Express News:
2025-02-22@10:30:38 GMT

ریڈ لائن

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اقرا یونیورسٹی کے طلبا سے نہایت پرمغز اور اثرانگیز خطاب کرتے ہوئے قرآنی آیات کی روشنی میں دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کر دیا کہ آج فوج جن فسادیوں کے خلاف لڑ رہی ہے وہ خارجی ہیں جو دین سے دور ہیں، ان کے پاس اسلام کی اپنی غلط تشریح ہے جو اسلام میں جائز نہیں۔

ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں کہ جو اللہ اور رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں انھیں قتل کر دو۔ سپہ سالار اعظم نے خوارج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے آپ کو ریاست کے سامنے سرینڈرکردیں، تب ہی وہ ریاست سے رحم کی توقع کر سکتے ہیں۔ انھوں نے قوم کو یقین دہانی کرائی کہ پاک فوج عوام کی طاقت سے ایسے گمراہ گروہ کو ہرگز ملک پر اپنی اقدار مسلط کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

 ہمارے معاشرے میں بگاڑ اور ٹوٹ پھوٹ کے مختلف اسباب میں سب سے اہم سبب اور بڑا گمبھیر مسئلہ لوگوں کی سوچ اور فکر میں شدت پسندی کا غالب آ جانا ہے، کسی ایک طبقے، جماعت،گروہ یا گروپ اور فرقے کا کسی دوسرے طبقے،گروہ، جماعت یا فرقے پر طاقت کے زور پر اپنے نظریے، عقیدے اور فلسفے کو زبردستی مسلط کرنا اور عمل نہ کرنے کی صورت میں اس کے خلاف ہتھیار بکف ہو جانا فتنہ و فساد کو جنم دیتا ہے۔

مذہبی و فرقہ وارانہ انتہا پسندی نے ملک کے اندر نئی کیفیت پیدا کر دی ہے جو مختلف عقائد و نظریات کے زیر اثر نت نئے فرقوں کو جنم دے رہی ہے۔ اس پہ مستزاد مختلف النوع ہتھیاروں کے استعمال کے باعث قتل و غارت، دہشت گردی، بم دھماکے اور خودکش حملے گزشتہ دو تین دہائیوں سے پاکستان کا مقدر بنتے جا رہے ہیں۔ انتہا پسندی کے اس خون آشام فتنے کو ختم کرنے کے لیے پاک فوج نے ماضی میں رد الفساد اور ضرب عضب جیسے آپریشن بھی کیے۔

سیکڑوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا اور درجنوں نوجوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کے باوجود ملک کے دو صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں آج بھی شدت پسند عناصر وقفے وقفے سے اپنی مذموم کارروائیوں میں بے گناہ لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں۔ قومی املاک کو نشانہ بنا رہے ہیں، بات صرف اندرون وطن فتنہ الخوارج تک محدود نہیں ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان اور بھارت کی مداخلت کاری کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے تانے بانے افغانستان کے پرورش و پروان چڑھنے والے انتہا پسندوں سے ملتے ہیں۔

اس پہ مستزاد بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ جس نے افغانستان میں اپنے قدم جما رکھے ہیں وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان سے بارہا پاک فوج کی کاوشوں اور قربانیوں اور مختلف النوع آپریشن کے بعد بھی دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ ممکن نہیں ہو پا رہا ہے، بالخصوص کے پی کے اور بلوچستان دہشت گردوں کے لیے آسان ہدف بنے ہوئے ہیں، افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان نے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغان حکومت سے متعدد مرتبہ اس مسئلے کو اٹھایا ہے اور باور کرایا ہے کہ افغان طالبان حکومت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے، لیکن افسوس کہ طالبان حکومت نے اس ضمن میں سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کیا، نتیجتاً دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

 یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ امن و امان کے قیام کے بغیر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ممکن نہیں۔ اندرونی و بیرونی سرمایہ کار اسی جگہ سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں ان کے سرمایہ کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ سرمایہ کاری ہی معیشت کی بنیاد ہوتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ بلوچستان میں چین کے تعاون سے سی پیک منصوبہ روبہ عمل ہے جس کی تکمیل سے پاکستان معاشی طور پر انتہائی مضبوط پوزیشن میں آ جائے گا۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں اور ملکوں سے قرضوں کے حصول کی ضرورت نہیں رہے گی۔

معیشت مستحکم ہوگی تو پاکستان ترقی کرے گا، دشمن ملک بھارت اور چین مخالف طاقتیں بخوبی جانتی ہیں، اگر سی پیک منصوبہ کامیاب ہوگیا تو پاکستان کو ترقی و معاشی استحکام سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس باعث بھارت بلوچستان میں انتہا پسند قوتوں کی پشت پناہی کرتا ہے اور دہشت گردی کی کارروائیوں کو ہوا دے رہا ہے، بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا مبینہ ثبوت ہے کہ ’’را‘‘ پاکستان میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ پاکستان کی معیشت کو 80 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔

ملک دیوالیہ ہونے کی دہلیز تک پہنچ چکا ہے۔ معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف و دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول گلے کا طوق اور پاؤں کی زنجیر بنتا جا رہا ہے۔ دہشت گرد عناصر معاشی بحالی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی جو مذموم کوششیں کر رہے ہیں۔ پاک فوج پوری قوم کی طاقت سے ان کے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ امن، ترقی اور خوشحالی پاکستان کی ریڈ لائن ہے جو اسے پار کرنے کا سوچے گا تو قوم کا ایک ایک فرد اپنی جان نثار کرنے کو تیار ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرتے ہیں پاک فوج رہے ہیں رہا ہے

