صدر مملکت نے آرٹیکل 200 کی شق ایک کا استعمال جوڈیشل کمیشن کے اختیار کو غصب کرکے کیا، مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا، درخواست میں موقف

جسٹس سرفراز ڈوگر کو بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کام سے روک دیا جائے ، جسٹس خالد سومرو اور جسٹس محمد آصف کو جوڈیشل ورک سے بھی روک دیا جائے ، درخواست میں استدعا

اسلام آبادہائی کورٹ کے 5ججزنے سینارٹی کیخلاف درخواست دائر کردی۔ منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے 49صفحات پر مشتمل درخواست آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر کی گئی ہے ۔سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات نہیں ہیں۔ مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 200 محض عارضی تبادلے سے متعلق ہے ۔ ٹرانسفر نوٹیفکیشن،سینارٹی لسٹ اور ریپریزنٹیشن پر دیا گیا فیصلہ آرٹیکل 200 کی شق ایک کے خلاف ہے ۔ ججز کا تبادلہ سنیارٹی لسٹ کو متاثر کیے بغیر عارضی طور پر ہو سکتا ہے ۔ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز ٹرانسفر کا فیصلہ مفاد عامہ کے تحت نہیں کیا گیا۔ ججز کا ٹرانسفر کچھ اور وجوہات کے سبب کیا گیا ہے ۔ ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر آرٹیکل 175 اے کے برخلاف ہے ۔درخواست کے مطابق صدر مملکت نے آرٹیکل 200 کی شق ایک کا استعمال جوڈیشل کمیشن کے اختیار کو غصب کرکے کیا۔ عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ سینارٹی لسٹ کو کالعدم قرار دیا جائے کیوں کہ سینارٹی لسٹ آرٹیکل 194 اور آئین کے تیسرے شیڈول کے منافی ہے ۔عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کام سے روک دیا جائے ۔ اسی طرح جسٹس خالد سومرو اور جسٹس محمد آصف کو جوڈیشل ورک سے بھی روک دیا جائے ۔آئینی درخواست میں صدر پاکستان ، وفاق، جوڈیشل کمیشن ، رجسٹرار سپریم کورٹ سمیت سندھ لاہور، بلوچستان ہائی کورٹس کے رجسٹرار، اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار، جسٹس سرفراز ڈوگر ، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف کو فریق بنایا گیا ہے ۔منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے توسط سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ٹرانسفر ہونے والے ججز کا نیا حلف نہ لینا آئینی خلاف ورزی ہے ۔ کسی جج کی سنیارٹی اس ہائیکورٹ سے شروع ہوتی ہے جہاں اس نے حلف لیا ہو۔ ایک ایسے جج کو قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بنایا گیا جس نے محض 2ہفتے ہی ہائی کورٹ میں گزارے۔ دو ہفتے پہلے ٹرانسفر ہونے والے جج کو قائم مقام چیف جسٹس بنا کر اسے تمام انتظامی اختیارات دے دیے گئے ۔درخواست کے مطابق سنیارٹی لسٹ کو تبدیل کرنا آرٹیکل 2 اے کے خلاف ہے ۔ ججز کا ٹرانسفر کرکے سنیارٹی لسٹ جس انداز میں تبدیل کی گئی یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے انتظامی امور میں من مرضی کی مداخلت ہے ۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

