’کینیڈا کو حاصل نہیں کیا جاسکتا‘، آئس ہاکی میں امریکا کو شکست کے بعد جسٹن ٹروڈو کا ٹرمپ کو پیغام
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ امریکا نہ ہم سے ہمارا ملک لے سکتا ہے اور نہ ہی ہم سے ہمارا کھیل چھین سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا کا کینیڈا پر قبضے کا ارادہ اٹل، ٹرمپ نے اصل وجہ بھی بتادی
امریکی شہر بوسٹن میں کھیلے گئے آئس ہاکی میچ میں امریکا کیخلاف کینیڈا کی فتح پر جسٹن ٹروڈو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ کی ہے، جس میں انہوں کینیڈا کی خودمختاری پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آپ ہمارا ملک لے سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا کھیل چھین سکتے ہیں‘۔
You can’t take our country — and you can’t take our game.
— Justin Trudeau (@JustinTrudeau) February 21, 2025
کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ا س خواہش کے جواب میں ہے جس میں انہوں نے کینیڈا کو امریکا کی ’51 ویں ریاست‘ بنانے کی بات کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کی کینیڈا پر قبضے کی باتیں حقیقت ہیں، جسٹن ٹروڈو
واضح رہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا اور اس کے وزیراعظم سے متعلق بار بار اشتعال انگیز بیانات دیے، جس میں ایک خود مختار ملک کینیڈا کو امریکا کی ’51 ویں ریاست‘ بنانے کے علاوہ جسٹن ٹروڈو کو اس ریاست کا ’گورنر‘ قرار دیا تھا۔
اس کے علاوہ ٹرمپ نے جہاں اقتصادی ایمرجنسی کے نام پر چین اور میکسیکو پر درآمدی ٹیکسز عائد کیے، وہیں پڑوسی ملک کینیڈا پر بھی 25 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی صدر کے اس اقدام کے جواب میں جسٹن ٹروڈو نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کینیڈا 106 بلین ڈالر کی امریکی درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائد کرے گا۔ انہوں کینیڈا کے شہریوں پر امریکی ٹیکس کیخلاف آواز اٹھانے پر بھی زور دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئس ہاکی امریکا ٹیکس جسٹن ٹروڈو ڈونلڈٹرمپ کینیڈاذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئس ہاکی امریکا ٹیکس جسٹن ٹروڈو ڈونلڈٹرمپ کینیڈا جسٹن ٹروڈو
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ کا مشترکہ مقاصدکے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان
اسلام آباد:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں امریکی ناظم الامور نتالی بیکر نے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کا پیغام پہنچایا ۔ صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد موجودہ حکومت سے ان کی انتظامیہ کا یہ پہلا رابطہ ہے۔
وزیر اعظم آفس سے اس ضمن میں جاری ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا ہے کہ پاک امریکا تعاون کی تاریخ عشروں پر محیط ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں ملکوں کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بڑی خواہش رکھتے ہیں۔
اس ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں جن میں آئی ٹی، زراعت ، صحت، تعلیم اور انرجی کے علاوہ باہمی دلچسپی کے دیگر معاملات میں تعاون کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم نے اس ملاقات میں انسداد دہشتگردی خاص طور پر داعش اور فتنہ الخوارج کے خاتمے کے لیے بھی قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق امریکی ناظم الامور نے ملاقات پر وزیر اعظم شہباز شریف کا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ ان کا ملک مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔
پاکستان جو کبھی امریکا کا قریبی اتحادی تھا کچھ عرصے سے امریکا کی ترجیح نہیں رہا تھا، صدر ٹرمپ نے بھی اقتدار سنبھالنے کے چند دنوں کے اندر ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطہ کر کے انہیں دورے کی دعوت تھی ۔دوسری طرف پاکستانی وزیر اعظم سے فون پر رابطہ بھی نہیں کیا تھا۔
اب امریکی ناظم الامور کی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات سے لگتا ہے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے وگرنہ وزیر اعظم یوں کسی ملک کے ناظم الامور سے کم ہی ملتے ہیں۔
اگر چہ پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ چلنے کی خواہش کا پہلے بھی اظہار کر چکا ہے ، تاہم اسے نئی امریکی حکومت کی بعض پالیسیوں سے اختلاف تھا، خاص طور پر پاکستان افغان مہاجرین کی آباد کاری کے پروگرام کو معطل کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی پر تشویش میں مبتلا ہے۔
صدر بائیڈن کی سابق انتظامیہ افغان جنگ کے دوران امریکا سے تعاون کرنے والے ہزاروں افغانوں کو لینے پر آمادہ تھی، یہ افغان اس وقت پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان افغانوں کی امریکا منتقلی کا عمل سست روی کا شکار ہے ۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکا 2025ء تک ان افغانوں کو اپنے ملک منتقل کر دے گا، لیکن صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کم از کم 90 دنوں کے لیے ان افغانوں کی امریکا منتقلی کے پروگرام کو روک دیا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا ان تقریباً 25 ہزار افغانوں کی امریکا منتقلی کے عمل کو تیز کرے۔
وزیر اعظم آفس کی طرف سے جاری بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکی ناظم الامور کی اس ملاقات میں ان افغانوں کی امریکا منتقلی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے یا نہیں، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی اس ملاقات کا حصہ تھی۔ اس وقت امریکی انتظامیہ نے نہ صرف پاکستان میں پھنسے ہوئے افغانوں کی اپنے ملک منتقلی روک رکھی ہے بلکہ بیرونی امداد بھی بند کر دی ہے ۔ لہذاپاکستان میں امریکی سفارتخانے کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ ان افغانوں کے اخراجات برداشت کر سکے۔