'اردو پڑھنے والے کٹھ ملا ہوتے ہیں'، وزیر اعلیٰ اتر پردیش
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 فروری 2025ء) اردو کے متعلق ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے متنازعہ بیان پر نکتہ چینی کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ہی متعدد اہم ہندو سماجی، سیاسی شخصیات نیز صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں نے بھی اسے افسوس ناک قرار دیا ہے۔
اردو اور فارسی کے پیچیدہ الفاظ استعمال نہ کریں، دہلی پولیس
فرہنگ آصفیہ کے مطابق 'کٹھ ملا' کا مطلب 'کم پڑھا لکھا' ہوتا ہے جبکہ فیروزاللغات میں اس لفظ کے معنی 'جاہل، دقیانوس' لکھا ہے۔
معاملہ کیا ہے؟اترپردیش اسمبلی کے اجلاس کے دوران بی جے پی حکومت نے اعلان کیا کہ اراکین اسمبلی اب بھوجپوری، اودھی، برج اور بندیل کھنڈی میں بھی اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
اس پر اسمبلی میں اپوزیشن سماج وادی پارٹی کے قائد ماتا پرساد پانڈے نے کہا کہ اتر پردیش میں بڑی تعداد میں لوگ اردو بولتے ہیں، اس لیے اسے بھی اسمبلی کی کارروائی میں شامل کیا جانا چاہئے۔سردار بھگت سنگھ، جلیبی اور اردو کا اخبار
وزیر اعلیٰ یوگی نے اس پر جواباﹰ کہا کہ جو لوگ اردو پڑھانے کی وکالت کرتے ہیں وہ ملک کو' کٹھ ملا پن‘ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، لیکن ایسا نہیں چلے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ بچوں کو مولوی بنانا چاہتے ہیں جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو گا۔سیاسی رہنماؤں نے یوگی کے اس بیان کے بعد حکومت کی منشا پرسوال کھڑے کئے اور حکومت کومتعصبانہ ذہنیت کی حامل قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جبکہ اردو کو یوپی میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے تو ایک کےساتھ سوتیلا رویہ کیوں؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ اردو کے 'خلاف' بیان میں یوگی نے اردو کے کم ازکم نو الفاظ استعمال کیے اور دوسرے روز اپوزیشن پر حملہ کرنے کے لیے اردو کے ایک شعر کا سہارا بھی لیا۔
'کاش اردو پڑھی ہوتی!'معروف صحافی ارملیش کا کہنا تھا کہ اردو اور ہندی دو مختلف زبانیں ہیں جن کے رسم الخط مختلف ہیں لیکن دونوں کو نہ تو مکمل طور پر الگ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، "اردو ایک خوبصورت زبان ہے۔ میرے بہت سے دوست ہیں جن کی اردو بہت اچھی ہے۔
ان میں سے کچھ ہندی میں لکھتے ہیں۔ ان کی ہندی پڑھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ کاش میں نے بھی زمانہ طالب علمی میں اردو پڑھ لی ہوتی! میری ہندی بہتر ہو سکتی تھی! جب بھی میں اردو کے معروف الفاظ سے مزین ہندی پڑھتا ہوں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔"عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ کا کہنا تھا کہ اردو زبان کی ترقی میں اترپردیش کا اہم کردار رہا ہے لیکن وزیر اعلیٰ اسی زبان کے خلاف بول رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، "یہ نہایت مضحکہ خیز ہے کہ وہ اردو کے خلاف بیان بازی کررہے ہیں اور اسی زبان کے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔ چار منٹ بیس سیکنڈ کے اپنے خطاب میں انہوں نے نو مرتبہ اردو الفاظ استعمال کیا ہے۔" 'ذہنیت کی عکاسی'روزنامہ جدید خبر کے مدیر معصوم مرادآبادی کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ یوگی ادیتہ ناتھ نے اردو کے متعلق جو کچھ کہا وہ دراصل ان کی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔
معصوم مرادآبادی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "مجھے نہیں معلوم یوگی جی نے جسٹس آنند نرائن ملا کا نام سنا بھی ہے یا نہیں، جو لکھنئو میں ہی پیدا ہوئے تھے اور کہا تھا، 'اردو میری مادری زبان ہے، میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں لیکن مادری زبان نہیں چھوڑ سکتا۔"
کانگریس کے رکن پارلیمان عمران پرتاپ گڑھی نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا،"جس زبان کو ایک صوبے کے سربراہ کٹھ ملا کی زبان کہہ رہے ہیں کوئی انہیں بتائے کہ اردو کٹھ ملا کی نہیں آنند نرائن ملا کی زبان ہے۔
