جب پروین بابی نے امیتابھ بچن کیخلاف ایف آئی آر درج کروائی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
بالی ووڈ کی 80 کی دہائی کی مشہور خوبرو آنجہانی اداکارہ پروین بابی نے ماضی میں ایک انٹرویو میں امیتابھ بچن کو ایک بین الااقوامی گینگسٹرقرار دیا تھا اور ان کیخلاف پولیس میں شکایت بھی درج کروائی تھی۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ حالت میں پائی جانے والی اداکارہ پروین بابی نے 1989 میں ایک انٹرویو دیا جس نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ انٹرویو میں پروین بابی نے اس وقت کے سپر اسٹار امیتابھ بچن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان کی جان کے پیچھے پڑے ہیں۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ ’امیتابھ بچن ایک سپر انٹرنیشنل گینگسٹر ہیں۔ وہ میری زندگی کے پیچھے پڑا ہے۔ اس کے غنڈوں نے مجھے اغوا کیا اور مجھے ایک جزیرے پر رکھا گیا جہاں انہوں نے میری سرجری کی اور میرے کان کے اندر ایک ٹرانسمیٹر یا چِپ لگا دی‘۔
اس انٹرویو نے انڈسٹری میں کھلبلی مچا دی جس کے بعد پروین نے ساتھی اداکار کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی اور معاملہ عدالت میں چلا گیا، جس سے ایک اور دل دہلا دینے والا انکشاف ہوا کہ اداکارہ کو دماغی مرض، شیزوفرینیا کی تشخیص ہوئی ہے۔
دوسری جانب میزبان و اداکار شیکھر سمن نے انکشاف کیا کہ پروین بابی نے خود انہیں انٹرویو کے لئے کال کر کے گھر بلایا اور انٹرویو دیا تھا لوگ ان کی ذہنی حالت کے بارے میں جو بھی کہتے ہیں وہ جھوٹ اور غلط ہے۔ میزبان کا کہنا تھا کہ اداکارہ بلکل ٹھیک تھیں لیکن انٹرویو کے دوران پروین بابی نے وہ باتیں کیں جن پر وہ خود بھی حیران اور پریشان ہوگئے تھے۔
تاہم شیکھر سمن نے اداکارہ کے انٹرویو کے وہ کلپس کاٹ دیئے کیونکہ انڈسٹری کے جن لوگوں کے خلاف وہ باتیں بتا رہی تھیں اس کیلئے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔
یاد رہے کہ پروین بابی اور امیتابھ بچن ماضی کی مشہور فلم ’دیوار اور ’امر اکبر انتھونی‘ سمیت کئی فلموں میں ایک ساتھ کام کر چکے تھے۔
ماضی کی اس خوبرو اداکارہ نے زندگی کے آخری لمحات تنہا گزارے اور پڑوسیوں کی جانب سے ان کی لاش سڑنے کی وجہ سے بدبو پھیلنے پر پولیس کو اطلاع دی گئی تھی جہاں بند اپارٹمنٹ میں اداکارہ 3 دن قبل دم توڑ چکی تھیں۔
اداکارہ کے اہل خانہ کی جانب سے ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے انکار کے بعد ان کے ایکس بوائے فرینڈز مہیش بھٹ، کبیر بیدی اور ڈینی نے ان کی آخری رسومات ادا کیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پروین بابی نے امیتابھ بچن
پڑھیں:
اداکارہ روحی بانو، عبدالقادر جونیجو اور کتا (پہلی قسط)
گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو
جو نقش بن نہیں سکتا اسے مٹا ہی دو
گزرا زمانہ، گزرا وقت، گزرے بڑے لوگ یاد ماضی کی طرح آج بھی کم از کم میرے جیسے لوگوں کے دلوں میں آباد ہیں۔ اس لئے کہ میں اس زمانے کا جس کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں۔ میں اس کا ہمسفر تھا۔کامیاب زمانوں کے کامیاب لوگ یعنی جہاں زمانے نے ان کو عزت دی وہاں وہ بھی زمانے کو اپنے نام سے منسوب کر گئے۔ فرانس کے سابق صدر ڈیگال مرحوم کا قول ہے کہ عظیم انسانوں کے بغیر کوئی کام عظیم نہیں ہوتے۔ وہ کیوں عظیم ہوتے ہیں تو ڈیگال نے کہا کہ ان کے کئے کاموں میں ارادے کی پختگی ان کو عظیم سے عظیم تر بنا جاتی ہے۔ ڈیگال کے اس موقف کے بعد بڑے لوگوں کے بارے میں کسی بھی طرح کی رائے اس کے آگے مانند پڑ جاتی ہے۔ ایک طویل عرصہ شوبز کی زندگی میں وابستگی کے بعد بہت دل کرتا ہے کہ اپنی یادوں کو قلم کے حوالے کروں۔ عزت، شہرت، دولت کے حوالے سے ان فنکاروں کے بارے بات کروں جنہیں وقت اور ان کے کئے کاموں نے بہت اونچا کر دیا اور وہ جو بہت نام تو کما گئے مگر نہ دولت اور نہ عزت سنبھال پائے۔ میں ان کو بھی جانتا ہوں جن کے پاس دولت بارش کی طرح برستی تھی اور وہ اس کو لٹاتے بھی بارش کی طرح تھے اور جب سب کچھ لٹاتے لٹاتے ختم ہو گیا تو نہ عزت رہی نہ دولت رہی نہ زمانہ رہا اور جب وقت رخصت قریب آیا تو آخری زندگی میں نہ دوست نہ غم خوار، نہ دل دینے والے کام آئے اور موت بھی آئی تو کسمپرسی کی حالت میں…
