اقوام متحدہ سے انخلا اور فنڈنگ روکنے کا بل امریکی سینیٹ میں پیش
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
واشنگٹن ( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی ریپبلکن سینیٹر مائیک لی نے جمعے کو اعلان کیا کہ ریپبلکن ارکان نے امریکا کو اقوام متحدہ سے نکالنے اور اس کی فنڈنگ روکنے کا بل امریکی سینیٹ میں پیش کر دیا ہے۔ مائیک لی نے اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس منصوبے میں اقوام متحدہ اور اس سے منسلک اداروں سے امریکا کے مکمل انخلا، اس کی فنڈنگ روکنے، اقوام متحدہ کے ساتھ اس معاہدے کو منسوخ کرنے کی تجویز ہے جو اسے نیویارک میں سرکاری ہیڈکوارٹر رکھنے کا حق دیتا ہے۔ اس میں امریکا میں اقوام متحدہ کے ملازمین کے لیے سفارتی استثنا ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ فاکس نیوز نے اطلاع دی ہے کہ ریپبلکن نمائندے چپ رائے جمعے کو ایوان نمائندگان میں اسی طرح کا ایک پروجیکٹ پیش کرنے والے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس سے منسلک ادارے امریکیوں کے مفادات کی خدمت نہیں کرتے۔ امریکی چینل کے مطابق امریکا اقوام متحدہ کے فنانسرز کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ امریکا نے 2022ء میں اقوام متحدہ کو تقریباً 18 بلین ڈالر کی فنڈنگ کی ہے جو بین الاقوامی ادارے کے کل بجٹ کے ایک تہائی کے برابر ہے۔ اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں شرکت نہیں کرے گا۔ یہ بل ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی کو سینیٹ کی منظوری کے بغیر اقوام متحدہ یا اس سے منسلک تنظیموں میں رکنیت دوبارہ شروع کرنے کے کسی بھی معاہدے پر دستخط کرنے سے روکتا ہے۔دوسری جانب عالمی ادارہ صحت یورپ کے ڈائریکٹر ہانس کلوگ نے یورپی پارلیمنٹ کو امریکی امداد کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کے حوالے سے آگاہ کیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈبلیو ایچ او یورپ کے ڈائریکٹر ہانس کلوگ نے برسلز میں یورپی پالیمان کو امریکی امداد روکے جانے کے بعد کی صورتِ حال پر بریفنگ دی ہے۔ انہوں نے یورپی پارلیمان کو بتایا ہے کہ امریکی صدر کے اعلان کے بعد ادارے کی مالی صورتِ حال متاثر ہوئی ہے، کیوں کہ امریکا اس حوالے سے ایک بڑا شریک تھا، اس کے علاوہ صحتِ عامہ کے شعبے میں اطلاعات اور فنی تعاون کے معاملات میں بھی خلا پیدا ہو گیا ہے۔ہانس کلوگ نے کہا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے صحت کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کیا جانا چاہیے تھا‘ اقتصادی شارٹ فال کے خلا کو پُر کرنے کے حوالے سے کام جاری ہے، شاید یہ خلا چین کی مدد سے پُر کیا جائے گا یا پھر اس کے علاوہ وہ نجی ادارے جو اس سے پہلے بھی معاملات میں تعاون کرتے رہے ہیں وہ اس میں کردار ادا کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اختلافات میں اضافہ
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 فروری ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اختلافات میں اضافہ ہورہا ہے امریکا روس کے ساتھ تنازعات کا خاتمہ کرکے تمام تر توجہ چین کی تجارتی جنگ پر مرکوزکرنا چاہتا ہے جبکہ یورپ اپنے توانائی کے مسائل کو نظراندازکرتے ہوئے روس کے ساتھ یوکرین کے ذریعے جنگ کو جاری رکھنا چاہتا ہے . امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ بغیر کسی رعایت کے امریکا کے سارے اتحادیوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ واشنگٹن اتحادیوں کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ان کی شرائط پر مزیدتجارت نہیں کرئے گا جبکہ چین کے بارے میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ بہت واضح موقف رکھتے ہیں .(جاری ہے)
واشنگٹن میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین امریکی خسارے کے سب سے بڑے ہولڈر ہیں اور وہ اسے کسی بھی وقت معاشی ہتھیار کے طور پر امریکا کے خلاف استعمال کرسکتے ہیںامریکا ٹوکیو کو فوری خطرہ نہیں سمجھتا مگر بیجنگ کے بارے میں اس کا نکتہ نظرمختلف ہے چین کو صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ موجودہ عہدہ کی ”استعماری طاقت “مانتے ہیں جس پر پوری دنیا انحصار کرنے پر مجبور ہے .
