تین دہشت گرد وزیرِ اعظم (حصہ دوم)
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
وزیرِاعظم ڈیوڈ بن گوریان ، گولڈا مائر اور میہنم بیگن کی طرح ایتزاک یزرنسکی بھی پولش نژاد صیہونی اور مینہم بیگن کی طرح انتہاپسند پولش صیہونی رہنما زیو جیبوٹنسکی کے شاگرد تھے۔انیس سو پینتیس میں یزرنسکی جعلی شناختی دستاویزات کی مدد سے ایتزاک شمیر کے نام سے فلسطین میں داخل ہوئے اور پھر تاحیات اسی نام سے پہچانے گئے۔
ایتزاک شمیر نے بھی بن گوریان کی ہگانہ ملیشیا سے برطانیہ کی حمائیت پر اختلاف کی بنیاد پر الگ ہونے والے دھڑے ارگون میں شمولیت اختیار کی اور پھر ارگون کو بھی ’’ اعتدال پسند‘‘ سمجھ کے لیخی نامی دھڑے میں شامل ہو گئے۔
انیس سو اکتالیس میں شمیر اپنی سرگرمیوں کے سبب گرفتار ہو گئے مگر چند ماہ بعد برطانوی انتظامیہ کے نظربندی کیمپ سے فرار ہو گئے۔شمیر لیخی ملیشیا کے بانی ایورہام سٹیرن کے اس خیال کے حامی تھے کہ فلسطین سے برطانیہ کو نکالنے کے لیے مسولینی اور ہٹلر سے بھی مدد مانگنے میں کوئی حرج نہیں ( شمیر کو بعد میں پتہ چلا کہ پولینڈ میں رہ جانے والے ان کے والدین اور تین بہنوں کی موت نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں ہوئی)۔
انیس سو بیالیس میں لیخی ملیشیا کے بانی ایورہام سٹیرن کی ایک پولیس مقابلے میں موت کے بعد دھڑے کی قیادت شمیر سمیت ایک سہہ رکنی کمیٹی کے ہاتھ میں آ گئی۔کمیٹی کے رکن ایلیاہو گلادی کو انیس سو تینتالیس میں شمیر نے خود قتل کیا۔ کیونکہ بقول شمیر گلادی سب سے مقبول صیہونی رہنما بن گوریان کے قتل کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ (یہ اعتراف شمیر نے انیس سو چورانوے میں شایع ہونے والی اپنی یادداشتوں میں بھی کیا)۔
شمیر نے انیس سو چوالیس میں برطانوی سفارت کار لارڈ میون کو قاہرہ میں قتل کرنے کے لیے دو قاتلوں ایلیاہو حاکم اور ایلیاہو بیت زوری کا انتخاب بھی خود کیا۔شمیر کا خیال تھا کہ لارڈ میون فلسطین میں یہودیوں کی آمد کو محدود کرنے والی برطانوی پالیسی کے اصل معمار تھے۔ دونوں قاتلوں کو پھانسی دے دی گئی۔ان کی باقیات اسرائیل کی تشکیل کے بعد مصر سے منتقل کر کے اعزاز کے ساتھ کوہِ زیتون کے قبرستان میں دفنائی گئیں۔
شمیر اور مینہم بیگن سمیت ارگون اور لیخی کی قیادت زیرِ زمین متحرک تھی اور ان کی تصاویر ہر تھانے میں دیگر انتہاپسندوں کے ساتھ آویزاں تھیں۔
جولائی انیس سو چھیالیس میں ایتزاک شمیر کو بھیس بدلنے کے باوجود ایک برطانوی پولیس افسر ٹی جی مارٹن نے گھنی بھنوؤں کے سبب پہچان لیا۔گرفتاری کے بعد شمیر کو فوری طور پر دیگر گرفتار شدگان کے ہمراہ اریٹیریا کے ایک برطانوی حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ٹی جی مارٹن کو لیخی کے انتہاپسندوں نے کچھ عرصے بعد قتل کر دیا۔
شمیر اور ان کے چار ساتھی دو سو فٹ کی خفیہ سرنگ کے ذریعے اریٹیریا کے کیمپ سے فرار ہو کر کسی طرح خرطوم پہنچ گئے۔وہاں سے وہ فرنچ صومالی لینڈ پہنچے۔انھیں فرانسیسی حکام نے حراست میں لے لیا مگر برطانیہ کے حوالے کرنے کے بجائے سیاسی پناہ کی درخواست پر پیرس جانے کی اجازت دے دی۔فرانس سے شمیر ایک جعلی پاسپورٹ پر دوبارہ فلسطین پہنچ گئے۔
نو اپریل انیس سو اڑتالیس کو اسرائیل کے قیام سے دو ماہ پہلے غربِ اردن کے ایک گاؤں دیر یاسین میں ارگون اور لیخی دہشت گردوں کی مشترکہ کارروائی میں لگ بھگ ڈھائی سو فلسطینی شہریوں کے قتلِ عام کے بعد یورپ اور امریکا کے صیہونی حلقوں تک نے اس کارروائی کو غیر ضروری دہشت گردی قرار دیا۔ مگر اس قتلِ عام کے دو ماہ بعد اسرائیل کے قیام کی سرخوشی میں صیہونیت کا خونی متشدد پہلو سب بھول بھال گئے۔
اسرائیل کے قیام کے پندرہ روز بعد انتیس مئی کو بظاہر لیخی کی قیادت نے مزید بدنامی سے بچنے کے لیے تنظیم توڑنے کا اعلان کر دیا۔البتہ دہشت گردی بدستور جاری رہی۔لیخی کی قیادت نے ستمبر انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کی تشکیل کے چار ماہ بعد اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کاؤنٹ برناڈوت کو یروشلم میں دن دہاڑے قتل کروایا۔
بن گوریان حکومت نے لیخی کو اعلانیہ دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے دو سو سے زائد ارکان کو حراست میں لے لیا۔ان پر مقدمات قائم ہوئے اور چند ماہ میں جب کاؤنٹ برناڈوٹ کے قتل کے ردِعمل کی دھول بیٹھ گئی تو سب ملزموں کو عام عافی مل گئی۔ان میں سے بیشتر اسرائیلی فوج میں شامل ہو گئے۔
ایتزاک شمیر نے انیس سو پچپن میں موساد میں شمولیت اختیار کر لیا۔مگر آپریشن ڈیموکلیز اسکینڈل کے نتیجے میں جب بن گوریان حکومت نے انیس سو تریسٹھ میں موساد کے سربراہ آئزر ہیرل کو برطرف کیا تو شمیر اور ان کے کچھ ساتھیوں نے بھی موساد کے پلاننگ ڈویڑن سے انیس سو پینسٹھ میں باقاعدہ علیحدگی اختیار کر لی۔آپریشن ڈیموکلیز موساد نے انیس سو باسٹھ تریسٹھ میں قومی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر کیا۔
اس آپریشن کا نشانہ مصر کے صدر جمال ناصر کے میزائیل سازی منصوبے میں شامل تین سابق نازی سائنسدان اور ان کے اہلِ خانہ تھے۔ موساد نے ان سائنس دانوں کو پارسل بم بھیجے۔ ایک سائنسدان زخمی ہوا جب کہ پانچ مقامی ماہرین ہلاک ہوئے۔ایک سائنسدان کے خاندان کو آسٹریا میں اغوا کر کے اور باقیوں کے اہلِ خانہ کو دھمکیاں دے کر اس پروجیکٹ سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا گیا۔انیس سو سڑسٹھ میں ناصر نے میزائیل سازی کا پروگرام مکمل ترک کر کے سوویت اسکڈ میزائل حاصل کر لیے۔
موساد کا یہ آپریشن اس زمانے میں ہو ا جب وزیرِ عظنم بن گوریان اور وزیرِ خارجہ گولڈا مائر جرمن حکومت سے ہالوکاسٹ کے عوض بھاری ازالہ رقم وصول کر رہے تھے اور جرمنوں سے اسلحے کی ڈیل کر رہے تھے۔چنانچہ سابق نازی سائنسدانوں (جرمن شہری ) کے خلاف آپریشن پر جرمن حکومت کی خفگی کے تدارک کے لیے موساد کے سربراہ اور ان کے معاونین کو قربانی کا بکرا بننا پڑا۔
ایتزاک شمیر نے بعد ازاں انیس سو انہتر میں مینہم بیگن کی جماعت ہیروت میں شمولیت کر لی۔ انیس سو بہتر میں ہیروت سمیت دائیں بازو کی جماعتوں نے لیخود کے نام سے اتحاد قائم کیا۔انیس سو ستتر میں جب یہ اتحاد برسرِاقتدار آیا تو شمیر پارلیمنٹ کے اسپیکر بن گئے۔تاہم انھوں نے انیس سو اناسی میں بیگن اور سادات کے مابین ہونے والے کیمپ ڈیوڈ امن سمجھوتے کی مخالفت کی۔
انیس سو اسی تا چھیاسی شمیر دو مخلوط حکومتوں میں وزیرِ خارجہ رہے اور پھر مخلوط حکومت کے وزیرِ اعظم بن گئے۔شمیر کی وزارتِ خارجہ کے دور میں جولائی انیس سو بیاسی میں بیروت کا محاصرہ ، بیروت سے یاسر عرفات کی بے دخلی اور صابرہ شتیلا کیمپوں میں قتلِ عام ہوا۔ شمیر کی وزارتِ عظمی کے دوران ہی پہلا فلسطینی انتفادہ شروع ہوا۔اسے بے رحمی سے دبا دیا گیا۔
شمیر نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ جو روسی یہودی سوویت یونین سے نقلِ مکانی کرنا چاہتے ہیں انھیں امیگریشن ویزہ نہ دیا جائے تاکہ وہ امریکا کے بجائے اسرائیل کا رخ کریں۔صدر بش سینیر کی حکومت نے حکم کی تعمیل کی اور انیس سو اناسی کے گوربچوف دور میں لاکھوں سوویت یہودیوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت ملی۔ انھیں سیدھا اسرائیل اور مقبوضہ غربِ اردن پہنچایا گیا۔افریقہ بالخصوص ایتھوپیا سے بھی بڑی تعداد میں یہودیوں کو منتقل کیا گیا۔اکتوبر انیس سو اکیانوے میں سوویت یونین سے دوبارہ سفارتی تعلقات بحال ہوئے جو جون انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے منقطع تھے۔
شمیر فلسطینیوں سے امن بات چیت اور دو ریاستی حل کے شدید مخالف رہے۔ امریکا کی جانب سے مقبوضہ غرب اردن میں یہودی آبادکاری کے لیے مالی امداد معطل کرنے کی دھمکی کے بعد ہی شمیر نے میڈرڈ امن مذاکرات میں بادلِ نخواستہ شرکت پر آمادگی ظاہر کی اور اس کی قیمت حکومت ٹوٹنے کی شکل میں ادا کی۔
بطور وزیرِ اعظم انھوں نے جس آخری حکم پر دستخط کیے وہ سولہ فروری انیس سو بانوے کو حزبِ اللہ کے بانی شیخ عباس موسوی کے قتل کا محضر نامہ تھا۔عباس موسوی کے بعد حسن نصراللہ نے حزبِ اللہ کی قیادت سنبھالی اور وہ بھی بتیس برس بعد ایک اور لیخود وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حکم پر قتل کیے گئے۔ شمیر کو نیتن یاہو بطور لیڈر سخت ناپسند رہے۔ان کے خیال میں نیتن یاہو ایک ’’ نرم خو اور غیر فیصلہ کن ’’ شخصیت تھے۔
دو ہزار چار میں شمیر کو ایلزائمر کا عارضہ لاحق ہو گیا۔اگلے آٹھ برس انھوں نے تل ابیب کے ایک نرسنگ ہوم میں گذارے اور وہیں تیس جون دو ہزار بارہ میں ستانوے برس کی عمر میں انتقال ہوا اور ماؤنٹ ہرزل کے سرکاری قبرستان میں دفن ہوئے۔ ( جاری ہے )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایتزاک شمیر بن گوریان اور ان کے کی قیادت شمیر کو ہو گئے کے لیے کے بعد کے قتل
پڑھیں:
وزیرِ اعظم رمضان ریلیف پیکیج کے لیے شارٹ کوڈ 9999 جاری
وزیرِ اعظم شہباز شریف—فائل فوٹووزیرِ اعظم شہباز شریف نے رمضان پیکیج سے متعلق وزارتِ آئی ٹی کو احکامات جاری کر دیے۔
ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم رمضان ریلیف پیکیج کے لیے شارٹ کوڈ 9999 استعمال کیا جائے گا، وزارتِ آئی ٹی شارٹ کوڈ کو رمضان پیکیج کے پیغامات کی تصدیق کے لیے یقینی بنائے گی۔
وزارت آئی ٹی کو موبائل نمبرز کے ساتھ شناختی کارڈ کو میچ کرنے کا ٹاسک بھی دیا گیا ہے، رمضان ریلیف پیکیج کے لیے این ٹی سی میں کنٹرول روم قائم کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا رمضان پیکیج، سمری کابینہ میں پیش کریں، شہباز شریف وزیراعظم نے رمضان ریلیف پیکیج کی رقم بڑھا کر ساڑھے 12 ارب روپے کردیذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم رمضان ریلیف پیکیج کے تحت 39 لاکھ خاندانوں کو نقد رقم دینے کی تجویز ہے، پیکیج کے تحت فی مستحق خاندان کے لیے ایک بار 5 ہزار روپے کی کیش مالی امداد کی تجویز ہے۔
وزیرِ اعظم رمضان ریلیف پیکیج کے بجٹ کا تخمینہ 20 ارب 50 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
اس بار وزیرِ اعظم رمضان ریلیف پیکیج یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے فراہم نہیں کیا جا رہا۔