کسی ملک کی سرزمین دہشت گردی کے استعمال نہیں ہونی چاہیے، اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد:(دنیا نیوز) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کسی ملک کی سرزمین دہشت گردی کے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےاسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے،افغان عبوری حکومت سے کہا ہے کہ اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں، دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان ملاقات ہوئی ہے، دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح سٹرٹیجک اجلاس کی پاک ترکیہ قیادت نے مشترکہ صدارت کی۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاک ترکیہ کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، دفاع سمیت مختلف شعبوں میں قریبی تعاون ہے، صدر رجب طیب اردوان کا دورہ پاکستان کامیاب رہا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ اور مسئلہ کشمیر دیرینہ تنازعات ہیں، غزہ اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں، غزہ اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ غزہ کے عوام کو ان کی سرزمین سے بیدخل کرنے کی تجویز ناقابل قبول ہے، غزہ میں مستقل جنگ بندی ہونی چاہیے۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کی رکنیت کے حامی ہیں، حق خودارادیت کشمیری عوام کا حق ہے جبکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر اسحاق ڈار کے درمیان
پڑھیں:
ریڈ لائن
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اقرا یونیورسٹی کے طلبا سے نہایت پرمغز اور اثرانگیز خطاب کرتے ہوئے قرآنی آیات کی روشنی میں دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کر دیا کہ آج فوج جن فسادیوں کے خلاف لڑ رہی ہے وہ خارجی ہیں جو دین سے دور ہیں، ان کے پاس اسلام کی اپنی غلط تشریح ہے جو اسلام میں جائز نہیں۔
ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں کہ جو اللہ اور رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں انھیں قتل کر دو۔ سپہ سالار اعظم نے خوارج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے آپ کو ریاست کے سامنے سرینڈرکردیں، تب ہی وہ ریاست سے رحم کی توقع کر سکتے ہیں۔ انھوں نے قوم کو یقین دہانی کرائی کہ پاک فوج عوام کی طاقت سے ایسے گمراہ گروہ کو ہرگز ملک پر اپنی اقدار مسلط کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
ہمارے معاشرے میں بگاڑ اور ٹوٹ پھوٹ کے مختلف اسباب میں سب سے اہم سبب اور بڑا گمبھیر مسئلہ لوگوں کی سوچ اور فکر میں شدت پسندی کا غالب آ جانا ہے، کسی ایک طبقے، جماعت،گروہ یا گروپ اور فرقے کا کسی دوسرے طبقے،گروہ، جماعت یا فرقے پر طاقت کے زور پر اپنے نظریے، عقیدے اور فلسفے کو زبردستی مسلط کرنا اور عمل نہ کرنے کی صورت میں اس کے خلاف ہتھیار بکف ہو جانا فتنہ و فساد کو جنم دیتا ہے۔
مذہبی و فرقہ وارانہ انتہا پسندی نے ملک کے اندر نئی کیفیت پیدا کر دی ہے جو مختلف عقائد و نظریات کے زیر اثر نت نئے فرقوں کو جنم دے رہی ہے۔ اس پہ مستزاد مختلف النوع ہتھیاروں کے استعمال کے باعث قتل و غارت، دہشت گردی، بم دھماکے اور خودکش حملے گزشتہ دو تین دہائیوں سے پاکستان کا مقدر بنتے جا رہے ہیں۔ انتہا پسندی کے اس خون آشام فتنے کو ختم کرنے کے لیے پاک فوج نے ماضی میں رد الفساد اور ضرب عضب جیسے آپریشن بھی کیے۔
سیکڑوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا اور درجنوں نوجوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کے باوجود ملک کے دو صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں آج بھی شدت پسند عناصر وقفے وقفے سے اپنی مذموم کارروائیوں میں بے گناہ لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں۔ قومی املاک کو نشانہ بنا رہے ہیں، بات صرف اندرون وطن فتنہ الخوارج تک محدود نہیں ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان اور بھارت کی مداخلت کاری کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے تانے بانے افغانستان کے پرورش و پروان چڑھنے والے انتہا پسندوں سے ملتے ہیں۔
اس پہ مستزاد بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ جس نے افغانستان میں اپنے قدم جما رکھے ہیں وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان سے بارہا پاک فوج کی کاوشوں اور قربانیوں اور مختلف النوع آپریشن کے بعد بھی دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ ممکن نہیں ہو پا رہا ہے، بالخصوص کے پی کے اور بلوچستان دہشت گردوں کے لیے آسان ہدف بنے ہوئے ہیں، افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان نے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغان حکومت سے متعدد مرتبہ اس مسئلے کو اٹھایا ہے اور باور کرایا ہے کہ افغان طالبان حکومت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے، لیکن افسوس کہ طالبان حکومت نے اس ضمن میں سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کیا، نتیجتاً دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ امن و امان کے قیام کے بغیر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ممکن نہیں۔ اندرونی و بیرونی سرمایہ کار اسی جگہ سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں ان کے سرمایہ کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ سرمایہ کاری ہی معیشت کی بنیاد ہوتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ بلوچستان میں چین کے تعاون سے سی پیک منصوبہ روبہ عمل ہے جس کی تکمیل سے پاکستان معاشی طور پر انتہائی مضبوط پوزیشن میں آ جائے گا۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں اور ملکوں سے قرضوں کے حصول کی ضرورت نہیں رہے گی۔
معیشت مستحکم ہوگی تو پاکستان ترقی کرے گا، دشمن ملک بھارت اور چین مخالف طاقتیں بخوبی جانتی ہیں، اگر سی پیک منصوبہ کامیاب ہوگیا تو پاکستان کو ترقی و معاشی استحکام سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس باعث بھارت بلوچستان میں انتہا پسند قوتوں کی پشت پناہی کرتا ہے اور دہشت گردی کی کارروائیوں کو ہوا دے رہا ہے، بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا مبینہ ثبوت ہے کہ ’’را‘‘ پاکستان میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ پاکستان کی معیشت کو 80 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
ملک دیوالیہ ہونے کی دہلیز تک پہنچ چکا ہے۔ معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف و دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول گلے کا طوق اور پاؤں کی زنجیر بنتا جا رہا ہے۔ دہشت گرد عناصر معاشی بحالی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی جو مذموم کوششیں کر رہے ہیں۔ پاک فوج پوری قوم کی طاقت سے ان کے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ امن، ترقی اور خوشحالی پاکستان کی ریڈ لائن ہے جو اسے پار کرنے کا سوچے گا تو قوم کا ایک ایک فرد اپنی جان نثار کرنے کو تیار ہے۔