ہر مہذب معاشرے کی بنیاد سماجی انصاف اور مساوات پر ہے:مریم نواز
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سماجی انصاف کے عالمی دن کے موقع پر ایک پیغام میں کہا کہ ہر مہذب معاشرے کی بنیاد سماجی انصاف اور مساوات پر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں سماجی انصاف کی بہترین مثال قائم کی۔مریم نواز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ سماجی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی معاشی تفریق اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ سماجی و معاشرتی مسائل کا سبب بن رہا ہے، جسے حل کرنا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ بدترین معاشی تفریق کو ختم کر کے بے مثال مساوات قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، محروم طبقات کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے موثر پالیسیوں کا بنانا ضروری ہے۔ مریم نواز شریف نے مزید کہا کہ صحت، تعلیم اور دیگر وسائل تک عام آدمی کی رسائی ہی حقیقی سماجی انصاف ہے، اور پنجاب میں ترقی کے دروازے اب سب کے لیے کھلنے جا رہے ہیں۔انہوں نے اپنے پیغام میں صوبے میں جاری مختلف پروگراموں جیسے مینارٹی کارڈ، ہمت کارڈ اور ہونہار اسکالرشپ کو سماجی انصاف کے اہداف کی طرف واضح پیش رفت قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ اور دیگر اقدامات بھی سماجی انصاف کے خواب کو حقیقت میں بدل رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ مریم نواز نے مزید کہا کہ پنجاب میں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے اور ان تمام اقدامات سے عوام کی زندگیوں میں بہتری آئے گی۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: سماجی انصاف مریم نواز کہا کہ
پڑھیں:
کیا مریم نواز نوجوان ووٹروں کو رام کر سکیں گی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 فروری 2025ء) پاکستانی صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز آج کل مختلف یونیورسٹیوں میں جا کر نوجوان طلبہ کے لیے تعلیمی اور ترقیاتی پروگراموں کا اعلان کر رہی ہیں۔ نوجوانوں کے لیے اعلان کردہ ان کے منصوبوں میں ہونہار اسکالرشپ پروگرام، لیپ ٹاپ اور ای-بائیکس کی تقسیم، گرلز کالجوں کے لیے بسوں کی فراہمی اور ہائر ایجوکیشن انٹرنشپ پروگرام وغیرہ بھی شامل ہیں۔
پی ٹی آئی جلسہ: عمران خان کی طاقت کا مظاہرہ نواز شریف کے شہر لاہور میں
مریم نواز کے ایک سو دن اور پینک بٹنز
ان اقدامات کو مریم نواز کی طرف سے ملک کے نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ مریم نواز کے لیے نوجوانوں کا ووٹ بنک عمران خان سے واپس لینا آسان نہیں ہوگا۔
(جاری ہے)
پنجاب یونیورسٹی لاہور کی ایک طالبہ سیدہ مہدیش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 50 ہزار بچوں کو لیپ ٹاپ دینے کا اعلان کر کے پنجاب حکومت نے پراپیگنڈے کا طوفان برپا کر رکھا ہے، جبکہ باقی لاکھوں طلبہ کا کوئی پرسان حال نہیں: ''بہت سے بچے جو میرٹ پر لیپ ٹاپ کے حق دار تھے انہیں یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا ہےکہ انہوں نے کئی سال پہلے سکول کی تعلیم کے دوران لیپ ٹاپ لیا تھا۔
‘‘سیدہ مہدیش کے بقول بھاری اقساط والی ای بائیکس بھی زیادہ تر ان امیر طالب علموں کے حصے میں آرہی ہیں جو گاڑیوں پر یونیورسٹی آتے ہیں۔ ان کے مطابق جو غریب بچے ای بائیکس کی قسطیں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ دھکے کھا رہے ہیں: ’’کسی کو ضرور اس بات کی تحقیق کرنی چاہئیے کہ نوجوانوں کو دئیے جانے والے لیپ ٹاپس اور ای بائیکس کے پیچھے کوئی اسکینڈل تو نہیں۔
‘‘مریم نواز نے چند روز قبل کہا تھا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکالر شپ پروگرام ہے، اور ہونہار بچوں کو 100فیصد میرٹ پر اسکالر شپس دیے جا رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنان تھا، ’’بہت جلد سیکنڈ اور تھرڈ ایئر کے بچوں کے لیے بھی اسکالرشپس لارہی ہوں۔‘‘
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم محمد طلحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں دیکھنا یہ چاہیے کہ نوجوانوں کے بارے میں حکومتی اعلانات پر کتنا عمل ہوا اور اس سے کتنے نوجوانوں مستفید ہوئے۔
ان کے بقول پنجاب حکومت نوجوانوں کے جذبات کو سمجھنے اور انہیں اپنی طرف راغب کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ''یہ لوگ اخباروں میں پورے پورے صفحات کے اشتہارات دے رہے ہیں حالانکہ نوجوانوں کی اکثریت اخبار نہیں پڑھتی۔ یہ ان چینلز پر اشتہاری پیسہ لگا رہے ہیں جن کی نوجوانوں میں کوئی خاص ساکھ نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود آج کے بیشتر نوجوان عمران خان کو ملکی بہتری کی جدوجہد کا ایک کردار سمجھتے ہیں لیکن مریم نواز کا تاثر وراثتی سیاست والے ایک مراعات یافتہ گھرانے کی امیر لڑکی کا ہے۔ ‘‘ ’مقاصد کے حصول کے لیے من پسند سربراہان‘سرگودھا یونیورسٹی کے ایک استاد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومتیں مرضی کی سرچ کمیٹیاں بنا کر مرضی کے بندوں کو یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر لگاتی ہیں اور پھر وہ وائس چانسلرز فروغ تعلیم کی بجائے ساری مشینری کو نوجوان ووٹرز کو قابو کرنے کے حکومتی مشن پر لگا دیتے ہیں: ''اگر ایک یونیورسٹی میں باقی سارے طلبہ کو چھٹی دے کر، آنے جانے والے دروازے بند کر کے ، مریم کے آس پاس بیٹھنے والی طالبات کی تربیت کر کے، کرفیو جیسے ماحول میں نئے آنے والے کچھ طلبہ کو اسکالرشپس کے نام پر بلا لیا جائے تو اسے مریم نواز کی مقبولیت قرار دینا مناسب نہیں ہو گا۔
‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’مریم نواز اگر واقعی مقبول ہیں تو انہیں بغیر پروٹوکول کے شہر کے کسی عوامی مقام پر جا کر نوجوانوں سے ملنا چاہیے۔ تاکہ انہیں حالات کا درست ادراک ہو سکے۔ ‘‘احمد عبداللہ نامی ایک طالب علم نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ مریم نواز کی طرف سے کیے جانے والے فلاحی کام کوئی اثر نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق، '' وہ نیوٹرل نوجوان جن کی عمران خان سے وابستگی گہری نہیں ہے ان کی رائے بدل رہی ہے، ان کے مطابق مریم نواز کچھ نہ کچھ کام کرتی نظر تو آ رہی ہیں۔
‘‘ 'مریم نواز کی کوششیں، مڈ ٹرم الیکشن کی تیاری‘سینئر صحافی جاوید فارووقی کہتے ہیں کہ نوجوانوں کی حمایت کے حصول کی مریم نواز کی تمام کوششیں در اصل مڈ ٹرم الیکشن کی تیاری کا حصہ ہیں کیونکہ ملک کی جو صورتحال اس وقت ہے اس میں خدشہ ہے کہ 'اخلاقی ساکھ سے محروم‘ یہ نظام کسی بھی وقت گر سکتا ہے۔ جاوید فاروقی کے خیال میں عمران خان کی شخصیت، ان کے سلوگن اور ان کی طرح کا پروگرام مسلم لیگ ن تو کیا کسی بھی دوسری جماعت کے پاس نہیں ہے: ''مسلم لیگ ن کے خلاف کئی سال لگا کر جو نفرت پھیلائی گئی ہے اسے ختم کرنے میں کافی وقت لگے گا۔
‘‘تجزیہ کار حبیب اکرم کی رائے میں ابھی مسلم لیگ ن کے لیے عمران خان کا نوجوان ووٹ بنک لینا ممکن نہیں ہے۔ ان کے بقول تقسیم سے پہلے انگریزوں نے دنیا کا ایک بڑا ترقیاتی اسٹرکچر برصغیر میں بنایا تھا لیکن پھر بھی انہیں یہاں سے جانا پڑا۔ ان کے مطابق چند ہزار لیپ لیپ ٹاپس بانٹ کر اور کچھ نوجوانوں کو ای بائیکس دے کر اور چند سڑکیں بنا کر حکومتی زیادتیوں ، الیکشن کی بد عنوانیوں اور عدالتوں میں ہونے والی مداخلتوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تلافی نہیں ہو سکتی۔
حبیب اکرم کے بقول، ''اس وقت کنٹرولڈ انوائرمنٹ ہے۔ سیاسی سرگرمیاں نہیں ہو رہی ہیں۔ صرف حکومتی سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ حکومت سختی کے ساتھ کنٹرول کیے ہوئے ماحول میں اپنی خود ساختہ کامیابیوں کا جشن منانا چاہتی ہے تو منا لے وگرنہ جسے حقیقت جاننی ہے وہ کسی بھی عوامی سڑک، گلی، محلے یا کسی بازار میں آکر لوگوں کا رد عمل دیکھ لے، اسے پتا چل جائے گا کہ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں۔ ‘‘
اس حوالے سے پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری اور سینئر وزیر مریم اورنگ زیب سے بار بار رابطہ کیا گیا لیکن وہ اپنا مؤقف دینے کے لیے دستیاب نہ ہو سکیں۔