WE News:
2025-04-15@09:08:15 GMT

جرمنی میں 4 لاکھ ملازمتیں، ویزہ کیسے اپلائی کریں؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

جرمنی میں 4 لاکھ ملازمتیں، ویزہ کیسے اپلائی کریں؟

جرمنی کو نئے ڈیجیٹل ویزا سسٹم کے تحت 4 لاکھ ہنر مند غیرملکی کارکنوں کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جرمنی میں بڑی تعداد میں ملازمین کی ضرورت، کوالیفکیشن کیا ہو؟ تنخواہ کتنی ملے گی؟

جرمنی  نے باضابطہ  طور پر اپنا قونصلر سروسز پورٹل متعارف کرایا ہے، جس سے دنیا بھر کے افراد جرمن ویزا کے لیے آن لائن درخواست دے سکتے ہیں، یہ ڈیجیٹل اقدام جرمنی کے ویزے کے حصول میں رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے  غیر ملکی ہنر مند کارکنوں، اپرنٹس اور طلبا کے لیے ویزا منظوری کے عمل کو تیز کرتا ہے۔

جرمنی کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا

جرمنی کو مزدوروں کی نمایاں کمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے حکومت بین الاقوامی ٹیلنٹ کو فعال طور پر تلاش کرنے کے لیے  کوشاں ہے، جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے ملک کی اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے اور عالمی مسابقت کو برقرار رکھنے کے لیے سالانہ کم از کم 4 لاکھ ہنر مند کارکنوں کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

2025 کے لیے جرمنی میں زیادہ مانگ والے شعبے

جرمنی مندرجہ ذیل صنعتوں میں زبردست مانگ کے ساتھ 28 زمروں میں پیشہ ور افراد کو بھرتی کر رہا ہے۔

ہنر مند تجارت اور دستکاری: تعمیراتی کارکن، الیکٹریشن، پلمبر، بڑھئی، مکینکس

صحت اور بزرگوں کی دیکھ بھال:  نرسیں، دیکھ بھال کرنے والے، طبی تکنیکی ماہرین

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی آئی ٹی ماہرین کے لیے جرمنی میں 6 ہزار یورو کی ملازمت کے مواقع

ٹیک اینڈ آئی ٹی: سافٹ ویئر انجینئرز، سائبر سیکیورٹی ماہرین، اے آئی ماہرین، ڈیٹا تجزیہ کار

مینوفیکچرنگ اور انجینئرنگ:  مکینیکل انجینئرز، آٹوموٹو ٹیکنیشنز، صنعتی کارکن

لاجسٹکس اور ٹرانسپورٹ: ٹرک ڈرائیور، گودام کارکن، سپلائی چین مینیجر

مہمان نوازی اور سیاحت: باورچی، ہوٹل مینیجر، ریستوراں کا عملہ

تعلیم اور تربیت: پیشہ ورانہ تربیت دہندگان، انگریزی اساتذہ

ہنر مند لیبر کے لیے بڑھتی ہوئی عالمی مسابقت کے ساتھ جرمنی نے بین الاقوامی درخواست دہندگان کو زیادہ مؤثر طریقے سے راغب کرنے کے لیے ایک تیز، ڈیجیٹلائزڈ ویزا سسٹم متعارف کرایا ہے۔

جرمنی کا نیا ڈیجیٹل ویزا سسٹم

قونصلر سروسز پورٹل کا آغاز جرمنی کے ویزے کے عمل میں ایک بڑی پیشرفت کی نشاندہی کرتا ہے، جو آن لائن درخواست کا ایک آسان طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔

ڈیجیٹل ویزا سسٹم کی اہم خصوصیات

جرمنی کا نیا ویزہ سسٹم جرمی میں کام اور تعلیم کے ویزوں کے لیے 100 فیصد آن لائن درخواست دینے کی سہولت دیتا ہے۔

نیا نظام اپوائنٹمنٹ میں تاخیر کو ختم کرتا ہے۔

آن لائن نظام دنیا بھر میں 167 ویزا دفاتر تک رسائی دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کینیڈا کے ایک ویزے پر ملٹی پل انٹری کے قوانین میں کی جانیوالی اہم تبدیلی کیا ہے؟

یہ نظام متعدد ویزہ زمروں کا احاطہ کرتا ہے، بشمول ملازمت، اپرنٹس شپ، اور خاندان کے افراد کا ملنا۔

وزیر خارجہ انالینا بیرباک نے زور دیا، ’ ہم کاغذی درخواستوں اور طویل انتظار کی مدت کی وجہ سے اعلی ٹیلنٹ کی آمد میں تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک جدید امیگریشن ملک کے طور پر ہمیں ایک جدید ترین ویزا عمل کی ضرورت ہے۔

جرمنی کے نئے ڈیجیٹل ویزا سسٹم کی افادیت

جرمنی کا ڈیجیٹل ویزا سسٹم  ہنر مند پیشہ ور افراد کے لیے ایک گیم چینجر ہے، جس کے فائدے درج ذیل ہیں۔

