ایک ایسی لڑکی کی کہانی جسے والدین نے 25 سال تک تاریک کمرے میں بند رکھا
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
بلانچ مونیئر نامی لڑکی کی کہانی ایسی ہے جو کسی شخص کا بھی انسانیت پر سے اعتماد ختم کر سکتی ہے۔
بلانچ کی کہانی مئی 1901 میں منظر عام پر آئی، جب پیرس کے اٹارنی جنرل کو 25 سال پرانے کیس کے بارے میں ایک عجیب و غریب خط موصول ہوا۔
اس کے مندرجات اٹارنی جنرل کے لیے اتنے پریشان کن تھے کہ انھوں نے فوراً تحقیقات کا آغاز کیا اور چونکا دینے والے نتائج پر پہنچے۔
یہ سب مونیئر خاندان اور ان کی بیٹی بلانچ مونیئر سے متعلق تھا جنا کی معاشرے میں بڑی عزت اور اعلیٰ مقام تھا۔
بلانچ مونیئر 1849 میں میڈم لوئیس مونیئر اور چارلس مونیئر کے ہاں پیدا ہوئی۔ والدہ میڈم لوئیس معاشرے میں اپنے خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں اور والد چارلس مونیئر مقامی آرٹس فیسیلیٹی کے انچارج تھے۔
بلانچ ایک سماجی کارکن، بہت نرم مزاج، اچھی طبیعت اور جسمانی طور پر خوبصورت لڑکی تھی جسے ایک بڑی عمر کے وکیل سے پیار ہو گیا تھا۔ اس کی اس حرکت نے اس کے والدین کو بہت ناراض کیا اور انہوں نے اس رشتے کو قبول نہیں کیا۔ بیٹی کو کئی بار سمجھایا لیکن وہ اپنی ضد پر ڈٹ گئی۔
معاشرے میں مونیئر خاندان کی شہرت کیوجہ سے بلانچ اکثر لوگوں کی نظروں میں رہتی تھی اور ایک دن اچانک وہ غائب ہو گئی جسے لوگوں نے فوراً محسوس کیا۔
جب لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھا تو والدہ نے لوگوں کو بتایا کہ بلانچ سفر پر نکلی ہوئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے لڑکی کے بارے میں سوال کرنا چھوڑ دیا اور اپنی دنیا میں مگن ہوگئے۔
لیکن پھر دو دہائی سے زائد عرصے کے بعد 1901 میں مقامی اٹارنی جنرل کو ایک گمنام خط آیا جس نے بلانچ کے ٹھکانے کی خوفناک حقیقت کو ظاہر کیا۔
خط میں لکھا تھا: محترم اٹارنی جنرل: مجھے یہ اعزاز حاصل ہورہا ہے کہ میں آپ کو ایک غیر معمولی سنگین کیس سے آگاہ کررہا ہوں۔
میں ایک غیر شادی شدہ عورت کی بات کر رہا ہوں جو مونیئر خاندان کے گھر میں بند ہے جو گزشتہ پچیس سالوں سے بھوکی ہے اور اپنی ہی غلاظت و گندگی میں زندگی گزار رہی ہے۔
خط موصول ہوتے ہی جلد ہی حکام نے گھر کی تلاشی لی۔ اگرچہ گھروالوں نے اہلکاروں کو اندر آنے کی کوششوں کی مزاحمت کی لیکن وہ بالآخر ناکام رہے۔
سیکورٹی اہلکاروں نے گھر کی تلاشی شروع کی اور محسوس کیا کہ اوپر والے دروازے سے بدبو آرہی ہے جو سختی سے بند تھا۔
پولیس دروازہ توڑ کر داخل ہوئی اور جو کچھ دیکھا اس پر یقین نہیں کر سکی۔
گھپ اندھیرے میں غلاظت کے درمیان برہنہ لڑکی بستر پر رسیوں سے بند تھی۔ سورج کی روشنی نے کمزور عورت کے ارد گرد سڑی ہوئی مچھلی، گوشت، روٹی کے ٹکڑے، پاخانوں اور کیڑے مکوڑوں کو ظاہر کیا۔
کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع تھا جب بلانچ کو کسی باہر کے لوگوں نے دیکھا تھا اور 1876 کے بعد پہلی بار اس نے سورج کی روشنی دیکھی تھی۔
سابق سماجی کارکن کے پاس اتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ بیت الخلا جا سکے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہی فضلے میں گھری ہوئی تھی۔
یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ ابھی تک زندہ تھی۔ سیکورٹی نے اس کی والدہ اور بھائی مارسل کو گرفتار کرنے کے بعد بلانچ کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا جبکہ والد کا انتقال کچھ سال پہلے ہوا تھا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بلانچ آزاد تو ہوگئی تھی لیکن بہت زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اذیت کیوجہ سے وہ کبھی بھی نارمل زندگی نہیں گزار پائی۔
اس نے اپنی باقی زندگی بوئس کے ایک طبی ادارے میں گزاری اور 1913 میں 64 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل لوگوں نے
پڑھیں:
والدین علیحدگی کے باوجود دوست تھے، وفات سے قبل والد ہی والدہ کو اسپتال لیکرگئے: بیٹی نور جہاں
پاکستان کی لیجنڈ اداکارہ و گلوکارہ نور جہاں کی بیٹی نازیہ اعجاز درانی نے والدہ کی نجی زندگی سے متعلق بات کی ہے۔حال ہی میں انہوں نے نجی ٹی وی چینل میں شرکت کی اور دوران انٹرویو والدہ کی زندگی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ والدہ 9 سال کی عمر سے اسٹار تھیں، انہوں نے بہت زیادہ شہرت اور مداحوں کی محبت دیکھی مگر وہ گھر میں ایک عام ماں کی طرح ہوتی تھیں۔نازیہ اعجاز نے کہا کہ والدہ نے ہمیشہ اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا اور کھلایا اور ہمارے سب ناز نخرے بھی اٹھائے، بڑی بہن ظِلّ ہما کی شادی کے بعد والدہ نے ہم 3 چھوٹی بہنوں کو بورڈنگ اسکول میں ڈال دیا تھا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ والدہ اور والد اعجاز درانی میں علیحدگی کے باوجود دوستانہ تعلقات تھے، بورڈنگ اسکول ہماری سالگرہ منانے کے لیے دونوں آیا کرتے تھے۔ والدہ کی وفات سے قبل جب ان کی طبیعت خراب ہوئی تو اس دوران بھی اعجاز درانی ہی والدہ کو اسپتال لے کر گئے تھے۔نازیہ اعجاز درانی نے مزید کہا کہ مجھے کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی والدہ جیسی زندگی جی رہی ہوں، میں بھی سنگل مدر ہوں، علیحدہ رہتی ہوں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال بالکل اس طرح سے کرتی ہوں جیسے نورجہاں ہماری کیا کرتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے میری عمر بڑھ رہی ہے، لوگ مجھے کہنے لگے ہیں کہ میں اپنی والدہ سے بہت زیادہ ملتی ہوں، مجھے لگتا ہے میں اپنی والدہ کی زندگی ری کری ایٹ کر رہی ہوں۔