پشاور کے ارباب اسٹیڈیم کا نام عمران خان کے نام پر رکھنے پر بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
پشاور کے تاریخی ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرکے ’’عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم‘‘ رکھا جارہا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے شاہی باغ میں واقع اس اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے کی منظوری دے دی ہے، جسے صوبائی کابینہ جمعہ کے اجلاس میں حتمی شکل دے گی۔
پشاور کے تاریخی کرکٹ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کر کے سربراہ پی ٹی آئی کے نام پر رکھے جانے کے فیصلے کے بعد ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ اور اس فیصلے کی ارباب نیاز کے خاندان اور دیگر حلقوں کی طرف سے سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔
ارباب نیاز کے صاحبزادے ارباب شہزاد نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ ارباب شہزاد سابق چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا اور سابق مشیر عمران خان بھی رہ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام ایک ناکام کوشش ہے جس کا مقصد عمران خان کو خوش کرنا ہے۔ ان کے مطابق، ان کے والد ارباب نیاز کی خدمات کے اعتراف میں پشاور میونسپل کمیٹی نے ان کی وفات کے بعد ایک قرارداد کے ذریعے اسٹیڈیم کا نام رکھا تھا۔
ارباب شہزاد نے سوال اٹھایا کہ کیا صوبائی حکومت نے عمران خان سے اس فیصلے کی اجازت لی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ عمران خان ہمیشہ زندہ افراد کے نام پر سڑکوں یا عمارتوں کے نام رکھنے کے سخت مخالف رہے ہیں۔
ارباب نے 2013 میں صوبائی کابینہ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی ہدایات کے مطابق، کسی بھی زندہ شخص کے نام پر کوئی عمارت یا سڑک منسوب نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسٹیڈیم کا نام تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں اس تنازعے کے درمیان، غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پی ایس ایل (پاکستان سپر لیگ) کے میچز پشاور میں نہیں کھیلے جائیں گے، کیونکہ فرنچائزز نے شہر میں کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں ابھی کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ خبریں اسٹیڈیم کے نام تبدیل کرنے کے فیصلے کو مزید متنازعہ بنا رہی ہیں۔
ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ نہ صرف سیاسی بلکہ تاریخی اور سماجی حلقوں میں بھی بحث کا باعث بنا ہوا ہے۔ ارباب نیاز کے خاندان کی طرف سے کی گئی مخالفت اور عمران خان کے اصولوں کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ صوبائی حکومت اس تنازعے کو کیسے حل کرتی ہے اور کیا پی ایس ایل میچز پشاور میں کھیلے جائیں گے یا نہیں؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسٹیڈیم کا نام تبدیل کر کرکٹ اسٹیڈیم ارباب نیاز کے نام پر
پڑھیں:
بروقت اور دلیرانہ فیصلے کامیابی کی کلید ہیں
گزشتہ ایک تحریر میں آپ کو مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیا نڈال کے بارے میں بتایا تھا کہ کیسے ستیا کے فیصلوں نے مائیکروسافٹ کو نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا بلکہ اُسے 3 کھرب ڈالر سے بڑی ایمپائر بھی بنا دیا تھا۔ آج ہم یہ دیکھیں گے مائیکرو سافٹ ونڈوز کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس کہانی میں کچھ اسباق بھی موجود ہیں۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: وژن اور کامیابی
آج سے کوئی 50 سال پہلے مائیکرو سافٹ اور ایپل دوست تھے۔ بل گیٹس اور اسٹیو جابز کی دوستی مثالی ہی کہی جاسکتی ہے کیونکہ دونوں شام کا وقت ایک ساتھ گزارتے تھے اور نت نئے آئیڈیاز پر کام کرتے تھے۔ اُس وقت یہ دونوں کمپنیاں گیراج کی حد تک محدود تھیں۔ دونوں کی ترقی کا سفر شروع ہوگیا اور دونوں ہی گیراج سے نکل کے کارپوریٹ آفسز تک پہنچ گئے۔
اُس وقت ایپل پرسنل کمپیوٹر بنانے کی تگ و دو میں تھا اور جابز کا خیال تھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو وہ دنیا میں انقلاب برپا کردے گا۔ جابز کا یہ خیال غلط بھی نہیں تھا۔ اس وقت مائیکرو سافٹ اپنے کلائنٹس کےلیے مختلف سافٹ ویئرز تیار کرتا تھا اور بل گیٹس ایسے سافٹ ویئر بنانے میں کامیاب ہوچکا تھا جو اُس وقت مختلف ڈیوائسز پر کامیابی سے چل سکتے تھے۔
اس وقت میں جابز نے یہ سمجھ لیا تھا کہ کمپیوٹر کا مستقبل کمانڈ کی بنیاد پر سافٹ وئیر کو چلانا نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ نہ صرف بورنگ کام تھا بلکہ اس میں کوئی خاص مستقبل بھی نہیں تھا۔ جابز کا خیال تھا کہ کمپیوٹر کا کام دلچسپ ہونا چاہیے کہ انسان اس کام کو خوشی خوشی کرے اور اس میں اپنا وقت بھی لگائے۔ اسی لیے جابز ایک ایسا سافٹ ویئر بنا رہا تھا جس میں ایک الگ ہی دنیا ہوتی۔ وہاں صرف کمانڈ کی بنیاد پر کام نہ ہوتا۔ اس میں خوبصورت گرافکس ہوتے، اس میں آئیکنز ہوتے، اس میں فولڈرز ہوتے۔ یہ جابز کا ہی خیال تھا کہ ایک سی ای او کا پورا دفتر اُس کی الماریاں، اس کے فولڈرز، اس کی دستاویزات، اس کے حسابات وغیرہ سب کچھ ایک ایسے ڈبے نما مشین میں سمانا چاہیے کہ اگر وہ جگہ بدل بھی لے تو بھی اس کا کام اُس کے ساتھ رہے۔ جابز کے آئیڈیے کی مشین کا نام میکنٹوش تھا۔
بل گیٹس اور اس کی ٹیم اُس وقت جابز کے ساتھ اس کے میکنٹوش کےلیے کام کر رہی تھی۔ بل گیٹس اس کےلیے سافٹ ویئر تیار کر رہا تھا۔ اسی لیے مائیکروسافٹ کی ٹیم کی رسائی ایپل کے تمام ہی ذرائع اور اثاثہ جات تک تھی۔ جابز کے مطابق اُس نے بل گیٹس پر تب اندھا اعتماد کیا تھا۔ اُس نے دوستوں کی طرح بل گیٹس کو ساتھ رکھا تھا۔ اپنے تمام راز اس کے ساتھ ڈسکس کیے تھے اور اُس کو لگتا تھا کہ بل گیٹس اور جابز مل کر دنیا میں انقلاب برپا کردیں گے اور چونکہ اُن کے سامنے کوئی مقابلہ نہیں ہوگا تو اُن کےلیے دنوں میں کروڑ پتی ہونا بھی مسئلہ نہیں ہوگا۔
بل گیٹس کی پلاننگ ایسی نہیں تھی۔ اس سے پہلے کہ ایپل مارکیٹ میں اپنا میکنٹوش متعارف کرواتا، مائیکرو سافٹ نے ونڈوز کے نام پر ایک نیا سافٹ ویئر مارکیٹ میں لانچ کردیا۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ اس کو مختلف مشینوں میں کامیابی سے چلایا جاسکتا تھا۔ یعنی، اس سارے عرصے میں بل گیٹس نے خاموشی اور راز داری سے ونڈوز پر کام کیا تھا۔ میکنٹوش کے ہی آئیڈیا پر ونڈوز مارکیٹ میں آچکی تھی۔ دلچسپ گرافکس اور فولڈرز!
