پاکستان میں 54 فیصد سگریٹ غیر قانونی طور پر فروخت ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد:
ملک میں ٹریک اینڈ ٹریس ٹیکس اسٹیمپ کے بغیر 54 فیصد غیر قانونی سگریٹ فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینین ریسرچ کی تحقیق سامنے آگئی، سگریٹ انڈسٹری میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی موجودہ صورتحال پر سروے رپورٹ جاری کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹریک اینڈ ٹریس کے حوالے سے سروے مختلف 19 اضلاع میں کیا گیا، سروے میں کل 413 سگریٹ برانڈز کی نشاندہی کی گی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ریکارڈ میں بھی 413 سگریٹ برانڈز موجود نہیں ہیں جبکہ 413 سگریٹ برانڈز میں سے صرف 19 سگریٹ برانