Daily Ausaf:
2025-02-22@05:27:18 GMT

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی،عالمی احتجاج اورتنقید

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
یادرہے کہ امریکی صدرنے کینیڈااور میکسیکو سے درآمدات پر25 فیصداورچین سے درآمدات پر10 فیصداضافی ٹیرف لاگوکرنے کے حکم نامے پر دستخط کردئیے ہیں۔امریکی صدرکا کہناہے کہ ان محصولات کو ’’غیرقانونی غیرملکیوں اورمہلک منشیات کے بڑے خطرے کی وجہ سے نافذکیاہے، جس میں فینٹانل بھی شامل ہے‘‘۔میکسیکونے بھی اس اقدام پراحتجاج کیاہے اورممکنہ طورپرجوابی تجارتی اقدامات اٹھانے کاعندیہ دیاہے۔میکسیکوکی صدرکلاڈیا شین بام نے کہاہے کہ امریکاکی جانب سے میکسیکوکی تمام درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائدکرنے کے اعلان کے بعدوہ امریکا پرمحصولات سمیت دیگرجوابی اقدامات متعارف کرائیں گے۔انہوں نے وزیراقتصادیات کوہدایت کی ہے کہ وہ ’’پلان بی‘‘ پرعمل درآمدکریں،جس میں میکسیکوکے مفادات کے دفاع کے لئے ٹیرف اورنان ٹیرف اقدامات شامل ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کاکہناہے کہ یہ فیصلہ چین، کینیڈا اورمیکسیکوکوامریکامیں زہریلی ادویات کی اسمگلنگ روکنے کے وعدوں پرعمل درآمدکے لئے جوابدہ ٹھہرانے کے لئے کیاگیاہے۔تاہم، ناقدین کے مطابق،یہ اقدام دراصل امریکی معیشت کوتحفظ دینے اورملکی صنعتوں کوفروغ دینے کے لئے کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ،اس پالیسی سے امریکا کی اندرونی سیاست پربھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، خاص طورپران ریاستوں میں جہاں صنعتیں درآمدات پرمنحصرہیں۔
ٹرمپ کے اس اعلان کے بعدکہ’’غیرقانونی تارکینِ وطن کوگوانتاناموبے کیمپ میں بھیج دیا جائے‘‘ اس حکم نامے کے جاری ہونے کے بعدجہاں غیرقانونی تارکینِ وطن میں سخت تشویش اوراضطراب پیدا ہو گیا ہے وہاں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی انسانی ہمدردیوں کی بناپراسے مؤخرکرنے کامشورہ دیاہے۔ یادرہے کہ اس فیصلے کے بعداب تک 8 ہزارسے زائد افرادامریکاچھوڑ چکے ہیں،جس کے نتیجے میں سستی لیبرکی قلت پیداہوگئی ہے۔اس قلت کے باعث امریکی صنعتوں،خصوصازرعی اورتعمیراتی شعبے میں مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔مزدوروں کی کمی کے باعث امریکی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوسکتا ہے، جس سے کاروباروں پردبا بڑھے گا۔امریکی عوام کی قوت خرید پر بھی برااثر پڑے گااوریہ بھی عین ممکن ہے کہ مہنگائی کا دور جرائم میں بھی اضافہ کردے،اس لئے کسی بھی طورپرعجلت کامظاہرہ کرنے کی بجائے ان غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی طورپر معافی دیکرامریکی ٹیکس گاروں میں اضافہ کرکے ملکی معیشت کوسنبھالادیاجائے۔
امریکااورہالینڈنے پاکستان میں قائم ایک بڑے سائبرکرائم نیٹ ورک کوختم کرنے کادعویٰ کیا ہے۔ اس نیٹ ورک کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی امدادسے چلنے والے درجنوں پروگرامزکوبھی بندکرنے کاحکم دیا گیا ہے۔اس اقدام کے پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت پر کیا منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اورہم ان منفی اثرات سے بچنے کے لئے کیامؤثراقدامات اٹھاسکتے ہیں،ایک مفصل مضمون اس کے لئے درکارہوگالیکن صرف چند اشارئیے عرض کئے دیتاہوں۔
جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ڈیجیٹل معیشت کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کرداراداکرتی ہے اور پاکستان میں بھی اس شعبے کی ترقی پرخصوصی توجہ دی جارہی ہے۔تاہم سائبر سکیورٹی کے مسائل سے بھی ہم دوچارہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارے ملک میں سوشل میڈیاکے غلط استعمال نے سیاسی انارکی میں بے حد اضافہ کردیاہے،اس کے تدارک کے لئے موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی جیسے عوامل پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت پرمنفی اثرات ڈال رہے ہیں۔پاکستانی آئی ٹی سیکٹر کے کاروباری نقصانات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے اورآئی ٹی سیکٹرجوکسی بھی ترقی یافتہ مملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصورکی جاتی ہے، پاکستان میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی یہ صنعت کاسانس بندہوتا دکھائی دے رہا ہے اوربیرونِ ملک سے حاصل کردہ پراجیکٹس کو بروقت مکمل کرنے کے لئے پریشان ہیں۔ یقیناان تمام مشکلات اورڈیجیٹل جرائم سے نمٹنے کے لئے نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس کے لئے کئی مرتبہ ان صفحات پرطریقہ کارپر بھی بحث کرچکاہوں۔
