ماسکو(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 فروری ۔2025 )ماسکو نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے اس بیان کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسی غلط معلومات کی دنیا میں رہ رہے ہیں جو روس کی بنائی ہوئی ہے پر سخت ردعمل دیا ہے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے زیلنسکی کے بیان کو ناقابل قبول قرار دیا.

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پیسکوف نے کہا کہ حالیہ مہینوں سے یوکرینی حکومت کے اکثر نمائندے دیگر ممالک کے سربراہان کے بارے میں ناقابل قبول بیانات دے رہے ہیںامریکہ کے ساتھ روس کے حالیہ تعلقات پر بات کرتے ہوئے پیسکوف نے کہا کہ روس امریکہ کے مابین ہر سطح پر مذاکرات بحال ہوں گے.

(جاری ہے)

یادرہے کہ گذشتہ ہفتے ٹرمپ اور پیوتن کی فون کال نے ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تین سال سے جاری براہ راست رابطے کے تعطل کو ختم کر دیا تھا برطانیہ میں روسی سفیر نے بھی ٹرمپ کے اس موقف سے اتفاق کیا کہ زیلنسکی کو انتخابات کرانے چاہییں. انہوں نے” بی بی سی“ سے گفتگو میں کہاتھا کہ یوکرینی صدر کی آئینی مدت مئی پچھلے سال ختم ہو چکی تھی دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ ماسکو یورپ کو مذاکرات میں شامل ہونے سے روک رہا ہے انہوں نے کہا کہ یوکرین کے معاملے میں میں نے کبھی بھی یورپی راہنماﺅں سے رابطہ کرنے سے انکار نہیں کیا.

جب صدر ٹرمپ نے اسی ہفتے یوکرین کو جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہاکہ کسی مغربی رہنما نے پہلے کبھی ایسی بات نہیں کی لیکن ٹرمپ نے ایسا کئی بار کہا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ ہماری پوزیشن کو سمجھتے ہیں.                                                         

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا

پڑھیں:

بالواسطہ مذاکرات اور چومکھی جنگ

اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوریہ ایران کو ان مذاکرات میں ایک کثیر جہتی کھیل یا چومکھی جنگ کا سامنا ہے، جس میں چوکسی اور اسٹریٹجک انتظام کی سخت ضرورت ہے۔ اب تک ایران بالواسطہ مذاکرات کے اصول کو برقرار رکھتے ہوئے اور عمان کو ثالث کے طور پر منتخب کرکے پہل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ تاہم، دشمن فوجی دھمکیوں، نفسیاتی کارروائیوں اور اندرونی دھڑوں کو بھڑکا کر دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ایران کی طاقت مزاحمت اور سفارتی ذہانت کے خوبصورت امتزاج میں مضمر ہے۔ اس راستے سے کسی قسم کے انحراف کا فائدہ بہرحال دشمنوں کو ہی ہوگا۔ تحریر: حامد موفق بھروزی

عمان کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے سے خطے کی سیاسی فضا انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ دنیا اور علاقے کے مختلف کھلاڑی اپنے اپنے انداز میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کردار ادا کر رہے ہیں۔ مذاکرات سے پہلے کی پیش رفت اس طرح آگے بڑھ رہی ہے کہ ہر فریق مذاکراتی عمل پر اپنے مطلوبہ اصول مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک ہوشیارانہ نقطہ نظر کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات اور اپنے قائم کردہ فریم ورک کو برقرار رکھنے پر زور دے رہا ہے، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی مختلف ذرائع سے اس مساوات کو بدلنے کے درپے ہیں۔

