ٹورنٹو(نیوز ڈیسک)کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ امریکا نہ ہم سے ہمارا ملک لے سکتا ہے اور نہ ہی ہم سے ہمارا کھیل چھین سکتا ہے۔

امریکی شہر بوسٹن میں کھیلے گئے آئس ہاکی میچ میں امریکا کیخلاف کینیڈا کی فتح پر جسٹن ٹروڈو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ کی ہے، جس میں انہوں کینیڈا کی خودمختاری پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آپ ہمارا ملک لے سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا کھیل چھین سکتے ہیں‘۔

کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ا س خواہش کے جواب میں ہے جس میں انہوں نے کینیڈا کو امریکا کی ’51 ویں ریاست‘ بنانے کی بات کی تھی۔
واضح رہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا اور اس کے وزیراعظم سے متعلق بار بار اشتعال انگیز بیانات دیے، جس میں ایک خود مختار ملک کینیڈا کو امریکا کی ’51 ویں ریاست‘ بنانے کے علاوہ جسٹن ٹروڈو کو اس ریاست کا ’گورنر‘ قرار دیا تھا۔

اس کے علاوہ ٹرمپ نے جہاں اقتصادی ایمرجنسی کے نام پر چین اور میکسیکو پر درآمدی ٹیکسز عائد کیے، وہیں پڑوسی ملک کینیڈا پر بھی 25 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی صدر کے اس اقدام کے جواب میں جسٹن ٹروڈو نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کینیڈا 106 بلین ڈالر کی امریکی درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائد کرے گا۔ انہوں کینیڈا کے شہریوں پر امریکی ٹیکس کیخلاف آواز اٹھانے پر بھی زور دیا ہے۔
مزیدپڑھیں:اداکار احمد علی اکبر نے اپنی شادی کی تصاویر شیئر کرنے سے منع کیوں کیا؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جسٹن ٹروڈو

پڑھیں:

ٹرمپ انتظامیہ کا مشترکہ مقاصدکے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان

 

اسلام آباد:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان کر دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان میں امریکی ناظم الامور نتالی بیکر نے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کا پیغام پہنچایا ۔ صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد موجودہ حکومت سے ان کی انتظامیہ کا یہ پہلا رابطہ ہے۔

وزیر اعظم آفس سے اس ضمن میں جاری ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا ہے کہ پاک امریکا تعاون کی تاریخ عشروں پر محیط ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں ملکوں کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بڑی خواہش رکھتے ہیں۔

اس ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں جن میں آئی ٹی، زراعت ، صحت، تعلیم اور انرجی کے علاوہ باہمی دلچسپی کے دیگر معاملات میں تعاون کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔

وزیر اعظم نے اس ملاقات میں انسداد دہشتگردی خاص طور پر داعش اور فتنہ الخوارج کے خاتمے کے لیے بھی قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق امریکی ناظم الامور نے ملاقات پر وزیر اعظم شہباز شریف کا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ ان کا ملک مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔

پاکستان جو کبھی امریکا کا قریبی اتحادی تھا کچھ عرصے سے امریکا کی ترجیح نہیں رہا تھا، صدر ٹرمپ نے بھی اقتدار سنبھالنے کے چند دنوں کے اندر ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطہ کر کے انہیں دورے کی دعوت تھی ۔دوسری طرف پاکستانی وزیر اعظم سے فون پر رابطہ بھی نہیں کیا تھا۔

اب امریکی ناظم الامور کی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات سے لگتا ہے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے وگرنہ وزیر اعظم یوں کسی ملک کے ناظم الامور سے کم ہی ملتے ہیں۔

اگر چہ پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ چلنے کی خواہش کا پہلے بھی اظہار کر چکا ہے ، تاہم اسے نئی امریکی حکومت کی بعض پالیسیوں سے اختلاف تھا، خاص طور پر پاکستان افغان مہاجرین کی آباد کاری کے پروگرام کو معطل کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی پر تشویش میں مبتلا ہے۔

صدر بائیڈن کی سابق انتظامیہ افغان جنگ کے دوران امریکا سے تعاون کرنے والے ہزاروں افغانوں کو لینے پر آمادہ تھی، یہ افغان اس وقت پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان افغانوں کی امریکا منتقلی کا عمل سست روی کا شکار ہے ۔

بائیڈن انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکا 2025ء تک ان افغانوں کو اپنے ملک منتقل کر دے گا، لیکن صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کم از کم 90 دنوں کے لیے ان افغانوں کی امریکا منتقلی کے پروگرام کو روک دیا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا ان تقریباً 25 ہزار افغانوں کی امریکا منتقلی کے عمل کو تیز کرے۔

وزیر اعظم آفس کی طرف سے جاری بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکی ناظم الامور کی اس ملاقات میں ان افغانوں کی امریکا منتقلی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے یا نہیں، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی اس ملاقات کا حصہ تھی۔ اس وقت امریکی انتظامیہ نے نہ صرف پاکستان میں پھنسے ہوئے افغانوں کی اپنے ملک منتقلی روک رکھی ہے بلکہ بیرونی امداد بھی بند کر دی ہے ۔ لہذاپاکستان میں امریکی سفارتخانے کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ ان افغانوں کے اخراجات برداشت کر سکے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا آنے والوں کو روکیں گے نہیں ،قانونی طریقے سے آنے کا مشورہ دیں گے،ٹرمپ
  • ریاست اور اداروں کو پیغام دینا چاہتا ہوں نظریے اور سوچ کو قید نہیں کیا جاسکتا، علی امین گنڈاپور
  • نظریے اور سوچ کو قید نہیں کیا جاسکتا: علی امین گنڈا پور کا ریاست اور اداروں کو پیغام
  • صدر ٹرمپ کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اختلافات میں اضافہ
  • یوکرین جنگ، امریکا کا 500 ارب ڈالر یوکرینی معدنیات سے وصول کرنیکا منصوبہ
  • ٹیسلا نے بھارت میں فیکٹری لگائی تو یہ امریکا سے زیادتی ہوگی، ٹرمپ
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے روس یوکرین تنازع کیلئے یوکرین کو ہی مورد الزام ٹھہرادیا
  • ٹرمپ انتظامیہ کا مشترکہ مقاصدکے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان
  • ’ان کے پاس ہم سے زیادہ پیسہ ہے،‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کو فنڈنگ بند کردی