UrduPoint:
2025-04-15@09:26:56 GMT

حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصراللہ کی تدفین کی تیاریاں

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصراللہ کی تدفین کی تیاریاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 فروری 2025ء) حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصراللہ 27 ستمبر کو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اُس وقت مارے گئے تھے، جب وہ بیروت کے جنوبی مضافات میں واقع ایک بنکر میں کمانڈروں سے ملاقات کر رہے تھے۔ اسرائیل کا یہ فضائی حملہ حزب اللہ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔

اتوار کو اجتماعی جنازوں کے موقع پر ہاشم صفی الدین کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے نصراللہ کی موت کے ایک ہفتے بعد حزب اللہ کی قیادت سنبھالی تھی اور وہ بھی ایک اسرائیلی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ ان ہلاکتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے حزب اللہ کے اندرونی حلقوں تک رسائی حاصل کر رکھی تھی۔ ہاشم صفی الدین کو پیر کے روز جنوب میں سُپرد خاک کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے مہند حاج علی کہتے ہیں، ''یہ جنازہ اگلے مرحلے کے لیے ایک لانچنگ پیڈ ہے۔

یہ ایک بڑا جنازہ ہو گا، جس میں لاکھوں افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے گا۔ یہ سب کو بتانے کا ایک طریقہ ہے کہ حزب اللہ اب بھی موجود ہے اور یہ کہ وہ لبنان میں اب بھی ایک اہم شیعہ کردار ہے۔‘‘

تاہم اسرائیل کی کارروائیوں کی وجہ سے حزب اللہ کمزور ہوئی ہے۔ اسرائیل نے اس کے ہزاروں جنگجوؤں کو ہلاک کیا اور بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں کے ساتھ ساتھ لبنان کے دیگر حصوں میں بھی، جہاں اس کے حامی رہتے ہیں، بڑی تباہی مچائی۔

دوسری جانب شام میں حزب اللہ کے اتحادی بشار الاسد کی برطرفی اور وہاں ایران کا سپلائی روٹ منقطع ہونے سے بھی اس پر دباؤ بڑھا ہے۔

حزب اللہ سے قربت رکھنے والے مذہبی رہنما شیخ صادق النابلسی نے کہا کہ لبنان اور بیرون ملک مخالفین کا خیال ہے کہ اس گروپ کو شکست ہو چکی ہے لیکن جنازہ یہ پیغام دے گا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ''حزب اللہ کے وجود کو ثابت کرنے کی جنگ‘‘ ہو گی۔

جنازے کی یہ تقریب لبنان کے سب سے بڑے کھیلوں کے میدان 'اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم‘ میں ہو گی، جو حزب اللہ کے زیر کنٹرول جنوبی مضافاتی علاقے میں واقع ہے۔ اس کے بعد حسن نصراللہ کو ایک قریبی مقام پر دفن کیا جائے گا۔

ایک ایرانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی بھی جنازے میں شرکت کریں گے جبکہ عراقی شیعہ ملیشیا کے کئی رہنماؤں کی بھی شرکت متوقع ہے۔

اسرائیلی حملے میں ہلاکت کے بعد حسن نصراللہ کو عارضی طور پر ان کے بیٹے ہادی کے پاس دفن کیا گیا تھا، جو سن 1997 میں حزب اللہ کے لیے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔

ا ا / ع آ (روئٹرز، اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حسن نصراللہ حزب اللہ کے کیا جائے گا

پڑھیں:

