کراچی:

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے اجلاس میں پورٹ قاسم کی اربوں روپے کی اراضی کو اونے پونے داموں فروخت کیے جانے کے انکشاف کے بعد پورٹ قاسم نے کہا ہے کہ معاملے میں کوئی کرپشن نہیں ہوئی، مذکورہ اراضی کا قبضہ تاحال پورٹ قاسم اتھارٹی کے پاس ہے۔

ترجمان پورٹ قاسم اتھارٹی کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے اجلاس میں 500 ایکڑ رقبے پر پی کیو اے کی اراضی کا معاملہ سامنے آیا 500 ایکڑ اراضی 2005 میں ہونے والی بولی کے ذریعے 2010 میں الاٹ کی گئی تھی، الاٹ کی گئی زمین خط سمندر کی سطح سے نیچے یعنی لو واٹر لیول میں ہے جس کی ڈیولپمنٹ الاٹی کو کرنا تھی تاحال اس اراضی کا قبضہ پارٹی کے حوالے نہیں کیا گیا۔

ادائیگی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے 2012ء میں الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا نوٹس جاری کیا نوٹس کے خلاف الاٹی نے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا اور حکم امتناعی حاصل کرلیا تھا اور یہ معاملہ 2024ء تک بغیر کسی نتیجے کے عدالت میں زیر التواء رہا۔

تنازعے کے حل اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے پورٹ قاسم اتھارٹی کے بورڈ نے عدالت کے باہر تصفیہ کی منظوری دی اس دوران نیب کراچی کے ریکارڈ طلب کرنے کی وجہ سے تصفیہ کے لیے کارروائی نہیں کی گئی۔

ترجمان کے مطابق پورٹ قاسم اتھارٹی قانونی فریم ورک کی تعمیل کا عزم  رکھتاہے اور اس عمل میں کسی بھی غلط کام کی تردید کرتا ہے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان پورٹ قاسم اتھارٹی

پڑھیں:

امریکا کو اپنی غلطیوں کو درست کرنے میں زیادہ بڑا قدم اٹھانا چاہئے، عالمی میڈیا

امریکا کو اپنی غلطیوں کو درست کرنے میں زیادہ بڑا قدم اٹھانا چاہئے، عالمی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 April, 2025 سب نیوز

واشنگٹن :امریکہ نے ایک میموریٹم جاری کیا، جس میں کمپیوٹرز ، اسمارٹ فونز ، سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ آلات ، اور انٹگریڈڈ سرکٹوں کو “ریسیپروکل محصولات” سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ چینی حکومت نےاس کے جواب میں کہا کہ یکطرفہ “ریسیپروکل محصولات” کے غلط عمل کو درست کرنے میں یہ امریکا کی جانب سےایک چھوٹا سا قدم ہے۔ کچھ بین الاقوامی تنظیموں نے نشاندہی کی ہے کہ اگر امریکی حکومت متعلقہ مصنوعات کو استثنیٰ نہیں دیتی ہے تو ، “امریکی ٹیکنالوجی کی صنعت دس سال پیچھے چلی جائے گی اور مصنوعی ذہانت کا انقلاب نمایاں طور پر سست ہوجائے گا۔

حقائق سے ثابت ہوا ہے کہ 2 اپریل کو امریکہ کی طرف سے “ریسیپروکل محصولات” کے نفاذ کے بعد سے، بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظم و نسق میں خلل پڑا ہے، کاروباری سرگرمیاں اور لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں، اور خود امریکہ کو زیادہ سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہاہے. اس کے ساتھ ہی یورپی یونین، جس کا امریکہ کے ساتھ سیکڑوں ارب یورو کا سروس تجارتی خسارہ ہے، یہ بھی کہا کہ اگر امریکہ اپنا خیال بار بار تبدیل کرتا اور یورپ پر دباتا رہا تو وہ سروس تجارت کے ذریعے جوابی اقدامات سے انکار نہیں کرے گا۔

دراصل امریکی حکومت نے اپنے محصولات کے حساب میں خدمات کی برآمدات کو جان بوچھ کر نظر انداز کیا ہے اور اب اس علاقے کو تجارتی جنگ میں گھسیٹا جا رہا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سروس ٹریڈ کی بنیاد اشیاء کی تجارت ہے۔ مثال کے طور پر، بین الاقوامی مالیاتی خدمات کا مقصد بین الاقوامی تجارت کو مالی اعانت اور سرمایہ کاری فراہم کرنا ہے. اگر دنیا کی نصف حصے سے زیادہ اشیاء کی بین الاقوامی تجارت ختم ہو جائے تو دنیا کو امریکہ سے کتنی مالیاتی خدمات کی ضرورت ہوگی؟ اس بار کچھ مصنوعات پر “ریسیپروکل محصولات” سے استثنیٰ کو کسی حد تک امریکا کی جانب سے کچھ علاج کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن امریکا کو جو کرنا چاہیئے، وہ “ریسیپروکل محصولات” کے نفاذ کو مکمل طور پر ختم کرکے اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر بات چیت کرنا ہے۔ تجارتی تنازعات کو حل کرنے کے لئے یہ واحد درست انتخاب ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمیشہ سے نیلے نہیں تھے بلکہ۔۔۔سمندر اربوں سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ؟سائنسدانوں کا نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف
  • سندھ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس‘کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے 5سو جعلی پنشنرز کو 66 کروڑ کی ادائیگی پر ڈائریکٹر فنانس معطل
  • سوناکشی سنہا نے اپنے مسلم شوہر کی تضحیک کرنے والے کا دماغ درست کردیا
  • وزیراعظم سیکرٹریٹ، پارلیمنٹ لاجز، چیئرمین سینیٹ آفس سمیت اربوں روپے کے بجلی بل نادہندگان میں شامل
  • وزیراعظم سیکریٹریٹ، پارلیمنٹ لاجز، چیئرمین سینیٹ آفس سمیت اربوں روپے کے بجلی بل نادہندگان میں شامل
  • اگر وقف اراضی کا صحیح استعمال کیا جاتا تو مسلم نوجوان پنکچر نہ بناتے، نریندر مودی
  • جنگلات اراضی کیس: تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹس طلب
  • امریکا کو اپنی غلطیوں کو درست کرنے میں زیادہ بڑا قدم اٹھانا چاہئے، عالمی میڈیا
  • پنجاب میں غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کا عمل تیز، ہزاروں ڈی پورٹ
  • جنگلات اراضی کیس: درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل