Islam Times:
2025-04-15@06:26:35 GMT

کراچی میں ٹریفک حادثات، اصل ذمہ دار کون؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

کراچی میں ٹریفک حادثات، اصل ذمہ دار کون؟

اسلام ٹائمز: کراچی کو ’سٹیزن ٹریفک لائزن کمیٹی‘ کی ضرورت ہے جس میں سول سوسائٹی کے اراکین اور ماہرین کو شامل کیا جائے جو ٹریفک چیلنجز کا معائنہ کریں، حل تلاش کریں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ہم اپنی سڑکوں پر مزید المناک سانحات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ تحریر: ڈاکٹر نعمان احمد

گزشتہ چند ہفتوں سے کراچی میں ٹریفک حادثات کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں بہت سے افراد تیز رفتار ڈمپر، ٹرک اور واٹر ٹینکر کی زد میں آئے ہیں۔ ایسے میں عوام میں غم و غصہ پایا جانا حیران کُن نہیں ہے کہ جس کا اظہار انہوں نے کچھ ہیوی ٹریفک کو نذرِ آتش کرکے کیا۔ 1985ء میں ناظم آباد میں بشریٰ زیدی کے حادثے سے لے کر چند ماہ قبل کارساز روڈ پر عمران عارف اور ان کی بیٹی آمنہ عارف کی المناک اموات تک، کراچی میں ٹریفک حادثات کی فہرست بہت طویل ہے۔ جو لوگ ان حادثات میں زندہ بچ گئے، وہ عمر بھر کی معذوری یا ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے پیش نظر حکومت نے ’روڈ چیکنگ کمیٹی‘ بنائی ہے جو گاڑیوں کی فٹنس کی جانچ پڑتال اور سڑکوں کی مجموعی تحفظ کی صورت حال پر نظر رکھے گی۔

ٹریفک مینجمنٹ، شہری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ شہر میں گاڑیوں کی آمد و رفت کو منظم کرنے، مال بردار گاڑیوں کو ریگولیٹ کرنا اور ٹریفک جرائم کے ارتکاب کے خلاف قانونی کارروائی کی ذمہ داری ٹریفک پولیس کی ہے۔ وہ پولیس کی اعلیٰ کمان اور متعلقہ صوبائی ڈپارٹمنٹ کو جوابدہ ہیں۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار اسنیپ چیکنگ پر لاپروائی برتتے ہیں۔ وہ موٹر سائیکلوں، رکشوں، چھوٹی گاڑیوں، پک اپ گاڑیوں اور ہیوی ٹریفک وغیرہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اپنے اعلیٰ حکام کو مطمئن کرنے کے لیے نامکمل کاغذات پر چالان کردیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز کی گاڑیاں جو عموماً ٹریفک قوانین کو کسی خاطر میں نہیں لاتیں، بےمقصد سائرن کا استعمال کرتی ہیں انہیں ٹریفک پولیس کے اہلکار جانے دیتے ہیں۔

اکثر اوقات ان کم عمر، غیرلائسنس یافتہ مگر امیر خاندانوں کے بچوں کو روکا نہیں جاتا جو تیز رفتاری سے اپنی لگژری گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں۔ کالے شیشے والی گاڑیوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بنا نمبر پلیٹ کی گاڑیوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مصروف شاہراہوں پر اکثر گاڑیاں اور موٹر سائیکلز مخالف سمت سے تیز رفتاری سے گزرتی نظر آتی ہیں۔ تیز رفتار گاڑیوں سے ٹکرانے کے بعد قانون کی پاس داری کرنے والے ڈرائیورز کی ایک نہیں چلتی۔ سڑکوں پر کیے جانے والے مباحثوں میں اکثر جیت اس کی ہوتی ہے جس کی آواز زیادہ بلند ہوتی ہے یا جو زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ پل اور اوورپاسز کے نیچے عوامی مقامات رکشہ اسٹینڈز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ایسی گاڑیاں اکثر ٹین ایجرز چلاتے ہیں جو قوانین کا خیال نہیں رکھتے۔

اسی اثنا میں میئر کراچی کو حال ہی میں شکایت کرتے دیکھنا مضحکہ خیز تھا۔ میونسپلٹی عوامی مقامات اور مختص شاہراہوں کے تحفظ کی ذمہ دار ہے لیکن اہم شاہراہوں کے کناروں پرپیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ ٹوٹی ہوئی ہیں اور ان پر تجاوزات کی بھرمار ہے۔ ایسے میں پیدل چلنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ بچوں اور والدین کو چلتی ہوئی گاڑیوں کے درمیان احتیاط سے اپنا راستہ بنانا پڑتا ہے تاکہ وہ صدر یا دیگر مصروف علاقوں میں واقع اسکولوں تک پہنچ سکیں۔ سڑکوں کو وسعت دینے کے منصوبوں کی وجہ سے گاڑیوں کے راستوں کو تو وسعت ملی ہے لیکن فٹ پاتھ تنگ ہوگئی ہیں۔

بی آر ٹی ریڈ لائن پروجیکٹ کی تعمیر نے کئی مقامات پر راہ گیروں کے لیے مختص راستے تباہ کیے ہیں۔ چند علاقوں جیسے ڈی ایچ اے میں تو سڑک کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی راستے ہی نہیں بنائے گئے۔ ڈی ایچ اے کو کلفٹن سے جوڑنے والی خیابانِ شاہین اس کی مثال ہے۔ اس کے علاوہ سائیکل سوار اور گاڑیوں کو آمد و رفت کے لیے استعمال نہیں کرنے والے افراد کا سفر کرنا محال ہے۔ سڑکوں پر مشتعل رویہ بہت عام ہے۔ لوگ تیز رفتار گاڑیوں کا پیچھا کرتے ہیں، سرِ راہ گاڑیاں روک کر جھگڑے کرتے ہیں، ٹریفک لائٹس کی پروا نہیں کی جاتی، ان ڈرائیورز کو ہراساں کیا جاتا ہے جو اسٹاپ سائن پر ٹریفک قوانین کی پاس داری کرتے ہیں، سڑک پار کرنے والے راہ گیروں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے جبکہ فٹ پاتھ پر پارکنگ جیسے مناظر اس شہر کا معمول ہیں۔

