امریکی سینیٹ نے بھارتی نژاد کیش پٹیل کی ایف بی آئی کے ڈائریکٹرکے طور پر تعیناتی کی توثیق کردی
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 فروری ۔2025 )امریکی سینیٹ نے بھارتی نژاد امریکی کیش پٹیل کی ایف بی آئی کے ڈائریکٹرکے طور پر تعیناتی کی توثیق کر دی ہے اور 49 کے مقابلے میں 51 ووٹوں سے کامیابی کے بعد پٹیل ڈیمو کریٹس کے شکوک و شبہات کے باوجوو ملک کی سب سے بڑی وفاقی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کے سربراہ بن گئے ہیں کیش پٹیل بھارتی نژاد امریکی ہیں اور ان کا پورا نام کشیپ پرمود ونود پٹیل ہے.
(جاری ہے)
سینیٹ سے توثیق کے بعد پٹیل ایف بی آئی کے نہ صرف پہلے بھارتی بلکہ پہلے ایشیائی نژاد ڈائریکٹر بن گئے ہیں ان کا تعلق نیویارک سے ہے صدر ٹرمپ نے کیش پٹیل کی نامزدگی کے وقت کہا تھا کہ وہ ایک شاندار وکیل اور تفتیش کار ہیں جنہوں نے اپنا کیریئر بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے، انصاف کا دفاع کرنے اور امریکی عوام کا تحفظ کرنے میں گزارا ہے. کیش پٹیل نے اپنے کئیرر کا آغاز نیویارک سے بطور اٹارنی کیا تھا اور کئی پیچیدہ کیسز کی پیروی کی پٹیل ٹرمپ کے پہلے دورصدارت میں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس اور امریکی وزیر دفاع کے چیف آف اسٹاف بھی رہ چکے ہیں وہ خفیہ معلومات جمع کرنے کے ایف بی آئی کے اختیارات کو محدود کرنے کے حامی رہے ہیں انہوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل میں انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا اورصدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں کئی اہم ترجیحات کو عملی شکل دینے والی ٹیم کا بھی حصہ رہے جس میں البغدادی اور قاسم الریمی سمیت داعش اور القاعدہ کی قیادت کے خاتمے کے لیے کی گئی کارروائیاں بھی شامل ہیں. پیٹل ایکٹنگ ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کے پرنسپل ڈپٹی کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں انہوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل اورایوان کی سیلیکٹ کمیٹی آن انٹیلی جنس میں بھی خدمات انجام دی ہیں جہاں انہوں نے سال 2016 کے امریکی انتخابات پر روس کے اثرانداز ہونے سے متعلق تحقیقات کی قیادت کی تھی . ایف بی آئی کے نئے ڈائریکٹر کیش پٹیل نے ایک ایسی شفاف اور جوابدہ ایجنسی تشکیل دے کر اعتماد بحال کرنے کا عزم کیا ہے جو انصاف کے لیے پرعزم ہو انہوںنے امریکیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والوں کو متنبہ کیا کہ بیورو اس سیارے کے ہر کونے میں آپ کو تلاش کرے گا پٹیل نے” فاکس نیوز“کو بتایا کہ مجھے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے نویں ڈائریکٹر کے طور پر تصدیق ہونے پر فخر ہے انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اٹارنی جنرل بوندی کے غیر متزلزل اعتماد اور حمایت کے لیے شکریہ ادا کیا ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے عہدہ کی معیاد 10 سال ہو تی ہے جس کا مقصد انہیں سیاسی اثر و رسوخ اور کسی مخصوص صدر یا انتظامیہ سے ے دور رکھنا ہے. پٹیل کو نومبر میں کرسٹوفر رے کی جگہ نامزد کیا گیا تھا جنہیں ٹرمپ نے 2017 میں اپنی مدت صدارت کے دوران منتخب کیا تھا اور سات سال سے زیادہ عرصے تک خدمات انجام دیں انہوں نے صدرٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا تھا دو ریپبلکن سینیٹرز سوسن کولنز اور لیزا مرکوسکی نے پٹیل کی توثیق کے خلاف ووٹ دیا لیکن سینیٹ کے باقی ریپبلکنز کی حمایت نے پٹیل کو ابہت کم فرق سے فتح دلائی بہت سارے اراکین نے یف بی آئی نے نئے ڈائریکٹر کو تبدیلی کا ایجنٹ قرار دیا. سینیٹ کے اکثریتی رہنما جان تھون نے ووٹنگ سے قبل کہاکہ ایف بی آئی نے حالیہ برسوں میں امریکی عوام میں اعتماد کھو دیا ہے اس کی بیشتر وجہ یہ تاثر ہے کہ سیاست نے ایف بی آئی کے اہم کام کو متاثر کیا ہے سینیٹرتھون نے کہاکہ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو مل کر کام کرنے اور اپنے ملک کو درپیش حقیقی