اگرآپ کویادہوتوٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں میں نیٹوسے علیحدگی کاامکان ظاہرکیاگیاتھا۔یقیناٹرمپ انتطامیہ اس سے بھی واقف ہوگی کہ اگرامریکانیٹوسے لاتعلق ہوجاتاہے تواس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ نیٹومیں امریکاکی شمولیت کا بنیادی مقصدیورپی اتحادیوں کوتحفظ فراہم کرنا ہے۔ علیحدگی سے یورپی یونین کے دفاعی نظام پردبابڑھے گا۔نیٹوکی کمزوری کا براہ راست فائدہ روس کوہو سکتا ہے،خاص طورپر یوکرین جنگ میں اس کی پوزیشن مزید مضبوط ہوسکتی ہے۔گرین لینڈکے معاملے پرامریکااور ڈنمارک کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔نیٹوکے دیگر ممبران ڈنمارک کے ساتھ کھڑے ہوں گے،جس سے امریکاکے لئے سفارتی مسائل پیداہوسکتے ہیں۔
یوکرین پرروسی حملے کے بعدامریکانیٹوکے ساتھ مل کریوکرین کی بھرپورمددکررہاہے تاہم، ٹرمپ انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ ممکنہ پالیسیاں اس خطے میں جنگ کی بجائے معاشی پابندیوں سے یوکرین میں ہوتی ہوئی شکست اورروس کے بڑھتے اقدام کو روکاجا سکتا ہے۔ ٹرمپ نیٹوپر انحصارکم کرنے کے نظریے پریقین رکھتے ہیں جس کے باعث یوکرین کے لئے امریکی امدادمیں کمی آ سکتی ہے۔ٹرمپ کی خارجہ پالیسی زیادہ ترمعاشی وتجارتی تعلقات پرمرکوزہوسکتی ہے، جس کے نتیجے میں روس کے ساتھ مذاکرات اور ممکنہ معاہدے کاامکان بڑھ سکتا ہے۔امریکاکی ممکنہ پسپائی سے یورپ کواپنی دفاعی حکمت عملی پرنظرثانی کرنی پڑے گی،جس سے نیٹوکے اندرتناؤپیداہوسکتاہے۔
ٹرمپ کے غزہ کے بارے میں بیانات نے عرب ممالک میں تشویش پیداکردی ہے۔ان کے سابقہ دورمیں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی اسرائیل نوازرہی ہے،جس کے دوبارہ ممکنہ اطلاق سے خطہ دوبارہ بدامنی کی طرف لوٹ سکتاہے جس کے پہلے سے کہیں زیادہ مضر اثرات ہوسکتے ہیں۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات، اردن، مصرکے علاوہ دیگر خلیجی ممالک امریکی پالیسی سے مزیددورہوسکتے ہیں۔اگرامریکااسرائیل کی مکمل حمایت جاری رکھتاہے،توفلسطین کی صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں ایران اورامریکا کے تعلقات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں،جس کے نتیجے میں خطے میں عدم استحکام بڑھے گا۔آئندہ آنے والے وقت میں اسی خطے میں اسرائیل کی ترکی کے مخاصمت میں اضافہ ہوسکتاہے جو یقینا ٹرمپ کے لئے ایک بڑاچیلنج ثابت ہو سکتاہے۔
امریکی تجارتی پالیسیاں،امیگریشن اصلاحات، اورسائبرکرائم کے خلاف اقدامات عالمی سیاست اور معیشت میں اہمیت رکھتے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ پالیسیاں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے بنائی گئی ہیں،وہیں دوسری طرف ان کے عالمی سطح پرشدیدردعمل دیکھنے میں آرہاہے۔ان پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات کاجائزہ لینا ضروری ہوگاتاکہ ان کے ممکنہ مثبت اورمنفی نتائج کوبہتر طریقے سے سمجھاجاسکے۔ان پالیسیوں کا اثر صرف امریکاپرہی نہیں بلکہ عالمی معیشت پربھی پڑے گااوران کے تحت مختلف ممالک کونئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔
امریکی خارجہ ودفاعی پالیسی میں ممکنہ تبدیلیاں عالمی سطح پراثراندازہوسکتی ہیں۔ نیٹوسے علیحدگی، یوکرین میں امریکی کردار میں کمی،اورمشرق وسطیٰ میں اسرائیل نوازپالیسی کے نتیجے میں امریکاکے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔ان پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات عالمی سفارتی،اقتصادی، اور سیکیورٹی صورتحال پرگہرے نقوش چھوڑسکتے ہیں جس کابہرحال سب سے پہلے امریکی اتحادی شکارہوں گے کیونکہ گزشتہ صدی سے امریکاکی یہ تاریخی روایت ہے کہ دوستوں کومفادکے لئے استعمال کرنے کے بعدان کی فوری قربانی ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے نتیجے میں پاکستان میں ہوسکتے ہیں درآمدات پر کرنے کے کے ساتھ ہیں جس ہے اور کے لئے

پڑھیں:

جنوبی افریقہ میں جی 20 کے وزرائے خارجہ اجلاس سے امریکہ غیر حاضر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 فروری 2025ء) دنیا کی بیس اہم معیشتوں پر مشتمل جی 20 ممالک کے وزرائے خارجہ جمعرات کے روز جنوبی افریقہ میں دو روزہ اجلاس کے لیے جمع ہوئے، تاہم امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔

توقع ہے کہ اس اجلاس کے دوران مشرق وسطیٰ اور یوکرین کی صورتحال پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

البتہ برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ سمیت گلوبل ساؤتھ کے نمائندوں کو اس بات کی امید ہے کہ اس میں، بقول ان کے، بین الاقوامی اداروں میں انتہائی ضروری اصلاحات، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور زیادہ مساوی اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے پر بھی بات چیت ہو گی۔

جی 20 اجلاس: جرمن چانسلر شولس حتمی اعلامیہ سے ناراض

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے اس موقع پر کہا کہ "یہ بہت اہم ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر، کثیرالجہتی اور بین الاقوامی قانون کے اصول ہماری تمام کوششوں کا اہم مرکز ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

بالآخر یہی وہ اقدار ہونی چاہیں، جس کے سبب ہم متحدہ ہیں۔٫

انہوں نے مزید کہا "جغرافیائی سیاسی کشیدگی، بڑھتی ہوئی عدم برداشت، تنازعات اور جنگ، موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض اور توانائی اور خوراک کا عدم تحفظ پہلے سے ہی کمزور عالمی بقائے باہمی کے نظریے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔"

یوکرین جنگ: روسی حملے کے ایک ہزار دن مکمل

صدر رامافوسا نے جی 20 ممالک کے درمیان تعاون پر زور دیا۔

تاہم یوکرین کے خلاف روسی جنگ، موسمیاتی تبدیلی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد واشنگٹن میں پالیسی میں تبدیلی جیسے بہت سے اہم مسائل کے حوالے سے جی 20 منقسم ہے۔

رامافوسا نے کہا کہ "جی 20 کی حیثیت سے ہمیں تنازعات کے سفارتی حل کی وکالت جاری رکھنی چاہیے۔ میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تعاون ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔

آئیے ہم تعمیری مشغولیت کے ذریعے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کریں۔"

چین کے وزیر خارجہ وانگ لی، روس کے سرگئی لاوروف، بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، برطانیہ کے ڈیوڈ لیمی اور فرانس کے ژاں نول بیروٹ جیسے سبھی رہنما اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ تاہم جرمنی کے دفتر خارجہ نے کہا کہ انالینا بیئربوک (شاید انتخابی مصروفیات کے سبب) نہیں آئیں گی۔

موجودہ عالمی مسائل پر بھارت میں جی ٹوئنٹی کی ورچوئل سمٹ

لیکن اس اجلاس کے حوالے سے بڑی خبر امریکی وزیر خارجہ کا بائیکاٹ ہے۔

مارکو روبیو نے بائیکاٹ کیوں کیا؟

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دو روزہ اجتماع شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی شرکت منسوخ کر کے ہنگامہ مچا دیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ان کے بجائے اس اجلاس میں امریکہ کی نمائندگی جنوبی افریقہ میں موجود ایک سفارت کار کرے گا۔