جہادی فتویٰ غامدی، موم بتی مافیا میں صف ماتم

کشمیر سے فلسطین تک، ہنود و یہود مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں،مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کی مسجدوں ، سکولوں، کالجوں، مدرسوں، ہسپتالوں، اور گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے،56 اسلامی ملکوں کے حکمرانوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو کشمیریوں یا فلسطینیوں پہ ڈھائے جانے والے ان مظالم کو روکنے کی جرات کر سکے۔مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بزدلی نے امت مسلمہ کو یہ دن بھی دکھایا کہ یہ سارے مل کر کافروں سے مطالبے کر رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر صیہونی فوج سے فلسطینیوں اور ہندو فوج کے مظالم سے کشمیریوں کو بچائیں۔میر بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں ایسے خطرناک حالات میں اگر پاکستان کے اکابر علماء نے اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر جہاد کی فرضیت کے حوالے سے فتوی جاری کیا ہے،تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے اکابر علماء جاگ رہے ہیں،اسرائیلی دسترخوان کے جن راتب خوروں کو مولانا محمد مسعود ازہر اور دیگر مجاہدین کے جہاد پر اعتراض تھا،اب علما ء کی طرف سے حکومت پر جہاد کی فرضیت کے فتوے پر اعتراض کیوں ہے؟یہ کہنے والے کہ فتوی دینے والے علما ء کو خود جہاد میں شرکت کے لئے غزہ جانا چاہئے ،کوئی ان غامدیوں، قادیانیوں، فوادیوں اور موم بتی مافیا کے زنانوں کو بتائے کہ مولانا محمد مسعود ازہر تو خود جہاد کشمیر میں شریک ہوئے ،مقبوضہ کشمیر اور انڈیا کی جیلوں میں چھہ سال سے زائد عرصہ تک گرفتار رہے،تمہیں تو ان کا جہاد بھی ہضم نہیں ہواتھا،اگر مفتی تقی عثمانی،مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب الرحمن سمیت دیگر علماء نے مسلح جہاد کی قیادت سنبھال لی تو پھر یہودیوں کو غرقدکے درخت اور تمہیں کسی یہودی ،صلیبی سوراخ میں بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، کشمیر اور فلسطین کی۔
آزادی، جہاد مقدس کی عبادت کوتسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی دوری پر ہے،جہاد ایک اہم اسلامی فریضہ ہے جسے قرآن و حدیث میں نمایاں مقام دیا گیا ہے۔ لفظ ’’جہاد‘‘ عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’’کوشش کرنا‘‘یا ’’جدوجہد کرنا‘‘۔ اسلامی تعلیمات میں جہاد ایک جامع تصور ہے، جو نہ صرف جنگی میدان میں بلکہ روحانی، سماجی اور انفرادی سطح پر حق کے لئے جدوجہد کا احاطہ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاد کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا ہے، جہاں اسے ایمان کا ایک لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ جہاد کی مختلف اقسام ہیں، جیسے نفس کے خلاف جہاد (جہاد بالنفس)، معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد (جہاد بالعمل) اور باطل کے خلاف قتال (جہاد بالقتال)۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: -1جہاد ایمان کی علامت ہے: ’’اور جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔(سورہ العنکبوت: 69) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کو اللہ کی مدد اور رہنمائی نصیب ہوتی ہے۔-2حق و باطل کی جنگ:اور تم اللہ کے راستے میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو۔(سورہ البقرہ: 190 ) اس آیت میں جنگ کی اجازت صرف دفاع کے لئے دی گئی ہے اور ظلم و زیادتی سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔-3جہاد کی فضیلت:اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر اجر کے اعتبار سے فضیلت دی ہے۔ (سورہ النسا: 95) یہ آیت بتاتی ہے کہ جہاد میں حصہ لینے والے ایمان والوں کو عظیم مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں بھی جہاد کی فضیلت اور اہمیت بار بار بیان کی گئی ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا کہ جہاد نہ صرف دین کی سربلندی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ فرد اور معاشرے کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ -1جہاد کو ایمان کی بلند ترین شاخ قرار دیا گیا، حضرت ابو ہریرہؓؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ’’ایمان کے ستر سے زیادہ درجے ہیں، اور ان میں سب سے اعلیٰ درجہ اللہ کے راستے میں جہادہے۔‘‘ (صحیح مسلم)-2 نفس کے خلاف جہاد:نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے۔‘‘ (سنن ترمذی)اس حدیث میں روحانی جہاد کو اہمیت دی گئی ہے، جو انسان کی اصلاح کا بنیادی ذریعہ ہے۔-3شہادت کی فضیلت: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت ہے۔جہاد کی اقسام: ا سلام میں جہاد کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ اس کے جامع مفہوم کو سمجھا جا سکے۔
جہاد بالنفس:اپنے نفس کی برائیوں، خواہشات اور شیطان کے وسوسوں کے خلاف جدوجہد کرنا۔ یہ سب سے اہم اور مشکل جہاد ہے۔جہاد بالمال،اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا، جیسے فلاحی کاموں میں حصہ لینا یا ضرورت مندوں کی مدد کرنا۔جہاد باللسان:حق بات کو زبان سے بیان کرنا، برائی کے خلاف آواز بلند کرنا اور دین کی تبلیغ کرنا۔جہاد بالقتال، باطل کے خلاف جنگ کرنا، لیکن صرف ان حالات میں جب ظلم اور زیادتی حد سے بڑھ جائے اور کوئی دوسرا راستہ باقی نہ رہے۔جہاد کے اصول: قرآن و حدیث میں جہاد کے لئے کچھ اصول اور شرائط بیان کئے گئے ہیں۔-1جہاد صرف اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے، نہ کہ ذاتی مفادات کے لئے۔ -2جنگ میں عام شہریوں، بچوں، عورتوں، اور غیر جنگجو افراد کو نقصان پہنچانے کی ممانعت ہے۔-3معاہدے اور وعدے کی پابندی لازمی ہے۔-4جنگ کے دوران بھی اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ روحانی اور سماجی جہاد کی اہمیت، جہاد صرف جنگی میدان تک محدود نہیں بلکہ اس کا ایک بڑا پہلو روحانی اور سماجی اصلاح سے جڑا ہوا ہے۔روحانی جہاد: اپنے نفس کی پاکیزگی اور اخلاق کی بلندی کے لیے جدوجہد۔سماجی جہاد: ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونا اور معاشرتی بھلائی کے لیے کام کرنا۔

متعلقہ مضامین

  • جہادی فتویٰ غامدی، موم بتی مافیا میں صف ماتم
  • موساد کے 3 سابق سربراہان اور 250 سے زائد اہلکاروں کا غزہ جنگ ختم کرنے کا مطالبہ
  • موساد کے سابق سربراہان سمیت 250سابق اہلکاروں کا غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ
  • اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے 250 سے زائد سابق اہلکاروں کا غزہ جنگ بندی کا مطالبہ
  • فضل الرحمان نے پارٹی پالیسی کیخلاف مائنز اینڈ منرلز بل کی حمایت کرنیوالوں سے جواب طلب کرلیا
  • خان اور پارٹی اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں، شیر افضل مروت
  • افغانستان کا پاکستان کے دینی مدارس کے کے لئے امداد کا اعلان
  • کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ، پنجاب پولیس کے سربراہ کے ماتحت ہوگا
  • حج تیاریاں ، عمرے ویزے پر سعودی عرب میں موجود غیر ملکیوں کو واپس جانے کی ہدایت
  • شہباز حکومت کی پنشنرز پر بھی ٹیکس لگانے کی تیاریاں