خطرات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے. انہوں نے کہا کہ میں ایف بی آئی کی سالمیت کو بحال کرنے اور اسے اپنے اہم مشن پر مرکوز کرنے کے لیے مسٹر پٹیل کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں دوسرے ریپبلکن نے بھی ایسے ہی جذبات کا اعادہ کیا ہے پٹیل کی نامزدگی کی سماعت کے دوران فلوریڈا کی ریپبلکن سینیٹر ایشلے موڈی نے کہا کہ پٹیل نے شاید ایف بی آئی کے اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام نہ دی ہوں لیکن کیا ہم اس ایجنسی کے لیے ایک نیا راستہ ترتیب دینے کو نہیں کہہ رہے ہیں؟ کیا ہم اس وقت ایک غیر روایتی امیدوار نہیں چاہتے؟.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایف بی آئی کے کے ڈائریکٹر خدمات انجام کے طور پر انہوں نے پٹیل نے کے لیے
پڑھیں:
وشواگرو خواب، مودی کا تشخص ٹرمپ کے ہاتھوں دھندلا گیا
کراچی (نیوز ڈیسک) بھارتی اخبارʼدی ہندوʼ گروپ کے معروف میگزین ” فرنٹ لائن” نے مودی پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی طاقت کے توازن کو ہلا کر رکھ دیا ، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا “وشواگرو” کا بیانیہ زمین بوس ہو گیا، سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا بھارتی خواب بھی چکنا چور ہوگیا ۔
وائٹ ہاؤس میں مودی کو سرد استقبال ملا، جبکہ ٹرمپ نے بھارت کو مہنگے معاہدوں کی طرف دھکیل دیا، جس سے اسٹریٹجک خودمختاری اب محض انحصار دکھائی دیتی ہے۔
یاد رہے وشواگرو” ایک عظیم الشان تصور ہے جو بھارت کو عالمی رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے۔
میگزین کے مطابق چھ ماہ قبل اگست 2024 میں، مودی نے یوکرین کا دورہ کیا تھا تاکہ روس کے تین سالہ “خصوصی فوجی آپریشن” کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی کوشش کریں۔ اس سے ایک ماہ قبل وہ ماسکو میں پیوٹن سے ملے تھے، لیکن یوکرین کے صدر زیلنسکی نے واضح کیا کہ بھارت کا کوئی مذاکراتی کردار نہیں۔
اب ٹرمپ نے بغیر کیف یا ماسکو جائے یہ جنگ ختم کر دی، اور بھارت کو نظرانداز کرتے ہوئے پیوٹن سے ملاقات کے لیے سعودی عرب کو میزبان منتخب کیا۔
اپنے ایک ماہ کے اقتدار میں، ٹرمپ نے یورپ کے 500 سالہ غلبے کو ختم کر دیا اور بھارت کے عالمی اثر و رسوخ کو سوالوں کے گھیرے میں لا کھڑا کیا۔ واشنگٹن میں مودی کے دورے کے دوران کوئی بڑا امریکی رہنما ان کے استقبال کے لیے موجود نہ تھا، جبکہ اسرائیل اور جاپان کے رہنماؤں کو گرمجوشی سے نوازا گیا۔ یہ اشارہ تھا کہ مودی نے خود ملاقات کی خواہش خود ظاہر کی تھی۔
ٹرمپ نے مودی سے ملاقات سے قبل ایلون مسک سے بات چیت کا اہتمام کیا، جو بھارت میں ٹیسلا کاریں اور اسٹارلنک انٹرنیٹ متعارف کرانا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے بھارت کو ایف-35 لڑاکا طیاروں کی خریداری کا پابند کیا، جن کی قیمت فی طیارہ 80 کروڑ روپے ہے، حالانکہ مسک خود اسے فرسودہ قرار دے چکے ہیں۔ مزید برآں، ٹرمپ نے بھارت کو روس کے سستے تیل کے بجائے امریکا سے مہنگا تیل اور گیس خریدنے کا حکم دیا، جس سے بھارتی عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا۔
ٹرمپ نے مودی کو کچھ “تحائف” دیے، ان کی کرسی کھینچی، ایک کتاب پر “عظیم رہنما” لکھ کر دستخط کئے اور ممبئی حملوں کے ملزم کی حوالگی کا وعدہ کیا۔ دونوں نے جوہری تجارت کے وعدے بھی دہرائے، جو 20 سال سے سننے میں آ رہے ہیں۔
لیکن مودی کے واپس لوٹنے کے دو روز بعد، امریکی حکومت نے گوتم اڈانی گروپ کو نوٹس جاری کرنے کا مطالبہ کیا، جن پر امریکی سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے اور بھارتی حکام کو رشوت دینے کا الزام ہے۔
افواہیں پھیلائیں گئی کہ بھارت کو برکس سے دور رکھا جائے گا، جبکہ سعودی عرب اور مصر نے ٹرمپ کے غزہ کے منصوبوں کو مسترد کر دیا۔
اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت کا بھارتی خواب بھی اب دھندلا گیا ہے۔ مودی کے حامی انہیں وشواگرو کہتے رہیں، لیکن عالمی طاقتوں کے لیے وہ اب صرف ایک نمائشی رہنما ہیں۔