موٹر سائیکل سوار بھی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر انڈیکیٹر دیے بغیر تیز رفتاری سے لین تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا بہت زیادہ افراد سوار کرکے موٹر سائیکل چلاتے ہیں، ہیلمٹ نہیں پہنتے اور موٹر سائیکل روکے بغیر موبائل فونز استعمال کرتے ہیں۔ مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیورز اور موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ گفتگو کریں تو آشکار ہوگا کہ ان میں سے زیادہ تر کو تو ٹریفک قوانین اور ضوابط کی بنیادی معلومات بھی نہیں۔ اب تو سرکاری عمل سے گزر کر ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کو بھی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جب ٹریفک پولیس اہلکار ایسے لوگوں کو روکتے ہیں تو وہ باخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اہلکاروں کے ساتھ معاملات کیسے طے کرنے ہیں۔

ہیوی ٹریفک کے ڈرائیورز یا لگژری ایس یو وی کے مالکان تیز رفتار ڈرائیونگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں قابو سے باہر ہوجائیں تو سڑکوں پر سنگین زخموں یا اموات کا باعث بنتی ہیں۔ لگژری گاڑیوں کی پشت پر سوار گارڈز ٹریفک قوانین کی پامالی کرنے والے ڈرائیورز کو پوچھ گچھ سے بچا لیتے ہیں۔ یہ انتہائی خراب صورت حال ہے جس کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے نام نہاد کمیٹی کا قیام زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوگا۔ اسٹیک ہولڈرز بشمول رہائشیوں، دکانداروں، اپنے بچوں کو اسکول لے جانے والے والدین یا روزانہ سڑکوں پر خوفناک حالات کا سامنا کرنے والے تمام عام شہریوں کو حل تلاش کرنے کے عمل میں حصہ لینا چاہیئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ٹریفک قوانین ٹریفک پولیس موٹر سائیکل تیز رفتار کرنے والے سڑکوں پر ہوتے ہیں کرتے ہیں جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

جماعت اسلامی کے تحت آج کراچی میں غزہ یکجہتی مارچ ہوگا

جماعت اسلامی کے تحت آج کراچی میں غزہ یکجہتی مارچ کیا جائے گا۔اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف اور اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کیلئے آج شام 4 بجے شاہراہ فیصل سے غزہ یکجہتی مارچ کا آغاز ہوگا، مارچ کے شرکاء کراچی کے تمام اضلاع سے قافلوں کی صورت میں شاہراہ فیصل پر پہنچیں گے۔غزہ یکجہتی مارچ سے قبل بلوچ کالونی پل تا مرکزی جلسہ گاہ شاہراہ فیصل تک ریلی نکالی جائے گی جس کی قیادت امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کریں گے۔غزہ یکجہتی مارچ سے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کلیدی خطاب کریں گے، امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے اہل کراچی سے یکجہتی غزہ مارچ میں بھرپور شرکت کی اپیل کی ہے۔غزہ یکجہتی مارچ کیلئے شاہراہ فیصل کراچی پر ایک ٹریک خواتین کیلئے جبکہ دوسرا ٹریک مردوں کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ٹریفک پولیس کراچی نے غزہ ملین مارچ کے سلسلے میں ٹریفک پلان جاری کر دیا ہے، شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ متبادل راستے اختیار کریں تاکہ کسی زحمت سے بچا جا سکے ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ ایف ٹی سی سے ایئرپورٹ جانے والے افراد کورنگی روڈ یا سندھی مسلم سے اللہ والی چوک ہوتے ہوئے یونیورسٹی روڈ کا راستہ اپنائیں، ایئرپورٹ سے صدر جانے والے شہری ڈرگ روڈ سے راشد منہاس روڈ استعمال کریں، کارساز سے آنے والے شہری بلوچ کالونی برج سے ایکسپریس وے کا راستہ اختیار کریں۔ٹریفک پولیس نے شہریوں سے تعاون کی اپیل کی ہے تاکہ مارچ کے دوران امن و امان اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھی جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی کی سڑکوں پر موت کا رقص، خاتون سمیت مزید 4 شہری جاں بحق
  • وزیراعلی سندھ کی ہدایت پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری
  • بھارتی کھلاڑی نے ٹیم کی شکست پر اپنی شاندار اننگز کو بے کار قرار دیدیا
  • وزیراعلیٰ سندھ کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر کریک ڈاؤن کی رپورٹ پیش
  • ملک میں گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان ،ٹریفک پلان بھی جاری
  • ڈہرکی: قومی شاہراہ پر ٹرالر کی ٹکر سے 8 سالہ بچہ جاں بحق
  • کراچی: ڈمپر ڈرائیور کی گرفتاری سے پہلے ڈمپروں کیخلاف کریک ڈاؤن
  • جماعت اسلامی کے تحت آج کراچی میں غزہ یکجہتی مارچ ہوگا
  • ٹریفک کے مسائل پر توجہ دیں
  • کراچی میں  ٹریفک حادثات کو لسانی فسادات کروانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے