوں پر پابندیاں لگا دی جاتیں ہیں۔ تعلیمی نصاب کو بدل دیا جاتا ہے۔ تاریخ کو مسخ کر کے قومی راہنماؤں کو ہیروز کا درجہ دے کر اُن پر ہر قسم کی تنقید ممنوع کر دی جاتی ہے۔ اَدب، آرٹ، تھیٹر اور موسیقی بے جان ہو کر سطحی ہو جاتی ہے۔ جب کسی بھی سوسائٹی میں طبقاتی فرق بڑھ جائے، تو اس کے نتیجے میں اشرافیہ نہ صرف دولت اکٹھی کرتی ہے بلکہ مراعات یافتہ بھی بن جاتی ہے۔

جبکہ عوام اپنی عزت اور وقار سے محروم ہو کر غربت اور عسرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے اُن میں کبھی کبھی یہ سوال پیدا ہوتا کہ کیا یورپی سامراج کی غلامی اچھی تھی یا اپنوں کی۔

Howard university کے ایک پروفیسر Nile Ferguson کا کہنا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے نو آزاد ممالک اپنی حالت کو بدلنے کے اہل نہیں ہیںٰ اس لیے مغربی سامراج کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوبارہ ان پر قبضہ کر کے ان کی اصلاح کریں، اور اِنہیں جدید دور میں داخل کریں۔

لیکن کچھ ناکام ریاستوں نے کامیاب ہو کر مغرب کی بہت سی غلط فہمیوں کو دُور کیا ہے۔ مثلاً سنگاپور جو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے اُس نے کلونیل دور کے تمام نشانات کو مِٹا کر اپنا ایک ایسا نظام قائم کیا، جو بہت سے یورپی مُلکوں سے بہتر ہے۔ جنوبی کوریا نے اپنی تبدیلی کا آغاز آمریت سے کیا تھا مگر پھر اسے جمہوریت میں بدلا اور صنعتی ترقی نے اسے خوشحال بنایا۔

ملائیشیا نے بھی اصلاحات کے ذریعے اپنی ناکامی کو ختم کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کامیاب ہونے کے لیے کونسی پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوم کی ترقی کے لے ضروری ہے کہ اُسے ماضی کی زنجیروں کو توڑنا ہو گا اور ماضی کا حصہ ہوں یا کلونیل دور کی پیداوار ان سب کا خاتمہ کر کے موجودہ حالات کے مطابق سیاسی اور معاشی اور سماجی نظام کو تشکیل کرنا ہو گا۔

جدید روایات اُسی وقت معاشرے میں آئیں گی جب اُن کے لیے خالی جگہ ہو گی۔ قدیم اور جدید مِل کر ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔

دونوں امریکی مصنفین نے قوموں کی ناکامی کا جو تجزیہ کیا ہے اُسے پاکستان کی اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کے لیے پڑھنا ضروری ہے تا کہ وہ مُلک کو بحرانوں سے نکال سکیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اداکارہ مہر النسا کو برطانیہ میں جیون ساتھی مل گیا؛ نکاح مسجد میں ہوا
  • علیحدگی کے باوجود والدین تادمِ مرگ اچھے دوست رہے؛ نورجہاں کی بیٹی کا انٹرویو وائرل
  • ماں بننے کا تجربہ پرسکون تھا، مزیدکتنے بچوںکی خواہش ہے ،اداکارہ عروہ حسین نے بتادیا
  • کاجول ائیرپورٹ پرانجلی بن گئیں
  • کیا بالی ووڈ اداکارہ سشمیتا سین پاکستانی فلم میں کام کریں گی؟
  • قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
  • پریانکا چوپڑا کی بالی ووڈ میں شاندار واپسی: مہنگی ترین اداکارہ بن گئیں
  • اداکارہ عمارہ چوہدری بابراعظم، نسیم، صائم اور اعظم؛ کس سے شادی کرنا چاہتی ہیں؟
  • بالی ووڈ اداکارہ نے سر منڈوا کر روایتی خوبصورتی کے معیار کو چیلنج کر دیا
  • کیا سشمیتا سین پاکستانی فلم میں کام کر رہی ہیں؟ اداکارہ نے خاموشی توڑ دی