بھارت کے مقابلے میں پاکستانی گوشت کی اہمیت، انڈونیشیا کا بڑا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
بھارت کے مقابلے میں پاکستانی گوشت کی اہمیت، انڈونیشیا کا بڑا فیصلہ WhatsAppFacebookTwitter 0 21 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز )انڈونیشیا نے پاکستانی گوشت کو عالمی مارکیٹ میں تسلیم کرتے ہوئے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے کم قیمت گوشت کو ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔انڈونیشیا نے پاکستان سے ایک لاکھ میٹرک ٹن بھینس کا گوشت درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نیشنل فوڈ ایجنسی انڈونیشیا کے سربراہ نے پاکستانی گوشت کی خریداری کی تصدیق کر دی۔
رواں سال انڈونیشیا کا ایک لاکھ 80ہزار میٹرک ٹن بیف اور ایک لاکھ میٹرک ٹن بھینس کے گوشت کی درآمد کا ہدف ہے۔بھارت کے بعد انڈونیشیا کے لیے پاکستانی گوشت کی بدولت برآمدات میں اضافہ ہوگا، کم قیمت پر دستیابی نے پاکستان کو انڈونیشیا کی پہلی ترجیح بنا دیا ہے۔گوشت کی برآمد سے پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر میں اضافہ متوقع ہے جبکہ پاکستانی گوشت کی برآمد سے ملکی معیشت کو فروغ بھی ملے گا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پاکستانی گوشت کی بھارت کے
پڑھیں:
بھارت کو عالمی مارکیٹ میں شکست، باسمتی چاول پاکستانی پراڈکٹ قرار
عالمی سطح پر بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور دنیا نے مان لیا ہے کہ باسمتی چاول پاکستانی علاقے کی پراڈکٹ ہے۔نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے باسمتی چاول کو پاکستانی پراڈکٹ قرار دیا ہے جبکہ توقع کی جارہی ہے کہ یورپی یونین سے بھی فیصلہ پاکستان کے حق میں آ سکتا ہے.بھارت نے باسمتی چاول کو بھارتی پراڈکٹ قرار دینے کی کوشش کی. تاکہ پاکستان کو نقصان پہنچ سکے لیکن معروف تاجروں نے اس حوالے سے بھارتی دعوے کو مسترد کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی تاجر شمس الاسلام نے تاریخ سے ثابت کیا ہے کہ باسمتی چاول پاکستان کے ضلع حافظ آباد کی پیداوار ہے۔پاکستان سے باسمتی چاول کی برآمد اب بڑھ کر 4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، ملک کے بازاروں میں بھی عمدہ اور خوشبودار چاول مناسب قیمت پر دستیاب ہے۔باسمتی کی عالمی مارکیٹ 27 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع پر بھارت کی جانب سے پاکستانی مارکیٹ پر قبضے کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔چاول کے برآمد کنندہ چوہدری تنویر نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان سے باسمتی چاول دبئی جاتا ہے. جہاں سے بھارت اسے اپنا برانڈ بنا کر آگے دے دیتا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 1965 سے قبل بھارت سے باسمتی چاول کا ایک دانہ بھی برآمد نہیں کیا گیا، جبکہ پاکستان 1960 میں یورپ اور خلیجی ممالک سمیت دیگر ملکوں کو باسمتی چاول برآمد کرتا تھا۔تاجر شمس الاسلام نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے حق ملکیت کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان باسمتی چاول کا مسئلہ یورپی یونین میں تاخیر کا شکار ہے. تاہم اس کے باوجود حقوق ملکیت دانش کا قانون اصل تخلیق کار کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
۔