چیف جسٹس کا صائب مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
نوٹ: اسکول، کالج، یونیورسٹی اور جج وغیرہ انگریزی الفاظ ہیں، یہ اب مُوَرَّد ہیں، انہیں اردو میں قبول کرلیا گیا ہے۔ پس اب اردو میں ان کلمات کی جمع کو اردو کی طرز پر اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ججوں یا جج صاحبان لکھنا اور بولنا چاہیے۔ ’بیٹس مین‘ انگریزی کا لفظ ہے، جب تک صرف مرد کرکٹ کھیلتے تھے تو ’بیٹس مین‘ بولاجاتا تھا، اب چونکہ خواتین بھی کرکٹ کھیلتی ہیں، تو اس کے لیے حالیہ برسوں میں ’بیٹر‘ کی اصطلاح رائج کی گئی ہے، اس کا اطلاق لفظِ مشترک کے طور پر مردانہ اور زنانہ دونوں طرح کے کھلاڑیوں پر یکساں ہوتا ہے۔ پہلے بیٹس مین کو اردو میں ’بلے باز‘ بولتے تھے، مگر اب انگلش کے غلبے کی وجہ سے یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس نے عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے کہا: ’’میں نے برادر ججوں کو مشورہ دیا تھا: سسٹم کو چلنے دیں، سسٹم کو نہ روکیں، مجھے جج لانے دیں، ہمیں چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا بلکہ حل کرنا ہے، ہمیں جاری نظام پر اعتبار کرنا ہوگا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’جج صاحبان کے خطوط لکھنے کی عادت پرانی چل رہی ہے، اسے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا، پرانی چیزیں ہیں، آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میرے نام لکھا جانے والا خط مجھے بعد میں پہنچتا ہے، میڈیا پر پہلے نشر ہوجاتا ہے، جج صاحبان ’پینک‘ کرجاتے ہیں، شاید انہیں اعتبار نہیں رہا‘‘۔ پینِک کے لفظی معنی ہیں: ’گھبراہٹ‘، شاید یہاں جھنجھلاہٹ مراد ہے۔ انہوں نے کہا: ’مجھے جج لانے دیں، اچھے جج آرہے ہیں، جج صاحبان کے اٹھ کر چلے جانے کے سبب ایک اہل جج عدالت عظمیٰ کا حصہ بننے سے رہ گیا‘۔ انہوں نے جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کو بھی عدالت عظمیٰ میں لانے کا دفاع کیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے: چیف جسٹس پاکستان جناب یحییٰ آفریدی متوازن مزاج کے حامل ہیں، اپنے مزاج میں تحمُّل اور بردباری رکھتے ہیں، جبکہ چند دوسرے جج صاحبان اس صفت سے عاری ہیں۔ موجودہ اور سابق جج صاحبان افتخار محمد چودھری، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، ثاقب نثار، عمر عطا بندیال، اعجاز الاحسن، سید منصور علی شاہ، منیب اختر، اطہر من اللہ، عائشہ ملک، قاضی فائز عیسیٰ، ملک شہزاد احمد خان اور عقیل عباسی اسی عدمِ تحمل کا مظہر ثابت ہوئے۔ انہوں نے پورے سسٹم کو جوتے کی نوک پہ رکھنا چاہا، حدود سے تجاوز کیا، لیکن انجامِ کار حاصل کچھ بھی نہ ہوا، یہی کیفیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی رہی۔ ایسی ہی بے اعتدالی کا مظاہرہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اُس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری کے ساتھ مل کر کیا تھا اور اُس کے نتیجے میں ’بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم‘ کا مصداق بنے، نہ تاریخ میں عزت ملی، کیونکہ یہ اُصول پسندی کا نہیں، عُجبِ نفس اور جوڑ توڑ کا مسئلہ تھا۔ آج پاکستان کے نامور ترین ججوں کی فہرست میں اُن کا نام کہیں نہیں ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا تاثُّر بہت اچھا تھا، لیکن وہ اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ توازن کھو بیٹھے اور اپنے ’چیمبرکے ساتھی‘ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی بھی رعایت نہ کی۔
