ویب ڈیسک — 

امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعرات کی رات اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ طالبان کے کنٹرول کے افغانستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جو انتہاپسند گروپوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار سی بی ایس نیٹ ورک کی ایک سابق صحافی کیتھرین ہیریج کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک انٹرویو کے دوران کیا۔

روبیو سے پوچھا گیا تھا کہ آیا انٹیلی جینس رپورٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ( داعش) نے افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا لیے ہیں اور وہ 11 ستمبر 2001 سے پہلے جیسے خطرے کا سبب بن سکتے ہیں۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہوں گا یہ نائن الیون سے پہلے جیسا منظر ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ کی حکمرانی میں ایسے علاقے ہوں جہاں ہر حصے پر آپ کا مکمل کنٹرول نہ ہو تو یہ ایسے گروہوں کے لیے موقع فراہم کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن آج اور 10 سال پہلے کے درمیان فرق یہ ہے کہ اب اس زمین پر امریکی موجود نہیں ہیں جو انہیں ہدف بنائیں اور ان کا پیچھا کریں۔

امریکیی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا انٹرویو سی بی ایس کی سابق صحافی کیتھرین ہیریچ لے رہی ہیں۔ یہ انٹرویو 20 فروری کو ایکس پر نشر ہوا۔ بشکریہ ایکس

روبیو نے کہا کہ جب طالبان کو بتایا گیا کہ اسلامک اسٹیٹ یا القاعدہ ان کے ملک کے کچھ حصوں میں کام کر رہی ہے تو بعض معاملات میں طالبان تعاون کرتے رہے ہیں اور ان کے پیچھے گئے ہیں، لیکن دوسرے معاملات میں انہوں نے اتنا زیادہ تعاون نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ لہذا میں یہ کہوں کا کہ میں اس کا موازنہ نائن الیون سے پہلے کے دور سے نہیں کروں گا، لیکن یقینی طور پر صورت حال کہیں زیادہ غیر یقینی ہے اور یہ بات صرف افغانستان تک محدود نہیں ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کے تبصروں پر طالبان نے فوری طور پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا، لیکن وہ مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ پورا ملک ان کے کنٹرول میں ہے اور وہ ان خدشات کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم افغان سرزمین پر موجود ہے۔

مارکو روبیو کا یہ بیان اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے چند دن بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ القاعدہ کے کارکنوں کو طالبان کی خفیہ ایجنسی کے تحفظ میں افغانستان بھر میں محفوظ ٹھکانے مل رہے ہیں۔




رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے اجازت پر مبنی ایک ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے جس سے القاعدہ کو مضبوط ہونے کا موقع ملا ہے اور اس کےمحفوظ ٹھکانے اور تربیتی کیمپ پورےا فغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں افغانستان میں موجود ایک دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ خراسان کو، جو اسلامک اسٹیٹ سے منسلک ایک گروپ ہے، علاقائی دہشت گردی کا ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کا جائزہ یہ اجاگر کرتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ خراسان کے حامیوں نے یہ کہ نہ صرف طالبان حکام اور افغانستان کی مذہبی اقلیتوں پر حملے کیے ہیں بلکہ ان کے حملوں دائرہ یورپ تک پھیلا ہوا ہے اور یہ گروپ افغانستان کی سرحد سے ملحق وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی اپنی بھرتیوں کے لیے سرگرم ہے۔

طالبان عسکری طور پر اگست 2021 میں اس وقت افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے جب امریکی قیادت میں نیٹو افواج، ملک میں دو عشروں کی اپنی موجودگی کے بعد واپس لوٹ گئیں تھیں جس کے بعد کابل میں قائم افغان حکومت اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور ڈھیر ہو گئی تھی۔

(وی او اے نیوز)

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ ہے اور تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

جنوبی افریقہ میں جی 20 کے وزرائے خارجہ اجلاس سے امریکہ غیر حاضر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 فروری 2025ء) دنیا کی بیس اہم معیشتوں پر مشتمل جی 20 ممالک کے وزرائے خارجہ جمعرات کے روز جنوبی افریقہ میں دو روزہ اجلاس کے لیے جمع ہوئے، تاہم امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔

توقع ہے کہ اس اجلاس کے دوران مشرق وسطیٰ اور یوکرین کی صورتحال پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

البتہ برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ سمیت گلوبل ساؤتھ کے نمائندوں کو اس بات کی امید ہے کہ اس میں، بقول ان کے، بین الاقوامی اداروں میں انتہائی ضروری اصلاحات، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور زیادہ مساوی اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے پر بھی بات چیت ہو گی۔

جی 20 اجلاس: جرمن چانسلر شولس حتمی اعلامیہ سے ناراض

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے اس موقع پر کہا کہ "یہ بہت اہم ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر، کثیرالجہتی اور بین الاقوامی قانون کے اصول ہماری تمام کوششوں کا اہم مرکز ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

بالآخر یہی وہ اقدار ہونی چاہیں، جس کے سبب ہم متحدہ ہیں۔٫

انہوں نے مزید کہا "جغرافیائی سیاسی کشیدگی، بڑھتی ہوئی عدم برداشت، تنازعات اور جنگ، موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض اور توانائی اور خوراک کا عدم تحفظ پہلے سے ہی کمزور عالمی بقائے باہمی کے نظریے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔"

یوکرین جنگ: روسی حملے کے ایک ہزار دن مکمل

صدر رامافوسا نے جی 20 ممالک کے درمیان تعاون پر زور دیا۔

تاہم یوکرین کے خلاف روسی جنگ، موسمیاتی تبدیلی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد واشنگٹن میں پالیسی میں تبدیلی جیسے بہت سے اہم مسائل کے حوالے سے جی 20 منقسم ہے۔

رامافوسا نے کہا کہ "جی 20 کی حیثیت سے ہمیں تنازعات کے سفارتی حل کی وکالت جاری رکھنی چاہیے۔ میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تعاون ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔

آئیے ہم تعمیری مشغولیت کے ذریعے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کریں۔"

چین کے وزیر خارجہ وانگ لی، روس کے سرگئی لاوروف، بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، برطانیہ کے ڈیوڈ لیمی اور فرانس کے ژاں نول بیروٹ جیسے سبھی رہنما اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ تاہم جرمنی کے دفتر خارجہ نے کہا کہ انالینا بیئربوک (شاید انتخابی مصروفیات کے سبب) نہیں آئیں گی۔

موجودہ عالمی مسائل پر بھارت میں جی ٹوئنٹی کی ورچوئل سمٹ

لیکن اس اجلاس کے حوالے سے بڑی خبر امریکی وزیر خارجہ کا بائیکاٹ ہے۔

مارکو روبیو نے بائیکاٹ کیوں کیا؟

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دو روزہ اجتماع شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی شرکت منسوخ کر کے ہنگامہ مچا دیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ان کے بجائے اس اجلاس میں امریکہ کی نمائندگی جنوبی افریقہ میں موجود ایک سفارت کار کرے گا۔

جنوبی افریقہ میں زمین کی واپسی سے متعلق قانون پر سفارتی تناؤ کے درمیان روبیو نے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ نے اس قانون کو زمین کی "ضبطی" اور ملک کے گوروں کے ساتھ غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔

چینی صدر کی جی 20 میں شرکت نہ کرنے کی خبر سے جو بائیڈن مایوس

روبیو نے ایک بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ یہ پریٹوریا کا "امریکی مخالف" ایجنڈا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے بیانات سے ملک کو نشانہ بنایا اور جنوبی افریقہ کے لیے تمام غیر ملکی امداد روکنے کا اعلان کرتے وقت انہوں نے زمینی اصلاحات کے قانون کا ہی حوالہ دیا تھا۔ اخراجات سے متعلق صدر ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک، جو نسل پرست جنوبی افریقہ میں پلے بڑھے ہیں، انہوں نے بھی اس قانون کو "نسل پرست" قرار دیا۔

ٹرانس اٹلانٹک دراڑ کے سبب عالمی فیصلہ سازی متاثر

جنوبی افریقہ نے گزشتہ سال جی 20 کی صدارت سنبھالی تھی اور وہ وزرائے خارجہ کے فورم کی میزبانی کرنے والا پہلا افریقی ملک ہے۔

جی 20 میں 19 ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور افریقی یونین بھی شامل ہیں، جو دنیا کی دو تہائی آبادی اور عالمی اقتصادی پیداوار کا 85 فیصد حصہ ہیں۔

گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران امریکہ اور یورپ کے درمیان اختلافات کے سبب ایک بڑی دراڑ پڑی ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین ہی روسی حملے کا ذمہ دار ہے۔ غزہ، گرین لینڈ، پاناما کینال وغیرہ پر دعویٰ کرنے کے ساتھ ہی امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے یہ سوال بھی کھڑا کر دیا ہے کہ کیا امریکہ اور یورپ اب بھی یکساں اقدار رکھتے ہیں۔

جی 20 اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ نے طالبان کے حوالے سے کیا کہا؟

نام نہاد گلوبل ساؤتھ اقوام نے ایک مشترکہ ترقیاتی ایجنڈے پر عمل کرنے کا پروگرام پیش کیا ہے، تاہم یہ پہلے ہی عجلت کی کمی کا شکار ہے اور اب ٹرمپ کے دور میں امریکی خارجہ پالیسی کی ڈرامائی تشکیل نو کے نتیجے میں یہ مزید تنازعات کی صورت میں جاری جغرافیائی سیاسی اتھل پتھل کے مزید زیر سایہ ہونے کا خطرہ ہے۔

اس اجلاس سے امریکی وزیر خارجہ کی غیر حاضری مزید خلفشار کا باعث ہو گی، حالانکہ یہ امریکہ کے بغیر آگے بڑھنے کا ایک موقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ چین کے لیے زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کا بھی ایک موقع بھی ہے کیونکہ امریکہ اپنے قائدانہ کردار سے دستبردار ہوتا جا رہا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں انتہاپسند گروپوں کے لیے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں.مارکوروبیو
  • بھارتی پنجاب کے وزیر کا 20 ماہ تک ایسے محکمے کی سربراہی کا انکشاف جو وجود ہی نہیں رکھتا
  • آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025: جنوبی افریقہ کا ٹاس جیت کر افغانستان کے خلاف بیٹنگ کا فیصلہ
  • اگر غزہ کیلئے ڈونلڈ ٹرامپ کا منصوبہ پسند نہیں تو اسکے متبادل کوئی تجویز پیش کریں، امریکی وزیر خارجہ
  • جنوبی افریقہ میں جی 20 کے وزرائے خارجہ اجلاس سے امریکہ غیر حاضر
  • طالبان وفد کا دورہ جاپان، جنوبی ایشیا کی سیاست میں نیا موڑ؟
  • امریکا سے ڈی پورٹ پاکستانیوں سمیت دیگر تارکین وطن پاناما میں ڈیرین جنگل کے علاقے منتقل
  • دہشت گردی کے خاتمے کا عزم
  • کیا امریکی “ڈیپ اسٹیٹ” بھارتی جمہوری عمل پر اثر انداز ہو رہی ہے؟