جنوبی افریقہ میں زمین کی واپسی سے متعلق قانون پر سفارتی تناؤ کے درمیان روبیو نے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ نے اس قانون کو زمین کی "ضبطی" اور ملک کے گوروں کے ساتھ غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔

چینی صدر کی جی 20 میں شرکت نہ کرنے کی خبر سے جو بائیڈن مایوس

روبیو نے ایک بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ یہ پریٹوریا کا "امریکی مخالف" ایجنڈا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے بیانات سے ملک کو نشانہ بنایا اور جنوبی افریقہ کے لیے تمام غیر ملکی امداد روکنے کا اعلان کرتے وقت انہوں نے زمینی اصلاحات کے قانون کا ہی حوالہ دیا تھا۔ اخراجات سے متعلق صدر ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک، جو نسل پرست جنوبی افریقہ میں پلے بڑھے ہیں، انہوں نے بھی اس قانون کو "نسل پرست" قرار دیا۔

ٹرانس اٹلانٹک دراڑ کے سبب عالمی فیصلہ سازی متاثر

جنوبی افریقہ نے گزشتہ سال جی 20 کی صدارت سنبھالی تھی اور وہ وزرائے خارجہ کے فورم کی میزبانی کرنے والا پہلا افریقی ملک ہے۔

جی 20 میں 19 ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور افریقی یونین بھی شامل ہیں، جو دنیا کی دو تہائی آبادی اور عالمی اقتصادی پیداوار کا 85 فیصد حصہ ہیں۔

گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران امریکہ اور یورپ کے درمیان اختلافات کے سبب ایک بڑی دراڑ پڑی ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین ہی روسی حملے کا ذمہ دار ہے۔ غزہ، گرین لینڈ، پاناما کینال وغیرہ پر دعویٰ کرنے کے ساتھ ہی امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے یہ سوال بھی کھڑا کر دیا ہے کہ کیا امریکہ اور یورپ اب بھی یکساں اقدار رکھتے ہیں۔

جی 20 اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ نے طالبان کے حوالے سے کیا کہا؟

نام نہاد گلوبل ساؤتھ اقوام نے ایک مشترکہ ترقیاتی ایجنڈے پر عمل کرنے کا پروگرام پیش کیا ہے، تاہم یہ پہلے ہی عجلت کی کمی کا شکار ہے اور اب ٹرمپ کے دور میں امریکی خارجہ پالیسی کی ڈرامائی تشکیل نو کے نتیجے میں یہ مزید تنازعات کی صورت میں جاری جغرافیائی سیاسی اتھل پتھل کے مزید زیر سایہ ہونے کا خطرہ ہے۔

اس اجلاس سے امریکی وزیر خارجہ کی غیر حاضری مزید خلفشار کا باعث ہو گی، حالانکہ یہ امریکہ کے بغیر آگے بڑھنے کا ایک موقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ چین کے لیے زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کا بھی ایک موقع بھی ہے کیونکہ امریکہ اپنے قائدانہ کردار سے دستبردار ہوتا جا رہا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ اور ولادیمیر پوٹن کے درمیان ممکنہ ملاقات: جائزہ لے رہے ہیں کہ روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے کتنا سنجیدہ ہے. مارکوروبیو
  • جنوبی افریقہ میں جی 20 کے وزرائے خارجہ اجلاس سے امریکہ غیر حاضر
  • صدر ٹرمپ کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اختلافات میں اضافہ
  • ملکی معیشت درست سمت میں جارہی ہے، پاکستان ترقی کررہا ہے‘ وزیرِ خزانہ
  • مشرق وسطیٰ اور یوکرین میں جاری کشیدگی کے باعث ”تیسری عالمی جنگ“ چھڑ سکتی ہے، ٹرمپ
  • پاکستانی خارجہ پالیسی کو ’’ست‘‘ سلام
  • پاکستان کو ڈیجیٹل تعاون کونسل کی 2026 کی صدارت مل گئی
  • پاکستان کو ڈی سی او کونسل کی 2026 کی صدارت اور ایگزیکٹو کمیٹی کی نشست مل گئی
  • اسحاق ڈار کی چینی وزیر خارجہ سے ملاقات، دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور عالمی امور پر بات چیت