میں پی ٹی وی کے 70ء سے 2000ء تک کے دور کا چشم دید گواہ ہوں۔ اس زمانے کی چھوٹی بڑی سکرین کے بڑے لوگوں کے ساتھ گہرا تعلق رہا۔ ایک نہیں سینکڑوں چھوٹے بڑے نام اور بڑے فنکاروں اور ان کی ذاتی زندگیوں سے لے کر فلمی سکرین پر کئے کاموں تک کو بڑے اخبارات کے سپرد قلم کر چکا ہوں۔ زندگی نے وفا کی تو اب چند اہم بڑے فنکاروں کے بڑے یادگار واقعات کو نئی نسل کے حوالے ضرور کروں گا۔ ایسی اداکارائیں، گلوکارائیں، اداکار اور گلوکار، ہدایت کار، کہانی نویس، موسیقاروں کی ایک لمبی فہرست آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ایک طویل ڈرامے کی سیریل کی طرح چل رہی ہے۔ کئی ان گنت واقعات، ان گنت کہانیاں، ان گنت داستانیں کسی بھی بڑے ناموں کے ساتھ واقعات کا ہونا لازمی امر بن جاتا ہے۔ ان میں کچھ واقعات تاریخ کا حصہ بن تو کچھ واقعات دوسروں کے لئے سبق آموز بن کر دوسروں کے لئے بڑا پیغام دے جاتے ہیں۔ آج کے کالم کے ذریعے ماضی کے حوالے سے ماضی کی ایک عظیم اداکارہ کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جس نے ایک زمانے تک ٹی وی کے ذریعے نہ صرف خود کو منوایا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ ٹی وی کے ہر ڈرامے کی ضرورت بن گئی۔ اس وقت اس اداکارہ کی خوش قسمتی یہ رہی کہ ایک وہ دور جب وہ ڈراموں کو بہت اپنے نام کر گئی۔ دوسری طرف اس نے عروج سے موت تک زندگی کے بڑے عذاب بھی جھیلے۔ کبھی پاگل خانے کبھی کسی ایسی جگہوں جہاں نفسیاتی امراض کو پناہ دی جاتی ہے۔ میری مراد روحی بانو سے ہے جس نے زندگی کی جہاں آسانیاں دیکھیں وہاں بہت مشکلات کا سامنا کیا۔
اپنے دور کی سپر سٹار ٹی وی اداکارہ روحی بانو برصغیر کے مشہور طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کی بیٹی اور طبلہ نواز ذاکر حسین کی سوتیلی بہن بھی تھی۔ یاد رہے ذاکر حسین کا 2024ء کو بھارت میں انتقال ہوا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس معاشرے نے روحی بانو کی طرح کئی فنکاروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ وہ اپنے دور کی جتنی بڑی انسان، جتنی بڑی اداکارہ تھی اس سے کئی گناہ عذاب جھیلتی رہی۔ اس کی اور بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک کرائم واقعہ میں اس کا جوان بیٹا مار دیا گیا اور یہی نہیں دولت اور گھر کے لالچ میں روحی بانو کو اس کے اپنوں نے اسے اس کے اپنے ہی گھر سے بے گھر کردیا گیا۔ جو اس کی واحد پناہ گاہ تھی۔ نتیجتاً وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی اور اپنے آخری وقت میں وہ گلبرگ کی گلیوں میں پاگلوں کی طرح پھرتی رہی۔ آخرکار اس کی ایک بہن فرام ترکی اسے اپنے ساتھ لے گئی اور وہیں روحی بانو کا انتقال ہو گیا۔ مشہور زمانہ رائٹر منو بھائی (مرحوم) روحی بانو کو سب سے زیادہ باصلاحیت اداکارہ سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے روحی کردار کو اوڑھ لیتی ہے۔ ہدایت کار جتنا بتاتا ہے، وہ اس سے زیادہ سمجھتی ہے۔ منو بھائی کے لکھے کئی ڈراموں میں روحی بانو نے یادگار کردار ادا کئے۔منو بھائی کی نظر شناسی ایک جگہ سہی میرے نزدیک روحی بانو ایک ذہین انسان ہی نہیں وہ اپنے دور کی کسی بھی بڑی فنکارہ سے کم حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ اس نے زندگی کے ساتھ کیا کھیل کھیلا یا زندگی اس کے ساتھ کیا کھیل گئی۔ یہ سوال اس کی آخری گزری زندگی کے دوران بھی اٹھا تھا۔ اگر ان واقعات کی طرف جائوں گا تو یہ ایک پوری داستان بن جائے گی۔ کہیں وہ خود تو کہیں زمانے نے بھی اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ وہ تو تہذیب کی اداکارہ تھی۔ وہ تو زندگی کے اصل کرداروں کی اداکارہ تھی، وہ تو کردار کے اندر ڈوب کر مر جانے والی اداکارہ تھی، وہ تو اداکاری میں اس حد تک چلی جاتی تھی کہ کردار بھی اس کے آگے لاجواب ہو جاتے اور بہت شہرت حاصل کی گئی عزت اور بہت کچھ ہونے کے باوجود اس کی زندگی اتنی عبرتناک ماحول اور برے حالات میں گزرے گی یہ کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ نجانے اس کی زندگی میں اس سے کونسی خطا ہو گئی، کیا بھول ہو گئی کہ اس کو نہ صرف کئی بار پاگل خانے میں دن گزارنے پڑے اور کئی دکھوں کے ساتھ زندگی اس کو اپنوں سے بھی دور کر دی گئی۔ (جاری ہے)