لاہور میں 50 فیصد رکشہ ڈرائیورز کے پاس لائسنس نہ ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
لاہور میں 50 فیصد رکشہ ڈرائیورز کے پاس لائسنس نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس شاہد کریم نے اسموگ تدارک سے متعلق ہارون فاروق سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ وہ اکثر دھواں چھوڑتی گاڑیاں دیکھتے ہیں مگر ٹریفک پولیس کے افسران انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی تصاویر لے کر جوڈیشل کمیشن کو بھیجی جا سکتی ہیں تاکہ کارروائی کی جا سکے۔
چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) لاہور نے عدالت میں پیش ہوکر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں، بھکاری مافیا، رکشہ ڈرائیورز اور سڑکوں پر بڑھتی ہوئی گاڑیوں سے متعلق تفصیلات پیش کیں۔
سی ٹی او لاہور نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سال ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر 4 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹریفک سگنلز پر بھکاری مافیا کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ساتھ مل کر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھیک سے متعلق قانون بہت پرانا ہے اور اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 50 فیصد رکشہ ڈرائیورز کے پاس لائسنس نہیں ہے، تاہم ان کے لائسنس کے حصول کے لیے اتوار کا دن مختص کر دیا گیا ہے۔ رکشہ یونینز کو تجویز دی گئی ہے کہ رکشہ ڈرائیورز کے لیے ایک مخصوص یونیفارم مقرر کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ انار کلی میں ٹریفک کے مسائل کے حل کے لیے بھی کام کیا گیا ہے اور وہاں پارکنگ کے لیے ایک جگہ مختص کر دی گئی ہے۔ سی ٹی او نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ایک ماہ میں لاہور کی بارہ بڑی مارکیٹوں میں ٹریفک کے مسائل حل کر دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ موٹر سائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے اور اب موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کے لیے ہیلمٹ پہننا ضروری ہوگا۔ اس پر جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ بائیک پر ایک شخص تو ہیلمٹ پہنتا ہے لیکن باقی لوگ، خاص طور پر پیچھے بیٹھی خواتین اور بچے بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے ہوتے ہیں، کیا ان کی زندگی قیمتی نہیں؟۔
سی ٹی او لاہور نے کہا کہ لاہور ٹریفک پولیس کے ڈھانچے میں تبدیلی کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور اسے سٹی اور صدر کے دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کے لیے 10 ہزار روپے رسک الاؤنس مقرر کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کی نوکری سخت نوعیت کی ہے۔
سی ٹی او لاہور نے عدالت کو بتایا کہ وہ ٹریفک قوانین کی پاسداری کرنے والے شہریوں کو "لا آبائیڈنگ سیٹیزن" کا ایوارڈ دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں کے ساتھ ایم او یوز کیے جائیں گے تاکہ طلبہ بھی اس مہم میں شامل ہو سکیں۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب ٹریفک کی ذمہ داری ریلوے پولیس کے پاس ہے اور اس حوالے سے آئی جی ریلوے کو تعاون کے لیے خط بھی لکھا گیا ہے۔ اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ اگر ریلوے پولیس تعاون نہیں کر رہی تو ہمیں معلومات دیں، ہم ہدایات جاری کر دیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس شاہد کریم نے رکشہ ڈرائیورز کے نے عدالت کو نے کہا کہ لاہور نے انہوں نے پولیس کے سی ٹی او گیا ہے کے لیے کے پاس اور اس ہے اور
پڑھیں:
پانی کے ضیاع پر جمعہ کے خطبات میں آگاہی دینے کا سرکلر لاہور ہائیکورٹ میں پیش
لاہور:لاہور ہائیکورٹ میں اسموگ کے تدارک سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے مختلف محکموں سے رپورٹس طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 16 اپریل تک ملتوی کردی۔
جسٹس شاہد کریم نے درخواست گزار ہارون فاروق سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔ محکمہ اوقاف کی جانب سے پانی کے ضیاع کے بارے میں جمعہ کے خطبے میں آگاہی دینے کا سرکلر عدالت میں پیش کیا گیا۔
محکمہ ماحولیات کی جانب سے نئے سروس اسٹیشنز پر پابندی کے نوٹیفکیشن پر عدالت نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات قابلِ تعریف ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
عدالت نے گاڑیوں کو پانی کے پائپ کے ذریعے دھونے اور اس عمل کی سیف سٹی کے ذریعے مانیٹرنگ کو بھی قابلِ تعریف قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ پانی کے ضیاع سے متعلق لوگوں کو گھروں پر آگاہی دینا نہایت ضروری ہے۔
ایل ڈی اے نے ایتھلیٹس کے لیے اسپورٹس فیسیلٹیز مفت کرنے کا نوٹیفکیشن اور ٹولنٹن مارکیٹ کی تعمیر نو سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔ عدالت نے ایم سی ایل اور ایل ڈی اے کو ہدایت کی کہ ری سائیکلنگ پلان کے بغیر گھروں کے نقشے منظور نہ کیے جائیں۔
عدالت نے فیکٹریوں کے ویسٹ واٹر کو ٹریٹمنٹ کے بعد پی ایچ اے کو فراہم کرنے کے اقدامات کرنے کی تجویز دی۔ ایل ڈی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اگر کہیں کمرشل سرگرمی کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو ان کے افسران تصاویر کھینچ کر ایپلیکیشن میں اپلوڈ کر دیتے ہیں، جس سے بروقت آگاہی ہو جاتی ہے۔
ماحولیاتی کمیشن کی جانب سے عمل درآمد رپورٹس بھی عدالت میں پیش کی گئیں۔