اس بات نے جابز کا دماغ گھما دیا۔ بل گیٹس نے عملی طور پر ایپل کو مارکیٹ سے آؤٹ کردیا تھا۔ اگر دوسری طرف سے دیکھیں تو بل گیٹس نے ایپل کو تباہ ہی کردیا تھا۔ اسٹیو جابز نے بل گیٹس کو چور کا لقب تک دیا، اس کو دھوکے باز اور غدار بھی کہا کہ بل گیٹس نے انتہائی سرد لہجے میں صرف اتنا کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جابز، ہم دونوں کا ہمسایہ ایک امیر انسان تھا زی راکس کے نام سے، میں تم سے پہلے اُس کے گھر میں داخل ہوا اور اُس کا ٹی وی لے اُڑا۔ تمہیں تھوڑا سا تیز ہونا چاہیے تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ زی راکس نے دنیا میں سب سے پہلے دلچسپ اور گرافکس کی بنیاد پر چلنے والا یوزر انٹرفیس بنایا تھا۔ ان کا سافٹ ویئر اور سسٹم البتہ پیچیدہ تھا کہ اس کو عام انسان استعمال نہیں کرسکتے تھے، اس کو صرف سافٹ ویئر انجینئرز ہی استعمال کرسکتے تھے۔ اسٹیو جابز نے میکنٹوش کو بنانے کا اصل آئیڈیا لیا ہی وہاں سے تھا۔ یہ بات بل گیٹس کے علم میں بھی تھی۔ جابز کی غلطی یہ تھی کہ اس نے کاروباری دوستی کو ذاتی دوستی سمجھ لیا تھا جبکہ کاروبار میں کوئی بھی تعلق ذاتی نہیں ہوتا ہے۔ بل گیٹس نے اسٹیو جابز سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے نہ صرف ایسا آپریٹنگ سسٹم بنا لیا جو استعمال کرنے میں آسان تھا اور ہر کوئی استعمال کرسکتا تھا بلکہ اُس نے مزید ایک قدم آگے جاتے ہوئے اس کو سارے سسٹمز کےلیے اوپن رکھا۔
ونڈوز راتوں رات ہی کامیاب ہوگئی۔ دنیا کے ہر پرسنل کمپیوٹر منیوفیکچر نے ونڈوز کو خریدا، حتیٰ کہ 90 کی دہائی کے اوائل میں یہ وقت آگیا کہ دنیا بھر میں ونڈوز ہی مقبول ترین آپریٹنگ سسٹم تھا اور اس کے مقابل اس سے بہت پیچھے تھے۔ اس وقت ایپل صرف تگ و دو کررہا تھا۔ ایپل کا میک او ایس صرف ایپل کے ہارڈ ویئر ڈیزائن سسٹم میں چل سکتا تھا۔ اس کے مقابلے میں مائیکرو سافٹ کے اوپن ماڈل نے پوری دنیا کےلیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے ایپل کا مارکیٹ شیئر اُس وقت دو فیصد سے بھی کم تھا۔
1997 میں وہ وقت آگیا کہ ایپل دیوالیہ ہونے کے نزدیک پہنچ گیا۔ اس سے قبل ایپل کا بورڈ اسٹیو جابز کو فارغ کرچکا تھا اور کمپنی اس وقت کسی اور کے ہاتھ میں تھی۔ جابز کا وقت فارغ گزرتا تھا اور وہ اس دوران میں نت نئے آئیڈیاز پر کام کرتا رہتا تھا۔ جب کمپنی بالکل ہی دیوار سے لگ گئی تو وہی بورڈ اسٹیو جابز کو واپس لے آیا۔
اسٹیو جابز نے اس وقت وہ فیصلہ کیا کہ ایپل کا بورڈ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور دنیا حیران ہوگئی۔ اسٹیو جابز نے اپنے سب سے بڑے کاروباری مخالف بل گیٹس کو فون کیا۔ اُس نے بل گیٹس کو کہا کہ میری کمپنی ایپل دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اگر ایپل دیوالیہ کرگئی تو مارکیٹ سے مسابقت ختم ہوجائے گی۔ اس کا مطلب تم سمجھ سکتے ہو۔ مجھے 228 ملین ڈالرز چاہئیں۔ بل گیٹس اور اسٹیو جابز نے باہمی گفت و شنید کے بعد 150 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کرلیا۔
اس وقت مائیکرو سافٹ 148 ارب کی ایمپائر تھی اور ایپل صرف 3 ارب ڈالرز تک پہنچا تھا۔ بل گیٹس نے اس سودے کے مذاکرات میں ایپل کو اس بات کا پابند بھی کیا تھا کہ وہ مائیکروسافٹ آفس کو میک کے آپریٹنگ سسٹم کےلیے قابل قبول اور دستیاب بنائیں گے۔ اس بات پر ایپل کے محبین نے انتہائی غصے کا اظہار کیا لیکن اسٹیو جابز جانتا تھا کہ ایسی صورتحال میں اگر بینک کے پاس گئے تو شرح سود اور کڑی شرائط کی وجہ سے کمپنی شاید بچ جائے گی لیکن کمپنی ترقی کبھی نہیں کرسکے گی ا ور اگر یہ خلا پیدا ہوگیا تو اب دنیا اس کو پُر کرنے کےلیے تیار ہے۔
اس ڈیل سے ایپل کو صرف لائف لائن ہی نہیں ملی بلکہ کمپنی بھی ترقی کے راستے پر چل پڑی۔ اسٹیو جابز نے اس کے بعد 2001 میں آئی پاڈ کو متعارف کروایا، یہ گیم چینجر ثابت ہوا۔ اس نے مائیکرو سافٹ اور ایپل کے کاروباری راستے متعین کردیے۔ مائیکروسافٹ کا فوکس پرسنل کمپیوٹنگ میں تھا جبکہ اسٹیو جابز ایک بالکل نئی مارکیٹ میں داخل ہوگیا تھا۔ اس کے بعد آئی فون نے تو دنیا ہی بدل کر رکھ دی تھی۔ اگرچہ تب بلیک بیری اور نوکیا کا راج تھا لیکن آئی فون کی ایجاد نے دنیا کو حقیقی معنوں میں اسمارٹ فونز دیے تھے۔ اس کے بعد آئی پیڈ متعارف ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایپل نے اسمارٹ فونز کی سائیڈ پر مارکیٹ پر راج کرنا شروع کردیا۔
ایسا نہیں ہے کہ مائیکروسافٹ فونز کی مارکیٹ میں داخل نہیں ہوا۔ اس نے نوکیا کو خریدا تھا، اس نے ونڈوز فون بھی متعارف کروایا تھا لیکن اس میں کچھ بھی انوکھا اور دلچسپ نہیں تھا اور اب جابز کے آئیڈیاز بھی گیٹس کی مدد کےلیے دستیاب نہیں تھے، لہٰذا مائیکرو سافٹ فونز کی مارکیٹ میں اربوں ڈالرز لگا کر بھی ناکام ہوگیا۔ دنیا تیزی سے بدل رہی تھی اور مائیکرو سافٹ اب دوڑ میں آہستہ آہستہ سلو ڈاؤن ہو رہا تھا۔
اسٹیو جابز کے 1997 میں کیے گئے ایک دلیرانہ فیصلے نے نہ صرف کمپنی کو بچا لیا تھا بلکہ صرف اگلے دس سال میں اس کو ایک نیا مارکیٹ لیڈر بنا دیا تھا۔
آپ کی زندگی میں چند فیصلے ہی ایسے ہوتے ہیں جو آپ کی پوری زندگی کا احاطہ کرسکتے ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ناکامی یہ نہیں کہ آپ ناکام ہوگئے، ناکامی اصل میں یہ ہے کہ آپ نے گرنے کے بعد اٹھنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ نے ایک نیا آغاز نہیں کیا۔ آپ نے دلیرانہ فیصلے نہیں لیے۔ آپ نے دوبارہ سے چلنا اور دوڑنا شروع نہیں کیا۔ تو بتائیے، آپ کب سے دوبارہ شروع کررہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