دانا لوگوں کا کام دیوار سے ٹکریں مارکر دیوار کو گرانا یا خود کو لہولہان کرنا نہیں ہوتا، بلکہ مشکل حالات میں راستہ نکالنا ہوتا ہے، نظام کو بھی لے کر چلنا ہوتا ہے اور نظام کی خامیوں کو بھی آہستہ آہستہ دور کرنا ہوتا ہے، ضدی مُعانِد کا کردار ادا کرنے کے بجائے مُصلح کا کردار ادا کرنا اعلیٰ عدلیہ کے منصِب کو زیادہ زیب دیتا ہے۔ کیا ٹکریں مار کر نوے دن میں انتخابات کا ہدف حاصل کرلیا تھا، کیا تاریخ میں عدلیہ کے اس پورے دور کو سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ کیا بین الاقوامی معاہدات کو عالمی قوانین سے ناواقفیت کی بنیاد پر ردّ کرنے کے نتائج ملک کے لیے مثبَت نکلے۔ امیر المؤمنین علی المرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی طرف یہ قولِ زرّیں منسوب ہے: ’’لَا تَکُنْ لَیِّنًا فتُعْصَرَ وَلَا یَابِسًا فُتُکْسَر‘‘، ترجمہ: ’’اتنے نرم نہ بنو کہ تمہیں نچوڑ دیا جائے اور اتنے خشک بھی نہ بنو کہ تمہیں توڑ دیا جائے‘‘۔ یعنی ایک سلیم الفطرت اور متوازن انسان کے مزاج میں اعتدال ہوتا ہے، لچک ہوتی ہے، وہ ایک حد تک دبائو بھی قبول کرتا ہے اور ایک حد تک مزاحمت بھی کرتا ہے، لیکن معاملے کو بند گلی میں جانے نہیں دیتا۔
رسول اللہؐ کو نماز میں خشوع وخضوع بے انتہا پسند تھا، نماز کی معراج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی درجے کی حضوری ہے کہ کسی اور طرف ذہن متوجہ ہی نہ ہو۔ مگر آپؐ اپنے ربّ کی حضوری میں بھی لوگوں کے بشری احوال کی رعایت فرماتے تھے، حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: (کبھی) میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لمبی نماز پڑھوں، اس دوران میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں کہ بچے کا رونا اس کی ماں کو پریشان کردے گا (اور نماز میں اس کی توجہ بٹ جائے گی)‘‘۔ (مسند احمد) الغرض ایک ماں کی قلبی کیفیت کی رعایت فرماتے ہوئے رسول اللہؐ اپنی شدید خواہش کے باوجود نماز کو مختصر فرما دیتے تھے۔
’’سیدنا عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں فجر کی جماعت چھوڑ دیتا ہوں، کیونکہ (فلاں) امام ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے، پس رسول اللہؐ اتنے غضب ناک ہوئے کہ میں نے کسی اور موقع پر آپ کو اس کیفیت میں نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: لوگو! تم میں سے بعض (لوگوں کودین سے) متنفر کرنے والے ہیں، پس جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے، وہ اعتدال سے کام لے، کیونکہ اس کی اقتدا میں کمزور، بوڑھے اور کام کاج پر جانے والے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں‘‘، (بخاری) اس سے پہلی حدیث میں ان کلمات کا اضافہ ہے: ’’اور جب تم میں سے کوئی شخص تنہا اپنی نماز پڑھ رہا ہو تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے‘‘۔
ایک این جی او کی بیگم کے اُکسانے پر اور اپنی اَنا کے سبب اُس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ کراچی میں ’نسلا ٹاور‘ کے مکینوں کو پرتعیّش فلیٹوں سے اتار کر فٹ پاتھ پر لاکھڑا کیا، اُن کے بحیثیت ِ مجموعی اربوں روپے ایک انا پرست شخص کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوگئے، اُن کو اپنے فیصلے میں کوئی تحفظ بھی نہ دیا، حالانکہ ایک معقول حل موجود تھا کہ جرمانہ لگاکر ان فلیٹوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت دی جائے، اسلام آباد میں ثاقب نثار ایسا کرچکے تھے۔ حکومت کو رقم بھی مل جاتی اور لوگوں کی جمع پونجی بھی تباہ وبرباد نہ ہوتی۔ لیکن اس سنگدل انسان کے دل میں ذرا بھی ترس نہ آیا، لوگوں کو رُلادیا اور وہ رُل گئے۔ وہ لوگ آج بھی اُس شخص کو بددعائیں دے رہے ہوں گے اور تین کروڑ کی آبادی والے شہر میں چند ہزار انسان بھی نہیں ہوں گے جو اُن کا نام عزت اور احترام سے لے رہے ہوں۔ آج وہ تاریخ کے ملبے تلے دفن ہوچکے ہیں، فرعونی مزاج کا انجام ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