ججزمیں تقسیم مزیدگہری ،معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا 

  اسلام آباد(طارق محمودسمیر)26ویں آئینی ترمیم سے پہلے بھی اور اب بھی ججز کی تقسیم ، اختلافات اور تنازعات موجود ہیں،کبھی کوئی جج خط لکھ دیتاہے تو کبھی کوئی
سنیارٹی کو بنیادبناکراسے چیلنج کردیاجاتاہے،یہ سنجیدہ آئینی وقانونی معاملہ ہیا ور اس بارے میں ہائیکورٹ کے پانچ ججزجسٹس محسن اخترکیانی،جسٹس طارق محمودجہانگیری،جسٹس بابرستار،جسٹس سرداراعجازاسحق خان اورجسٹس ثمن رفعت امتیازنے ہائیکورٹ میں ججز کی سنیارٹی کامعاملہ اب سپریم کورٹ میں چیلنج کردیاہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے سینئروکلاء منیراے ملک اور بیرسٹرصلاح الدین کی خدمات حاصل کی ہیں اور اعتراض اٹھایاہے کہ ہائی کورٹ سے لائے گئے تین ججز جن میں اسلام آبادہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفرازڈوگر،جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمدآصف شامل ہیں ،کودوبارہ حلف لینے کی ضرورت تھی اور حکومت نے بدنیتی سے جونیئرزکوسینئربنادیاجب کہ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس عامرفاروق نے انہی پانچ ججز کی ری پریزنٹیشن کو مستردکردیاتھااورکہاتھاکہ ججز کاتبادلہ آئین کے مطابق ہیاورانہیں دوبارہ حلف لینے کی ضرورت نہیں ہے،جسٹس سرفرازڈوگرجولاہورہائیکورٹ میں سنیارٹی میں 15ویں نمبرپرتھے انہیں اسلام آبادہائیکورٹ لایاگیالیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ 2015میں انہوں نے ہائیکورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایااوراعتراض کرنے والے اسلام آبادہائیکورٹ کے سینئر جج محسن اخترکیانی نے بھی 2015میں حلف اٹھایااور دونوں کی سنیارٹی میں چندماہ کافرق ریکارڈ کے مطابق موجود ہیاوراس کے مطابق جسٹس سرفرازلاہورہائیکورٹ میں تقرری کے وقت جسٹس محسن اخترکیانی سے سینئرتھے اوراسی بنیادپرانہیں اسلام آبادہائیکورٹ کاچیف جسٹس مقررکیاگیاہے،بہرحال یہ ایک اہم معاملہ ہے،اگرکسی معاملے پر ابہام ہواور آئینی تشریح کی ضرورت ہوتو وہ صرف سپریم کورٹ ہی کرسکتی ہے،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے چندروزقبل یہ بیان دیاتھاکہ تین ججز کاتبادلہ آئین کے مطابق ہوا،دوسری ہائیکورٹس سے آنے میں کوئی پابندی نہیں ہیتاہم انہوں نے سنیارٹی کے معاملے پر کسی قسم کاتبصرہ کرنے سے اس لیے گریز کیاتھاکہ یہ معاملہ ان کے پاس آنے والاہے،اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیایہ معاملہ آئینی بینچ کو بھیجاجائے گایاچیف جسٹس خود وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ کریں گے ،دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے وزیراعظم شہبازشریف کی اہم ملاقات ہوئی جس میں عدالتی اصلاحات ،لاپتہ افراد کے ایشواور ٹیکس کیسز کے فیصلوں میں تاخیرسمیت دیگرامورپربات چیت کی گئی اس ملاقات کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہیاور چیف جسٹس تحریک انصاف کے رہنمااور اپوزیشن لیڈرعمرا یوب سے بھی ملاقات کریں گے جس میں ان سے عدالتی اصلاحات کے لیے تجاویز لی جائیں گی لیکن افسوسناک امریہ ہیکہ چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات کیبعد ایک سیاسی جماعت کے حامیوں نے سوشل میڈیاپرمنفی پروپیگنڈا مہم چلارکھی ہے جس میں چیف جسٹس اور وزیراعظم کے خلاف نامناسب اور غیرپارلیمانی زبان استعمال کی جارہی ہے جو کسی طور پر بھی درست نہیں ہے کیایہی لوگ عمرایوب کی ملاقات پر بھی اسی طرح کا پروپیگنڈا کریں گے ،چیف جسٹس عدالتی اصلاحات پر اگرحکومت اوراپوزیشن سے مشاورت کررہے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں،ایک زمانہ وہ بھی تھاجب سابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے 2017میں اس وقت کے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو شارٹ نوٹس پرسپریم کورٹ ملاقات کے لیے بلایااورانہیں دھمکی دی تھی کہ اگر پارلیمنٹ سے نوازشریف کوپارٹی صدارت کے لیے اہل قراردینے کابل پاس کیاگیاتو وہ فوری طور پراسے کالعدم قراردے دیں گے اور اس دھمکی کیبعد شاہدخاقان عباسی نے یہ قانون سازی نہیں کی تھی اور بعدازاں انہوں نے کئی انٹرویوزمیں اس بات کا خود بھی انکشاف کیاتھاکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے ملاقات کیلیے بلاکرقانون سازی نہ کرنے کی بات کی تھی ۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ بارکا پانچ ججزکی سنیارٹی سے متعلق دائر درخواست کی حمایت کا اعلان
  • اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے بھی ججز سنیارٹی تنازع پر دائر درخواست کی حمایت کردی
  • ججزمیں تقسیم مزیدگہری ،معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا 
  • ججزکا تبادلہ ،‘آرٹیکل 200صدر کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا: اسلامآباد ہائیکورٹ کے 5ججز کی سپریم کورٹ میں درخواست
  • ہمارے چیف جسٹس کو کام کرنے سے روکا جائے، ہائی کورٹ کے پانچ جج مدعی بن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کا سنیارٹی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع
  • سینیارٹی کا معاملہ:اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کا سپریم کورٹ سے رجوع ،جسٹس سرفراز ڈوگر کو کام سے روکنے استدعا
  • جسٹس سرفراز ڈوگر کو بطور چیف جسٹس کام سے روکا جائے، پانچ ججز کا سنیارٹی کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے سینیارٹی لسٹ کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا