بھارتی انتہاء پسندوں کی جانب سے کشمیر کی تاریخ اور کلچر مٹانے کی مذموم کوشش کامیاب نہیں ہو گی، شرافت خلجی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
پی ایم ایل نواز آزاد کشمیر کے رہنما کا کہنا ہے کہ 05 اگست 2019ء کے غیر آئینی غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کے بعد ہندوستان تسلسل سے ایسی مذموم کارروائیاں کر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات مسلم لیگ نواز یوتھ ونگ آزاد جموں و کشمیر شرافت علی خلجی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض ہندوستانی فورسز کی جانب سے اسلامی اور تاریخ کشمیر کی کتابیں اور کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی انتہاء پسندوں کی جانب سے کشمیر کی تاریخ اور کلچر مٹانے کی مذموم کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ 05 اگست 2019ء کے غیر آئینی غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کے بعد ہندوستان تسلسل سے ایسی مذموم کارروائیاں کر رہا ہے، ہندوستان کا نشانہ کشمیری مسلمان ہیں۔انھوں نے کہا کہ بھارتی انتہاء پسند حکمران آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تحت مسلمانوں کی شناخت مٹانے، ان کی تاریخ کو تبدیل کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی نئی نسل کو گمراہ کرنے کے لیے اسکولوں میں ہندوتوا نظریے پر مبنی نصاب مسلط کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان نے انسانی تاریخ کے بدترین مظالم ڈھا کر کشمیریوں کا بدترین قتل عام کر کے تحریک آزادی کشمیر کو دبانے میں ناکام رہا ہے اب ڈیموگرافی کی تبدیلی اور کشمیریوں کی تاریخ اور تشخص مٹانے کی بھی مذموم کوشش کر رہا ہے جس میں اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکامی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہندوستان کی اس بربریت اور انتہاپسندی کا نوٹس لیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان اس خطے میں دہشتگردی کا ماسٹرمائنڈ ہے، ہندوستان کے مذموم ہتھکنڈوں کی وجہ سے سارے خطے کا امن دائو پر لگا ہوا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ کشمیر کی کی تاریخ رہا ہے
پڑھیں:
بھارت میں مسلم ورثہ نشانے پر، تاریخی مساجد اور مزاروں کو مٹانے کی مہم جاری
نئی دہلی: بھارت میں مودی حکومت کے دور میں مسلمانوں کی تاریخی عبادت گاہوں، ورثے اور ثقافتی شناخت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں، بی جے پی کی پشت پناہی میں، پورے ملک میں مساجد کے خلاف تحریکیں چلا رہی ہیں۔
وارانسی جیسے تاریخی شہروں میں ایک نیا مذہبی قوم پرستی کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ بابری مسجد کیس کے فیصلے کے بعد سے، مساجد کو نشانہ بنانے کا ایک منظم سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ناگپور میں اورنگزیب کے مزار کو ہٹانے کا مطالبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
انتہا پسند گروہ، جیسے سناتن رکشا دل اور گروپ فار پروٹیکشن آف سناتن، اس مہم میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ ان گروہوں کا دعویٰ ہے کہ مغل دور میں ہندو مندروں کو مساجد میں تبدیل کیا گیا تھا، اور اب وہ ان مندروں کو واپس لینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
حال ہی میں اترپردیش کے شہر سنبھل میں ایک جامع مسجد کے خلاف عدالتی سروے نے فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے۔ دہلی کے قریب ایک قصبے میں ایک مسجد کو پولیس کی مدد سے زبردستی مندر قرار دے کر قبضہ کر لیا گیا، جہاں بعد میں پوجا بھی کی گئی۔
ماہرین قانون خبردار کر رہے ہیں کہ اگر بھارت میں مسلم مخالف اقدامات نہ روکے گئے تو یہ ملک کے آئینی ڈھانچے اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