پڑھیں:

89 فیصد والدین بچوں کو سمارٹ فونز، ٹیبلیٹس یا آن لائن گیمنگ میں مصروف رکھتے ہیں: کیسپرسکی سروے

اسلام آباد (اوصاف نیوز) کیسپرسکی کے جانب سے حالیہسروے کے مطابق، سروے کیے گئے 89 فیصد والدین اپنے بچوں سفر کے دوران یا اپنے لیے کچھ فارغ وقت حاصل کرنے کے لیے الیکٹرانک ڈیوائسز یعنی موبائل فون، ویڈیو گیمز وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ (52 فیصد بچے 3-7 سال کی عمر میں اپنی پہلی ذاتی ڈیوائس – ایک اسمارٹ فون یا ٹیبلیٹ – بہت جلد حاصل کرتے ہیں۔

تاہم تقریباً ایک چوتھائی جواب دہندگان یعنی 22 فیصد نے اپنے بچوں کے ساتھ انٹرنیٹ کے حفاظتی اصولوں پر بات نہیں کی۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ بچے، جو اکثر اکیلے میں موبائل فونز یا کمپیوٹر وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ہمیشہ اس بات سے واقف نہیں ہوتے ہیں کہ آن لائن محفوظ کیسے رہا جائے۔

بچے خود تسلیم کرتے ہیں کہ موابئل فون یا دیگر انٹرنیٹ سے متعلق آلات ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 78 فیصد موبائل فون یا ویڈیو گیمزکے بغیر نہیں رہ سکتے۔ سمارٹ فونز، ٹیبلیٹس اور گیم کنسولز بچوں کے لیے انتہائی مطلوبہ آلات کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔ یہ بچوں کے لیے یہ سمجھنے کی اہم ضرورت پر زور دیتا ہے کہ وہ آن لائن خطرات سے دوچار ہو سکتے ہیں،

، کیسپرسکی میں مشرق وسطیٰ، ترکی اور افریقہ میں کنزیومر چینل کے سربراہ سیف اللہ جدیدی کہتے ہیں کہ ”زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو تفریحفراہم کرنے، اپنے لیے کچھ وقت نکالنے یا اپنے بچوں کو پرسکون کرنے کے لیے ان آلات کا سہارہ لیتے ہیں۔ تاہم، بچوں کو ڈیجیٹل آلات کا بے قابو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ والدین کو اپنے بچے کی ڈیجیٹل زندگی کی بہتر نگرانی کرنی چاہیے۔ یہ اسکرین کے وقت کو محدود کرکے اور بات چیت کے انعقاد سے کیا جا سکتا ہے، تاہم، ایک حفاظتی حل کی بھی ضرورت ہے۔

والدین کے کنٹرول کو لاگو کرنا آپ کے بچے پر عدم اعتماد ظاہر نہیں کر رہا ہے۔ یہ ایک سمجھدار احتیاط ہے جس کے ساتھ آپ دوسری چیزوں کے ساتھ، ڈیوائس اور اس پر موجود ڈیٹا کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ یہ والدین کو یہ کنٹرول کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ ان کے بچے کن سائٹوں پر جاتے ہیں اور وہ کون سے گیمز کھیلتے ہیں، نیز فائل ڈاؤن لوڈ کی اجازت دینے، ناپسندیدہ موضوعات پر مواد تک رسائی کو روکنے اور خفیہ معلومات کے افشاء کو روکنے کی اجازت دیتا ہے۔

کیسپرسکی کے مطابق والدین تازہ ترین خطرات سے باخبر رہ کر اور اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں کی فعال نگرانی کر کے اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ آن لائن ماحول بنا سکتے ہیں۔ والدین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ان ممکنہ خطرات کے بارے میں کھلے عام بات چیت کریں جن کا انھیں آن لائن سامنا ہو سکتا ہے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سخت رہنما اصولوں کو نافذ کرنا چاہیے۔ کیسپرسکی سیف کڈز ایپلیکیشن جیسے صحیح ٹولز کے ساتھ، والدین اپنے بچوں کو ڈیجیٹل معاملات میں سائبر خطرات سے مؤثر طریقے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کسی ملک کی سرزمین دہشت گردی کیلیے استعمال نہیں ہونی چاہیے، اسحاق ڈار
  • کسی ملک کی سرزمین دہشت گردی کے استعمال نہیں ہونی چاہیے، اسحاق ڈار
  • افغان عبوری حکومت سے کہا ہے اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے، اسحق ڈار
  • پاک فوج نے کرک میں آپریشن کرتے ہوئے چھ خوارج کو ہلاک کردیا
  • پاکستان اور یورپی یونین کا دہشتگردی سے لڑنے کے عزم کا اعادہ
  • 89 فیصد والدین بچوں کو سمارٹ فونز، ٹیبلیٹس یا آن لائن گیمنگ میں مصروف رکھتے ہیں: کیسپرسکی سروے
  • مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ناگزیر، افغانستان سے دہشت گردی ختم کرنے کیلئے اقوام متحدہ تعاون کرے: اسحاق ڈار
  • اسحاق ڈار کی یو این سیکرٹری جنرل سے ملاقات‘ سرحد پار دہشت گردی و دیگر امور پر گفتگو
  • دہشت گردی کے خاتمے کا عزم