"آنند نرائن ملا نے لکھنئو کے فرنگی محل مدرسے میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، بعد میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور انیس سو پچپن میں لکھنئو ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے، جہاں ان کا یہ تبصرہ کافی مشہور ہوا تھا، "پولیس جرائم پیشہ لوگوں کا سب سے منظم گروہ ہے۔" وہ انجمن ترقی اردو ہند کے صدر بھی رہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے بے شمارغیر مسلم ہیں جنہوں نے نہ صرف اردو زبان کی آبیاری کی بلکہ اردو نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔
ان میں بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد شامل ہیں جنہوں نے ابتدائی تعلیم ایک مدرسے میں اردو میں حاصل کی تھی۔ اردو کی مخالفت کوئی نئی بات نہیںمعصوم مرادآبادی کا کہنا تھا کہ یوپی اسمبلی میں اردو زبان کی مخالفت کوئی نئی بات نہیں۔ "ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔ اردو میں حلف لینے کا مطالبہ کرنے والے ممبران اسمبلی کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ معاملہ عدالت تک پہنچا۔
"خیال رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اردو بولنے والوں کی تعداد تقریباﹰ چھ کروڑ ہے۔ یہ دارالحکومت دہلی کے ساتھ ملک کی چھ ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان ہے۔
معصوم مرادآبادی نے کہا کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں اس وقت اردو بستر مرگ پر ہے۔ راجستھان میں بی جے پی حکومت نے اردو کی جگہ سنسکرت ٹیچر بھرتی کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ سہ لسانی فارمولے میں اردو کی جگہ سنسکرت کو شامل کردیا گیا ہے۔ مدھیا پردیش کی بی جے پی حکومت ایسے چھپن گاؤں کے نام تبدیل کر رہی ہے، جو اردو میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا،"اس کی وجہ اردو کے تئیں ہماری بے حسی بھی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے الفاظ استعمال کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی انہوں نے بی جے پی اردو کے کہ اردو زبان ہے رہے ہیں کہا کہ
پڑھیں:
حکومت کی طرف سے عمران خان کو کوئی آفر نہیں کی گئی: رانا ثناء اللہ
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 فروری2025ء)وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیرِ سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کو کوئی آفر نہیں کی گئی۔نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کہہ چکے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں، این آر او اور ریلیف لینا چاہتے ہیں۔رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو کس نے آفر کی آج تک وہ نام تو بتا نہیں سکے، پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت ضرور دی تھی، جمہوریت میں ڈائیلاگ سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں، ڈیل، رہائی یا کیسز ختم کرنے کی کوئی بات نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ احتجاج کے طریقے آئین و قانون میں ہیں، ان کے مطابق احتجاج کریں، ملک دوبارہ اب پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہے، اس دوران کوئی بحرانی کیفیت نہیں پیدا کرنی چاہیے۔(جاری ہے)
مسلم لیگ کے رہنما کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو ایسے ہتھکنڈوں کی اجازت نہیں دی جائے گی، نہ انہیں اپنانے چاہئیں، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو فلور آف دی ہاؤس مذاکرات کی آفر کی۔وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیرِ سیاسی امور نے مزید کہا کہ ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں، ہم نے کبھی بھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا، ہم سیاسی استحکام پیدا کرنے چاہتے ہیں، تمام تر توجہ سیاسی استحکام پر ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی استحکام ہو گا تو ملک معاشی استحکام کی طرف جائے گا، معاشی استحکام ہو گا تو عام آدمی کے حالات بہتر ہوں گے، روزگار ملے گا، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ 26 ویں ترمیم درست نہیں تو عدالت سے رجوع کرے اور پارلیمنٹ میں کوشش کرے۔