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں مختلف بانڈز کی صورت میں امریکا اپنا خسارہ عالمی مارکیٹ میں بیچتا رہا ہے حال ہی میں صدر ٹرمپ کے گزشتہ دور حکومت میں ان کے ایک قریبی ساتھی کے حوالے سے امریکی جریدے نے انکشاف کیا تھا کہ ٹرمپ اپنی کاروباری صلاحیتوں کو آزماتے ہوئے امریکی خسارے سے چھٹکارے کا منصوبہ رکھتے ہیں ‘جاپان یا چین کی جانب سے ہولڈ کیئے گئے امریکی بانڈز مارکیٹ میں آنے سے ڈالر کریش کرسکتا ہے جس سے پوری امریکی معیشت زمین بوس ہونے کا خطرہ ہے صدر ٹرمپ خطرے کی اس تلوار کو ہمیشہ کے لیے ہٹانا چاہتے ہیں. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر سمجھتے ہیں خسارے کی سب سے بڑی وجہ غیرضروری اخراجات ہیں جن میں یورپی اور دیگر اتحادیوں کی دفاعی ذمہ داریاں نمایاں ہیں ‘اس کے علاوہ وہ امریکی مصنوعات اور پروڈیکشن لائن کو دوبارہ سے کھڑا کرنے کے خواہاں ہیں تاہم ان کے نزدیک چین اور جاپان سمیت مختلف ممالک کے پاس موجو دامریکی بانڈز کے خطرے سے پہلے نمٹنا ضروری ہے جوکہ کسی بھی وقت پہلے سے خسارے کا شکار امریکی معیشت کو کسی بھی وقت زمین بو س کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں . رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی مصنوعات کی بڑی عالمی مارکیٹوں میں امریکا سرفہرست ہے جہاں چینی سرمایہ کاروں کی زرعی اور صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے زرعی شعبے میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے بھی صدر ٹرمپ کافی ناراض ہیں انہوں نے اپنے سابق دور حکومت اور انتخابی مہم کے دوران امریکی بجٹ کے خسارے کا تذکرہ بہت نمایاں طور پر کیا ”امریکن ڈیٹ“ پر ان کے نظریات سے صدر اوبامہ سمیت ڈیموکریٹ پارٹی کے بہت سارے اہم راہنما بھی متفق ہیں جبکہ امریکی کاروباری شخصیات بھی وائٹ ہاﺅس کے ساتھ”آن بورڈ“ہیں . رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میکسیکو سمیت جنوبی امریکا کے ممالک میں بڑھتے ہوئے چینی اثروروسوخ برازیل کے” برکس“ اتحاد کے بانی اراکین میں شمولیت پر واشنگٹن کی گرفت جنوبی امریکا کے ممالک پر کمزور ہورہی ہے ماضی میں امریکا کے بہت سارے ماہرین میکسیکو سمیت جنوبی امریکا کے ممالک کے ساتھ دوستانہ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیتے آئے ہیں ماہرین کے مطابق امریکا جنوب کے ممالک میں پروڈیکشن یونٹ قائم کرکے چین سے بھی زیادہ سستی مصنوعات لوگوں کو فراہم کرسکتا ہے کیونکہ زمینی رابطے ہونے کی وجہ سے براعظم کے جنوبی ملک سے کم خرچ قابل اعتماد اور محفوظ سپلائی چین لائن قائم کی جاسکتی جوچین سے سمندری راستے سے آنے والی مصنوعات سے قیمت میں کم ہوسکتی ہیں اور ان کی کوالٹی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے . رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ جنوبی امریکی ممالک میں امریکا کے قوانین لاگو نہیں ہوتے اس لیے ان ممالک سے دوستانہ تجارتی تعلقات واشنگٹن کے مفاد میں ہیں امریکا کے سرمایہ کار ان ملکوں میں صنعت اور زرعی شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں اس سے جنوبی ممالک سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن کا مسلہ بھی بہت حد تک ختم ہوجائے گا کیونکہ ان ملکوں کے شہریوں کو اپنے ملکوں میں روزگار مہیا ہوگا تو غیرقانونی طور پر امریکی باڈر پار کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئے گی . رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ”امریکی بانڈز“ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ڈالر کی قدر کو رضاکارانہ طور پر کم کرنے پر غور کررہی ہے جس سے کھربوں ڈالر خسارے کے ”بانڈز“کی قدرانتہائی نیچے آجائے گی اور واشنگٹن کے لیے ان بانڈز کی واپسی کے لیے مذکرات میں آسانی ہوگی مجوزہ فارمولے کے تحت خسارے کے بانڈز کو زیادہ سے زیادہ ڈی ویلیو کرکے ”ہولڈرز“کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ ”بانڈز“کو مارکیٹ میں لے آئیں جنہیں امریکی حکومت خود یا بڑی امریکی کمپنیاں خرید کر ڈمپ کردیں اس طرح ٹرمپ انتظامیہ امریکی خسارے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے. واضح رہے کہ کوئی ملک جب مخصوص بانڈز جاری کرکے عالمی مارکیٹ میں لاتا ہے تو وہ اصل میں وہ اپنا خسارہ دوسروں کو بیچ رہا ہوتا ہے جبکہ بانڈز پر دیا جانا والا منافع خریداروں کو راغب کرنے کے لیے پرکشش رکھا جاتا ہے جس کی ادائیگی اس ملک کے شہریوں کو کرنا پڑتی ہے قلیل مدتی بانڈزمیں یہ فارمولا قابل تصور کیا جاتا ہے مگر طویل مدتی بانڈز اور بانڈزپر انحصار کرنے والے ممالک معاشی بدحالی کی دلدل سے کبھی نہیں نکل پاتے عالمی ماہرین معاشیات کے نزدیک بانڈز کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال کو بیان کرتے ہیں تسلسل کے ساتھ بانڈزجاری کرنے والے ممالک کو معاشی طور پر کمزورملک تصور کیا جاتا ہے اور دنیا کے سرمایہ کار ایسے ممالک میں سرمایہ کاری سے گریزکرتے ہیں .