ٹیکس نیٹ میں موجود ریٹیلرز پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا: وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایسے ریٹیلرز جو ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں ان پر ٹیکس کا مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق وزیرِاعظم محمد شہباز شریف سے پاکستان ریٹیل بزنس کونسل کے چیئرمین زید بشیر کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی، وزیرِ اعظم نے ریٹیلرز کے وفد کا خیرمقدم کیا اور مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی،وزیرِ اعظم نے متعلقہ حکام کو ریٹیلرز کے مسائل کے حل کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایسے ریٹیلرز جو ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں ان پر ٹیکس کا مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، ایسے تمام ریٹیلرز جو ٹیکس نہیں دیتے ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہے ہیں، استعمال شدہ اشیاء کی آڑ میں ہونے والی سمگلنگ کے سد باب کیلئے بھی اقدامات تیز کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقامی صنعت جدت کو اپناتے ہوئے اپنی اشیاء کی برآمدات کیلئے جدید ٹیکنالوجی اپنائے تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ کا مقابلہ کر سکے، ایف بی آر کی دیگر اصلاحات کے ساتھ ساتھ حکومت معیشت کو کیش لیس بنانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔وفد کے شرکاءنے وزیراعظم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت کے استحکام کیلئے آپ اور آپکی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، مہنگائی اور شرح سود میں خاطر خواہ کمی سے مصنوعات کی کھپت اور پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے جو خوش آئند ہے، امید ہے ان اقدامات سے شرح مہنگائی میں مزید کمی آئے گی۔
شرکاء کا کہنا تھا کہ صنعتوں کا پہیہ چلنے سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، حکومتی اصلاحات خوش آئند ہیں اور ان کے معیشت پر دور رس مثبت اثرات مرتب ہونگ، ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے محصولات میں اضافہ ہوگا، ایسے ریٹیلرز جو ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں انکے مسائل کے حل کیلئے حکومتی اقدامات کے معترف ہیں۔
9 مئی کے ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کرنے کیلئے دائر اپیلیں سماعت کیلئے مقرر
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: ٹیکس نیٹ میں موجود ریٹیلرز جو ٹیکس ہیں ان
پڑھیں:
افغانستان میں ایسے علاقے ہیں جو انتہاپسند سرگرمیوں کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں: امریکی وزیر خارجہ
ویب ڈیسک —
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعرات کی رات اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ طالبان کے کنٹرول کے افغانستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جو انتہاپسند گروپوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار سی بی ایس نیٹ ورک کی ایک سابق صحافی کیتھرین ہیریج کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
روبیو سے پوچھا گیا تھا کہ آیا انٹیلی جینس رپورٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ( داعش) نے افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا لیے ہیں اور وہ 11 ستمبر 2001 سے پہلے جیسے خطرے کا سبب بن سکتے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہوں گا یہ نائن الیون سے پہلے جیسا منظر ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ کی حکمرانی میں ایسے علاقے ہوں جہاں ہر حصے پر آپ کا مکمل کنٹرول نہ ہو تو یہ ایسے گروہوں کے لیے موقع فراہم کرتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن آج اور 10 سال پہلے کے درمیان فرق یہ ہے کہ اب اس زمین پر امریکی موجود نہیں ہیں جو انہیں ہدف بنائیں اور ان کا پیچھا کریں۔
امریکیی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا انٹرویو سی بی ایس کی سابق صحافی کیتھرین ہیریچ لے رہی ہیں۔ یہ انٹرویو 20 فروری کو ایکس پر نشر ہوا۔ بشکریہ ایکس
روبیو نے کہا کہ جب طالبان کو بتایا گیا کہ اسلامک اسٹیٹ یا القاعدہ ان کے ملک کے کچھ حصوں میں کام کر رہی ہے تو بعض معاملات میں طالبان تعاون کرتے رہے ہیں اور ان کے پیچھے گئے ہیں، لیکن دوسرے معاملات میں انہوں نے اتنا زیادہ تعاون نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ لہذا میں یہ کہوں کا کہ میں اس کا موازنہ نائن الیون سے پہلے کے دور سے نہیں کروں گا، لیکن یقینی طور پر صورت حال کہیں زیادہ غیر یقینی ہے اور یہ بات صرف افغانستان تک محدود نہیں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے تبصروں پر طالبان نے فوری طور پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا، لیکن وہ مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ پورا ملک ان کے کنٹرول میں ہے اور وہ ان خدشات کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم افغان سرزمین پر موجود ہے۔
مارکو روبیو کا یہ بیان اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے چند دن بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ القاعدہ کے کارکنوں کو طالبان کی خفیہ ایجنسی کے تحفظ میں افغانستان بھر میں محفوظ ٹھکانے مل رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے اجازت پر مبنی ایک ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے جس سے القاعدہ کو مضبوط ہونے کا موقع ملا ہے اور اس کےمحفوظ ٹھکانے اور تربیتی کیمپ پورےا فغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں افغانستان میں موجود ایک دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ خراسان کو، جو اسلامک اسٹیٹ سے منسلک ایک گروپ ہے، علاقائی دہشت گردی کا ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کا جائزہ یہ اجاگر کرتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ خراسان کے حامیوں نے یہ کہ نہ صرف طالبان حکام اور افغانستان کی مذہبی اقلیتوں پر حملے کیے ہیں بلکہ ان کے حملوں دائرہ یورپ تک پھیلا ہوا ہے اور یہ گروپ افغانستان کی سرحد سے ملحق وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی اپنی بھرتیوں کے لیے سرگرم ہے۔
طالبان عسکری طور پر اگست 2021 میں اس وقت افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے جب امریکی قیادت میں نیٹو افواج، ملک میں دو عشروں کی اپنی موجودگی کے بعد واپس لوٹ گئیں تھیں جس کے بعد کابل میں قائم افغان حکومت اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور ڈھیر ہو گئی تھی۔
(وی او اے نیوز)