حماس نے اسرائیلی قیدی شیری بیباس کی باقیات ریڈ کراس کے حوالے کر دیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
حماس نے اسرائیلی قیدی شیری بیباس کی باقیات ریڈ کراس کے حوالے کر دی ہیں، جس کے بعد اسرائیل کو ایک اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسرائیل نے جمعرات کو حماس کی جانب سے دی گئی لاشوں میں شیری بیباس کی عدم موجودگی کا دعویٰ کیا تھا۔
اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار اوری گولڈ برگ نے کہا کہ بیباس کی لاش کی واپسی ہفتے کے روز ہونے والے قیدیوں کے تبادلے کے لیے ”ایک ترغیب“ ہے تاکہ یہ عمل ”منظم انداز میں“ مکمل ہو سکے۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا، ’میرے خیال میں حماس نے اس معاہدے کو سنجیدگی اور مکمل عزم کے ساتھ پورا کرنے کے لیے غیر معمولی کوششیں کی ہیں۔‘
حماس نے جمعرات کو چار قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کیں، جن میں شیری بیباس، ان کے دو کمسن بیٹے کفیر اور آریل، اور ایک بزرگ یرغمالی شامل تھے۔ تاہم، اسرائیلی فرانزک ٹیموں نے تصدیق کی کہ دی گئی لاشوں میں سے دو بیباس بچوں کی ہیں، جبکہ بزرگ یرغمالی اوڈیڈ لیفشٹز کی شناخت بھی ہو گئی، لیکن چوتھی لاش شیری بیباس کی نہیں تھی۔
جس کے بعد ایک حماس عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ممکن ہے شیری بیباس کی باقیات دیگر افراد کی لاشوں کے ساتھ مل گئی ہوں، جو اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہو کر ملبے تلے دب گئے تھے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حماس کے عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا، ’یہ ممکن ہے کہ بیباس کی لاش غلطی سے دیگر لاشوں کے ساتھ ملی ہو‘، اور کہا کہ گروپ اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
بیباس کی غلط لاش دینے پر اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے حماس کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم شیری کو واپس لانے اور اپنے تمام یرغمالیوں کو—زندہ اور مردہ—واپس لانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے اور حماس کو اس ظالمانہ اور سفاک خلاف ورزی کی پوری قیمت چکانی ہوگی۔‘
ایک حماس عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ تنظیم نے نومبر 2023 میں ثالثوں کو آگاہ کیا تھا کہ وہ بیباس خاندان کے افراد کی لاشیں واپس کرنے پر تیار ہے۔
حماس نے نومبر 2023 میں ان کی لاشیں واپس کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن اس وقت نیتن یاہو نے انکار کر دیا تھا۔
حماس کا مؤقف ہے کہ یرغمالیوں کی ہلاکت اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہوئی اور تنظیم نے ان کے ساتھ انسانی سلوک کیا جبکہ انہیں محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔
دریں اثنا، حماس کے ترجمان اسماعیل الثوابطہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ شیری بیباس کی باقیات ممکنہ طور پر ملبے تلے دفن دیگر لاشوں کے ساتھ مل گئیں۔
ادھر اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں ہفتے کے روز ایک اور قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے لیے تیاریاں کی جا رہی ہیں، جب کہ اسرائیل میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس نے دو بچوں کو ”سفاکیت سے قتل“ کیا اور ان کی والدہ کی لاش کی جگہ ایک نامعلوم عورت کی لاش واپس کی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شیری بیباس کی باقیات کے ساتھ کی لاش کے لیے
پڑھیں:
حماس نے اسرائیلی بمباری سے ہلاک4 اسرائیلیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کردیں
غزہْ/واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک+اے پی پی) فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 4 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دی ہیں۔ یہ یرغمالی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوئے تھے۔حماس نے چاروں لاشیں خان یونس میں ریڈ کراس کے سپرد کیں۔ اس موقع پر حماس کی جانب سے بینرز بھی آویزاں کیے گئے، جن پر لکھا تھا کہ “نیتن یاہو اور اس کی نازی فوج نے صیہونی طیاروں سے
بمباری کر کے یرغمالیوں کو قتل کیا۔”حماس کا کہنا ہے کہ “ہم نے جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر کے لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔” میڈیا رپورٹس کے مطابق یرغمالیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کرنے کے دوران اسٹیج پر لاشوں کے ساتھ امریکی ساختہ بم بھی رکھے نظر آئے۔عرب میڈیا کے مطابق یرغمالیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کرنے کی تقریب میں اسٹیج پر رکھے امریکی بم فضا سے زمین پر مار کرنے والے جی بی یو 39 بم تھے۔حماس کی جانب سے ان امریکی ساختہ بموں پر ایک تحریر بھی درج تھی جس میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی یرغمالیوں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ امریکی بموں سے ہلاک ہوئے۔دوسری جانب وائٹ ہاس نے فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز کو دی جانے والی تمام فنڈنگ روک دی ہے۔ ادھر فلسطینی صدر محمود عباس نے کہاہے کہ فلسطین فروخت کے لیے نہیں ہے اور اس کی زمین کا کوئی حصہ ترک نہیں کیا جائے گا۔شنہوا کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے گزشتہ روز رام اللہ میں فتح سینٹرل کمیٹی کے اجلاس کے بعد بیان میں کہا کہ فلسطین فروخت کے لئے نہیں ہے اور اس کی زمین کا کوئی حصہ، چاہے وہ غزہ، مغربی کنارے یا مقبوضہ بیت المقدس میں ہو ترک نہیں کیا جائے گا،فلسطینی عوام کو بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی قانون اور عرب امن اقدام کو کسی بھی سیاسی حل کی بنیاد کے طور پر ماننے پر زور دیا۔