ہم بحیثیت ِ ملک وقوم کبھی بھی مثالی صورتِ حال میں نہیں رہے اور حالاتِ حاضرہ میں تو قطعاً نہیں ہیں، چند صاحبِ منصب شخصیات کی انتہائی حد تک ناپسندیدگی کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا ہرگز دانش مندی نہیں ہے۔ دو صوبوں میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں، روزانہ کے حساب سے ہمارے فوجی جوان وافسر اور عام شہری جان سے ہاتھ دھورہے ہیں، شہید ہورہے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا بھی مُدّعا یہی معلوم ہوتا ہے کہ نظام کتنا ہی برا ہو، اُس کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا دانش مندی نہیں ہے۔ ہم من حیث القوم انقلابی ہیں، نہ یہاں کوئی انقلابی تحریک چل رہی ہے، نہ قوم کا مزاج انقلابی ہے اور نہ انقلابی قیادت یہاں میسر ہے۔ جو کچھ بھی ہمیں حاصل کرنا ہے، اس نظام کے اندر رہتے ہوئے حاصل کرنا ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی کے بقول 2018 کے قومی انتخابات چوری ہوئے اور 2024 کے انتخابات میں ڈکیتی ہوئی، پس کوثر وتسنیم میں دھلا کوئی بھی نہیں ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کبھی بھی آئین میں دی گئی خود مختاری کی حامل نہیں رہی، یہی صورتِ حال عدلیہ کی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم پابندیوں میں انتہائی تابع فرمان بن جاتے ہیں اور آزادی کی ہوا چلے تو ساری حدیں عبور کرجاتے ہیں، توازن کھوبیٹھتے ہیں اور جمع شدہ پونجی بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں، ہم نے 1960 کے عشرے سے پاکستان کی تاریخ کو دیکھا اور برتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس انہوں نے ہوتا ہے نہیں ہے ا ہستہ بھی نہ ہے اور
پڑھیں:
چیف جسٹس پاکستان نے تحریک انصاف کو سسٹم کے اندر رہنے اور بائیکاٹ سے گریز کا مشورہ دیا، بیرسٹر گوہر کی تصدیق
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پی ٹی آئی کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف کو نظام کا حصہ بنے رہنے اور بائیکاٹ سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جمعہ کو چیف جسٹس سے ملاقات کرنے والے وفد میں شامل ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ جسٹس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والوں کو سپریم جوڈیشل کمیشن کے آخری اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ یہ اجلاس سپریم کورٹ میں عدالتی تقرریوں پر غور کیلئے طلب کیا گیا تھا۔ وفد کو بتایا گیا کہ اگر پی ٹی آئی کے ارکان اجلاس میں شریک ہوتے تو کچھ تقرریاں مختلف ہو سکتی تھیں۔ رابطہ کرنے پر پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے تصدیق کی کہ چیف جسٹس نے واقعی پی ٹی آئی کو نظام میں رہنے اور ججوں کی تقرری کے عمل کے بائیکاٹ سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔ ملاقات میں شامل پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی اجلاس میں شریک ہوتی تو سپریم کورٹ کی بعض تقرریوں پر فرق پڑتا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ چیف جسٹس کا پی ٹی آئی کو سسٹم کے اندر رہنے کا مشورہ پارٹی کی جانب سے سپریم جوڈیشل کمیشن کے آخری اجلاس کے بائیکاٹ کے حوالے سے تھا۔
انصار عباسی