وزیراعظم آج کوٹ چھٹہ میں جلسہ سے خطاب‘ مختلف منصوبوں کا افتتاح کرینگے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
ڈیرہ غازی خان‘ چوٹی زیریں‘ کوٹ چھٹہ (بیورو رپورٹ‘ نیوز رپورٹر‘ نمائندہ نوائے وقت) وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف آج 22 فروری کو کوٹ چھٹہ آمد کے سلسلہ میں تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے۔ تفصیل کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا دورہ کوٹ چھٹہ 20 فروری کو ہونا تھا۔ موسمیات کی خرابی کے باعث آج 22فروری کو کوٹ چھٹہ دن 12بجے 33موڑ کوٹ چھٹہ پہنچیں گے۔ جہاں وہ جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد سردار فاروق خان لغاری ائیرپورٹ اور دیگر میگا پروجیکٹ روڈز کا افتتاح بھی کریں گے ۔ اس سلسلے میں جلسہ گاہ کے تمام انتظاما ت مکمل کر لئے گئے اور سیکیورٹی کے بھی فول پروف انتظامات کئے گئے ہیں ۔ وزیراعظم کے دورہ کے پیش نظر آر پی او ڈیرہ غازی خان کیپٹن (ر) سجاد حسن خان اور کمشنر اشفاق احمد چوہدری نے کوٹ چھٹہ کا وزٹ کر کے روٹس، جلسہ گاہ‘ ہیلی پیڈ‘ پارکنگ سمیت دیگر مقامات کا معائنہ کر کے سکیورٹی کے اقدامات اور تمام تر انتظامات کا تفصیلی جائزہ لیا۔اس موقع پر ڈی پی او سید علی اور ڈپٹی کمشنر عثمان خالد نے سیکورٹی اقدامات اور تمام تر انتظامات کے حوالے سے بریف کیا۔ وزٹ کے دوران آر پی او کیپٹن (ر) سجاد حسن خان نیترتیب کردہ سکیورٹی پلان پر سختی سے عمل درآمد کرانے، روٹ اور وینیو کی مکمل سرچنگ سوئپنگ جاری رکھنے، غیر متعلقہ افراد کو وینیو سے دور رکھنے، جلسہ گاہ میں داخل ہونے والے افراد کی تین لیئرز میں چیکنگ کرنے، ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے مربوط ٹریفک پلان کے تشکیل، گاڑیوں کو مقرر کردہ پارکنگ میں پارک کرانے، سیکورٹی پر تعینات اہلکاران کو الرٹ رکھنے، جلسہ گاہ کی گردو نواح کی آبادیوں کے گھروں میں سرچ آپریشن کرنے ، ہوٹل سرائے اور کرایہ داران کی چیکنگ کرنے اور داخلی خارجی راستوں پر سخت چیکنگ جاری رکھنے کے احکامات جاری کیے۔ وزٹ کے دوران کمشنر اشفاق احمد چوہدری نے انتظامات و سیکورٹی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتنے کی ہدایات جاری کیں۔
وزیراعظم / کوٹ چھٹہ
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جلسہ گاہ
پڑھیں:
روشنیوں کا شہر کراچی، کہیں کھو گیا
دانش عابد
کراچی، جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، آج بے شمار مسائل میں الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ شہر رات بھر جاگتا تھا، بازار روشن رہتے تھے، سڑکیں محفوظ تھیں، اور شہری زندگی کی رونقیں عروج پر تھیں۔ مگر اب، مہربان حکمرانوں نے شہر کراچی کو جہنم میں بدلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی بدامنی اپنے عروج پر ہے۔
بدترین ٹریفک کی وجہ سے آئے روز شہری کسی نہ کسی حادثے کی صورت میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ حکمرانوں نے اس شہر کو مختلف مافیا کے حوالے کر دیا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ شہر کراچی میں رہنے والا ایک عام آدمی جب صبح اپنے گھر سے رزق حلال کی تلاش میں نکلتا ہے تو اسے نہیں معلوم ہوتا کہ آج وہ اپنے گھر خیر سے پہنچے گا یا کسی ٹینکر، ڈمپر مافیا یا کسی ڈکیتی کی واردات کا نشانہ بن کر اس دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ خوش قسمتی سے اگر ان تمام مصیبتوں سے بچ کر شام کو گھر لوٹ بھی جائے تو ایک اور مافیا جسے کے الیکٹرک کے نام سے جانا جاتا ہے وہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ ویسے تو کراچی کے مختلف علاقوں میں 10 سے 15 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ عام ہے لیکن اس کے بعد بھی بجلی ہوتی نہیں اور اگر ہوتی ہے تو گھر پر آئے بھتے کی صورت میں بھاری بھرکم بجلی کا بل اس کی بچی کھچی جان لے لیتا ہے۔ رواں سال 1 جنوری 2025 سے 19 فروری 2025 تک ٹینکر اور ڈمپر مافیا کی زد میں آکر شہید ہونے والے کراچی کے باعزت شہریوں کی تعداد لگ بھگ 108 کے قریب ہو گئی ہے۔ نئے سال کا پہلا مہینہ ہی کراچی والوں پر بھاری رہا، ماہ جنوری کے دوران کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ سے 45 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 5 خواتین بھی شامل تھیں پولیس کا کہنا تھا کہ 20 جنوری کو سب سے زیادہ یعنی 7 افراد جان بحق ہوئے جبکہ 24 جنوری کے دن مختلف فائرنگ کے واقعات میں 5 افراد لقمہ اجل بنے جب کہ رواں سال کے دوسرے مہینے 17 فروری 2025 تک 8 شہری ڈکیتی کی وارداتوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کے آغاز سے قبل ہی غیر مقامی کراچی کا رخ کر لیتے ہیں جس کی بدولت شہر میں مزید جرائم کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ جگہ جگہ لگے سحری اور افطاری کے دسترخوانوں سے بآسانی کھانا دستیاب ہو جاتا ہے۔ مختلف جگہوں سے بہترین پیٹ پوجا کرنے کے بعد اپنے اصل کام کی طرف یعنی شہر کراچی کی عوام کو لوٹنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو کافی عرصے سے جاری ہے ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال رمضان المبارک میں کراچی میں 4000 سے زائد وارداتیں ہوئیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان غیر مقامی باشندوں کو شہر کراچی میں بہت حد تک قابو کرنے میں ناکام اور بے بس نظر آتے ہیں۔
کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جو پورے پاکستان کے لیے معاشی اعتبار سے ٹرین کے انجن کی مانند ہے لیکن بدقسمتی سے برسوں سے حکمرانوں کی بے حسی اور عدم توجہی کی وجہ سے سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، اور پانی کی قلت عام شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنا رہی ہے۔ جہاں پہلے لوگ بلا خوف و خطر رات گئے تک گھومتے تھے، آج وہاں بدامنی اور بے یقینی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ لیکن کراچی آج بھی امید کا استعارہ ہے۔ اگر حکام سنجیدگی سے شہر کے بنیادی مسائل اور بدامنی پر توجہ دیں، تو یہ روشنیوں کا شہر دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی چمک حاصل کر سکتا ہے۔ شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داری سمجھیں اور اپنے شہر کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