پیپر لیس ایپلی کیشنز: مزید لمبے فارمز اور فزیکل دستاویز کی گذارشات نہیں۔

تیز تر پروسیسنگ: درخواست کی منظوری میں آسانی

زیادہ قابل رسائی: دنیا میں کہیں سے بھی درخواست دیں۔

مضبوط کاروباری مرکز : ملازمتوں آسامیوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے پُر کرنے میں کمپنیوں کی مدد کرنا

اپلائی کرنے کا طریقہ

جرمن قونصلر سروسز پورٹل ویزا کی درخواست کے عمل کو آسان بناتا ہے، جس سے ہنر مند کارکنوں، طلباء اور اپرنٹس کو مکمل طور پر آن لائن درخواست دینے کی اجازت ملتی ہے، جرمنی کے لیے ویزہ اپلائی کرنے کے لیے درج ذیل طریقہ آزمائیں۔

قونصلر سروسز پورٹل پر جائیں: جرمن ویزا کی سرکاری ویب سائٹ تک رسائی حاصل کریں۔

یہ بھی پڑھیں: گرین پاسپورٹ کا رنگ پیلا کیوں پڑ گیا؟  

ایک اکاؤنٹ بنائیں: اپنی ای میل اور ذاتی تفصیلات کا استعمال کرتے ہوئے رجسٹر کریں۔

اپنی ویزا کیٹیگری منتخب کریں: 28 دستیاب آپشنز میں سے انتخاب کریں۔

مطلوبہ دستاویزات اپ لوڈ کریں: شناخت، قابلیت، ملازمت کی پیشکش (اگر قابل اطلاق ہو) اور دیگر ضروری دستاویزات جمع کروائیں۔

انٹرویو کا شیڈول بنائیں (اگر ضرورت ہو): ویزا کی کچھ اقسام کے لیے آن لائن یا ذاتی طور پر انٹرویو کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

اپنی درخواست جمع کروائیں اور فیس ادا کریں: درخواست مکمل کریں اور ضروری ادائیگیوں پر کارروائی کریں۔

اپنی درخواست کو ٹریک کریں: پورٹل کے ذریعے اپنے ویزا کی حیثیت کی نگرانی کریں کہ آیا آپ کو ویزا ملا ہے یا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان جرمنی ڈیجیٹل ویزہ سسٹم قونصلر سروسز پورٹل ہنرمند افراد ویزے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان ڈیجیٹل ویزہ سسٹم قونصلر سروسز پورٹل ہنرمند افراد ویزے قونصلر سروسز پورٹل ڈیجیٹل ویزا سسٹم آن لائن درخواست جرمنی کے کی ضرورت ویزا کی کرتا ہے کے لیے

پڑھیں:

گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) شمالی پاکستان میں سارا سال برف کی سفید چادر سے ڈھکے رہنے بلند و بالا پہاڑوں کے وادیوں میں رہائش پذیر اور پانی کی کمی سے دوچار کسانوں نے اپنے آئس ٹاور یا برفانی ستون تعمیر کر لیے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سردیوں میں معمول سے زیادہ درجہ حرارت اور برف باری میں کمی کی وجہ سے گلگت بلتستان کو اب پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔

آن لائن مدد کی تلاش

یہ علاقہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا مسکن بھی ہے۔ قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے سائے میں وادی اسکردو کے کسانوں نے 2,600 میٹر (8,200 فٹ) تک کی بلندی پر اپنے سیب اور خوبانی کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے آن لائن مدد تلاش کی۔

ایک مقامی کسان غلام حیدر ہاشمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے یوٹیوب پر مصنوعی گلیشیئر دریافت کیے۔

(جاری ہے)

‘‘ انہوں نے سرحد کے اس پار دو سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر بھارتی علاقے لداخ میں ماحولیاتی کارکن اور انجینئر سونم وانگچک کی ویڈیوز دیکھیں، جنہوں نے تقریباً دس سال قبل یہ تکنیک تیار کی تھی۔

اس تکنیک کے تحت پانی کو ندیوں سے گاؤں تک پہنچایا جاتا ہے اور سردیوں کے منجمد کر دینے والے درجہ حرارت کے دوران اس کا ہوا میں چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف بلتستان کے پروفیسر ذاکر حسین ذاکر نے کہا، ''پانی کو ہوا میں اچھالا جانا چاہیے تاکہ جب درجہ حرارت صفر سے نیچے آجائے تو یہ جم جائے، جس سے برف کے ٹاور بنتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد یہ برف ایک ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو بدھ مت کے مقدس اسٹوپاز سے ملتی جلتی ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے ایک نظام کے طور پر کام کرتی ہے، پھر جب موسم بہار میں درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو برف کا یہ ذخیرہ تسلسل سے پگھلنے لگتا ہے۔

برفانی چوٹیوں کی سر زمین

گلگت بلتستان میں 13,000 گلیشیئرز ہیں، جو قطبی خطوں سے باہر زمین پر موجود اور کسی بھی ملک میں برفانی چوٹیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان کی خوبصورتی نے اس خطے کو ملک کے اعلیٰ سیاحتی مقامات میں سے ایک بنا دیا ہے۔