ایران کے خلاف محاذ آرائی
تجزیہ کاروں نے ایران کے خلاف تین اہم دھڑوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف ٹولز اور ہتھیاروں کے ذریعے مذاکراتی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
1۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو، براہ راست مذاکرات اور دباؤ کے لئے فوجی دھمکیاں
امریکہ اور صیہونی حکومت بالواسطہ مذاکرات کو براہ راست مذاکرات میں بدلنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ تحریک فوجی دھمکیوں (جیسے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بارے میں حالیہ دعوے) کے ذریعے ایران کے خلاف نفسیاتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، ماضی کے تجربات جیسے آپریشن عین الاسد، ٹینکر کی جنگ اور وعدہ صادق 1 اور 2 ظاہر کرتے ہیں کہ یہ خطرات آپریشنل سے زیادہ نفسیاتی ہیں۔

2۔ انقلاب مخالف گروہ اور نفسیاتی آپریشنز
ایران کے اسلامی انقلاب کے مخالف ملکی اور غیر ملکی گروہ جن میں سابق شاہ سے وابستہ میڈیا بھی شامل ہے، جس نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ، اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے اپنی یہ سرگرمیاں فوجی خطرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ایران میں عوامی اور قومی حوصلے کو کمزور کرنے پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ رضا پہلوی کا فاکس نیوز کے ساتھ حالیہ انٹرویو اور "آکٹوپس کی آنکھوں کو اندھا کرنا" کے جملے کا استعمال اس تحریک کے ایران کے دشمنوں کے ساتھ واضح تعاون کی نشاندہی کرتا ہے۔ موساد کے ساتھ ان گروپوں کے تعاون کا CNN پر انکشاف ان کے غیر ملکیوں پر مکمل انحصار کی ایک اور تصدیق ہے۔

3۔ داخلی گروہوں کی امریکہ کیساتھ ہم آہنگی اور ایران کی بارگینگ کی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش
ایران میں موجود کچھ مغرب نواز افراد من جملہ حسن روحانی اور حسام الدین آشنا ایسی باتیں کر رہے ہیں، جن کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ افراد غیر حقیقی دعوے شائع کرکے مذاکرات میں ایران کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کی طاقت کو کمزور دکھانا یا یہ کہنا کہ "ایٹمی صنعت پرانی اور درآمد ہو رہی ہے۔ ان دعووں سے یہ گروہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکیوں کی براہ راست بات چیت کی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور ایرانی حکام کو مذاکرات کے متن کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ حسام الدین آشنا کی حالیہ ٹویٹ میں ایران کی جوہری صنعت کو "پرانی اور درآمد شدہ" قرار دینے کا مقصد رائے عامہ میں ایران کی نااہلی کو ابھارنا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ایران کی جوہری ٹیکنالوجی بے کار ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی اسے تباہ کرنے کی اتنی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔؟

اسلامی جمہوریہ ایران کو ان مذاکرات میں ایک کثیر جہتی کھیل یا چومکھی جنگ کا سامنا ہے، جس میں چوکسی اور اسٹریٹجک انتظام کی سخت ضرورت ہے۔ اب تک ایران بالواسطہ مذاکرات کے اصول کو برقرار رکھتے ہوئے اور عمان کو ثالث کے طور پر منتخب کرکے پہل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ تاہم، دشمن فوجی دھمکیوں، نفسیاتی کارروائیوں اور اندرونی دھڑوں کو بھڑکا کر دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ایران کی طاقت مزاحمت اور سفارتی ذہانت کے خوبصورت امتزاج میں مضمر ہے۔ اس راستے سے کسی قسم کے انحراف کا فائدہ بہرحال دشمنوں کو ہی ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
  • ایران کے ساتھ بات چیت مثبت پیش رفت ہے، ڈونالڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ کی دھمکیوں کے سائے میں ایران امریکا جوہری مذاکرات آج ہوں گے
  • ایران و امریکہ کے مابین مذاکرات کا طریقہ کار طے کر لیا گیا
  • عمان میں وٹکوف کا کڑا امتحان
  • امریکی حکومتی وفد روس پہنچ گیا، کریملن کی تصدیق
  • سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران
  • بالواسطہ مذاکرات اور چومکھی جنگ