Juraat:
2025-02-22@05:25:29 GMT

حیدرآباد میں ناجائز تعمیرات پر ضلعی انتظامیہ خاموش

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

حیدرآباد میں ناجائز تعمیرات پر ضلعی انتظامیہ خاموش

 

شہریوں کی درجنوں درخواستیں نظرانداز، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ساجد پر رقم بٹورنے کے الزامات
گاڑی کھاتہ قاضی قیوم روڈ غازی آباد نزد ہوٹل پیلس ہاؤس نمبر 89-Fپر غیر قانونی تعمیرات

عوام کی خون پسینے سے کمائی سے ادا کیے جانے والے ٹیکسز سے بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران ملکی خزانے پر بوجھ بنتے نظر آتے ہیں جو ذاتی مفادات کی خاطر اپنے فرائض کو پس پشت ڈال کر خطیر رقوم وصول کرنے کے بعد غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی میں ملوث ہیں، حیدرآباد کے دیگر علاقوں کی طرح گاڑی کھاتہ میں بھی قابض اسسٹنٹ ڈائریکٹر ساجد نے خطیر رقوم وصول کرنے کے بعد بیٹر مافیا کو غیر قانونی امور کی مکمل چھوٹ دے رکھی ہے۔ بیٹر غلام محمد پلاٹ نمبر 89-F مین گلی کے اندر سرکاری اراضی پر ناجائز قبضہ کر کے تعمیرات شروع کروا رکھی ہیں۔ غیر قانونی تعمیرات پرعلاقہ مکینوں میں شدید غم وغصہ کی لہر پائی جاتی ہے۔ سروے پر موجود نمائندہ جرأت سے بات کرتے ہوئے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ مین روڈ پر غیر قانونی تعمیرات انتظامیہ کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے ؟ بلڈنگ افسران اپنی مٹھیاں گرم کرنے کے بعد غیر قانونی جاری تعمیرات سے دانستہ چشم پوشی اختیار کر رہے ہیں ہم وزیر بلدیات سعید غنی سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ گاڑی کھاتہ قاضی قیوم روڈ نزد ہوٹل پیلس والی گلی میں پلاٹ پر جاری غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کیا جائے اور مزید بننے والی ناجائز عمارتوں کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

اسپتال فعال کرنے کے مخالف نہیں لیکن حکومت لائبریری کو متبادل بھی فراہم کرے، لائبریری انتظامیہ

کوئٹہ کے علاقے غوث آباد میں واقع  شہید بینظیر بھٹو اسپتال کی عمارت 2010 میں تعمیر کی گئی تھی۔ 2018 تک اسپتال غیر فعال ہونے کی وجہ سے علاقے کے نوجوانوں نے علم کے فروغ کا بیڑا اٹھایا اور اسپتال کی عمارت کو پبلک لائبریری میں تبدیل کر دیا۔ جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتابوں اور طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ تاہم صوبائی حکومت نے رواں برس اسپتال کو دوبارہ فعال بنانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

 لائبریری کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ایک طویل عرصے تک عمارت خالی رہی اور کھنڈر میں تبدیل ہو رہی تھی، ایسے میں ہم نے اس عمارت میں لائبریری قائم کر دی، جس سے نہ صرف عمارت استعمال میں آئی بلکہ علاقے کے بچوں کی علم کی پیاس بھی بھجنے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت لائبریری میں 10 ہزار کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس اس وقت 1500 رجسٹرڈ اسٹوڈنٹس ہیں۔ اب حکومت نے یک دم اسپتال فعال کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں ایسے میں ان بچوں اور 10 ہزار کتابوں کو کہاں لے جائیں؟

حکومتی فیصلے سے طالب علم بھی مایوس ہوگئے ہیں۔ طلبہ کا مؤقف ہے کہ حکومتی اقدام سے ان کے مستقبل کو نقصان پہنچے گا، حکومت اسپتال فعال بنائے ہم اس فیصلے کے حق میں ہیں۔ لیکن ہمیں لائبریری کے لیے متبادل جگہ بھی فراہم کی جائے۔

محکمہ صحت بلوچستان کا مؤقف ہے کہ شہید بینظیر اسپتال سرکار کی ملکیت ہے۔ عمارت کا سار اسٹرکچر اسپتال جیسا ہے، اسے تعلیمی ادارے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عمارت کو خالی کروایا جائے گا۔

ایسے میں سوال مگر پھر وہی ہے کہ لائبریری کی 10 ہزار کتابیں اور 1500 رجسٹرڈ طلبا و طالبات کہاں جائیں گے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • سندھ بلڈنگ، ڈائریکٹر ڈیمالیشن سے ملی بھگت، عاصم صدیقی بے قابو
  • اسلام آباد: سیکٹر ایف 10 میں این جی او پتن کا دفتر سیل کردیا گیا
  • رمضان المبارک کے بابرکت مہینے سے قبل ضلعی انتظامیہ گراں فروشوں کے خلاف سرگرم عمل
  • سندھ بلڈنگ، ڈائریکٹر ڈیمالیشن عبدالسجاد خان کے غیر قانونی دھندے جاری
  • اسپتال فعال کرنے کے مخالف نہیں لیکن حکومت لائبریری کو متبادل بھی فراہم کرے، لائبریری انتظامیہ
  • پہلی بارش نے ہی واسا کے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے
  • حیدرآباد،جستجو فاؤنڈیشن اور جی ڈی سی ایل کے تعاون سے ہیلتھ کانفرنس
  • ناجائز منافع خوروں کے گرد گھیرا تنگ کر لیا گیا
  • سندھ بلڈنگ،ضلع وسطی میں عمارتوں کی غیر قانونی تعمیرات تیز