قدیم شاہراہ ریشم پر یہ اونچی چوٹیاں اب بھی ایک شاہراہ سے دکھائی دیتی ہیں، جو سیاحوں کو چیری کے باغات، گلیشیئرز اور برف کی نیلی جھیلوں کے درمیان تک لے جاتی ہیں۔

افغانستان سے میانمار تک پھیلے ہوئے ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ماہر شیر محمد کا کہنا ہے کہ اس خطے میں پانی کی زیادہ تر فراہمی موسم بہار میں برف کے پگھلنے اور گرمیوں میں کسی حد تک برفانی تودوں کے پگھلنے سے ہوتی ہے۔

انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (ICIMOD) سے وابستہ محقق شیر محمد نے اے ایف پی کو بتایا، ''اکتوبر کے آخر سے اپریل کے شروع تک یہاں شدید برف باری ہوتی رہتی تھی۔

لیکن پچھلے کچھ سالوں سے یہ کافی خشک ہے۔‘‘ پہلے آئس اسٹوپا کی تعمیر سات سال قبل

اقوام متحدہ کے تحت پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے قائم منصوبے جی او ایل ایف۔ ٹو کے صوبائی سربراہ رشید الدین نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پہلا ''آئس اسٹوپا‘‘ سن دو ہزار اٹھارہ میں بنایا گیا تھا اور اب بیس سے زائد دیہات ہر موسم سرما میں انہیں بناتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان اسٹوپاز کی بدولت ''سولہ ہزار سے زائد باشندوں کو آبی ذخائر یا ٹینک بنائے بغیر پانی تک رسائی حاصل ہے۔‘‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے سامنے سب بے بس

کسان محمد رضا نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس موسم سرما میں ان کے گاؤں حسین آباد میں آٹھ اسٹوپا بنائے گئے تھے، جن میں تقریباً 20 ملین لٹر پانی برف کی شکل میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، ''ہمارے پاس اب پودے لگانے کے دوران پانی کی کمی نہیں ہے۔‘‘

وادی کے ایک اور کسان علی کاظم نے کہا، ''اس سے پہلے ہمیں پانی حاصل کرنے کے لیے جون میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن اب ان اسٹوپاز نے ہمارے کھیتوں کو بچا لیا ہے۔‘‘

قریبی پاری گاؤں میں آلو، گندم اور جو اگانے والے نوجوان بشیر احمد نے کہا کہ اسٹوپا بنانے سے قبل وہ مئی میں اپنی فصلیں بویا کرتے تھے۔

ان کا کہنا ہے، ''پہلے ہمارے پاس پیداوار کے لیے صرف ایک موسم تھا، جبکہ اب ہم سال میں دو یا تین بار فصل اگا سکتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں1981 اور 2005 کے درمیان اوسط درجہ حرارت عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا تیزی سے بڑھا، جس نے اس جنوبی ایشیائی ملک کو اب پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات والے ممالک کی صف اول میں لا کھڑا کیا ہے۔

240 ملین کی آبادی والے اس ملک میں زیادہ تر باشندے ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جو 80 فیصد بنجر یا نیم خشک ہے اور اس کو درکار پانی کے تین چوتھائی سے زیادہ حصے کا انحصار پڑوسی ممالک سے نکلنے والے دریاؤں اور ندیوں پر ہوتا ہے۔

پاکستان اور دنیا بھر میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے سمیت چند مستثنیات شامل ہیں۔

اس صورت حال کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور طویل المدتی بنیادوں پر پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

ایک اور مقامی رہائشی یاسر پروی نے کہا، ''موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے، یہاں نہ امیر ہے نہ غریب، نہ شہری اور نہ ہی دیہی، پوری دنیا غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ ہمارے گاؤں میں برف کے اسٹوپاز کی تعمیر کے ذریعے ہم نے ایک چانس لینے کا فیصلہ کیا۔‘‘

ش ر ⁄ م م (اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ سوم)
  • وزیراعلیٰ پنجاب ’’آسان کاروبار کارڈ‘‘کون اہل ہے،اپلائی کس طرح کیا جائے،جا نیں
  • اسٹیج ڈراموں میں خواتین اداکار کیسے ملبوسات زیب تن کریں؟ منظوری حکومت دے گی 
  • سومی میں روسی میزائل حملہ ’جنگی جرم‘ ہے جرمنی کے متوقع چانسلر
  • سی ایم پنجاب فری سولر پینل اسکیم کا باقاعدہ افتتاح
  • بیلاروس کا ڈیڑھ لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں دینے کا اعلان، کیا مواقع موجود ہیں؟
  • چھوٹی سی عمر میں جج، ڈاکٹر اور انجینیئر بننے والی 3 لڑکیوں کی کہانی
  • سعودی ایوی ایشن نے عمرہ ویزہ ہولڈرز کے لیے نئی سفری ہدایات جاری کر دیں
  • گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟
  • دہشت گردی کا خطرہ: ڈنمارک کی طرف سے جرمنی کے ساتھ سرحدی نگرانی میں توسیع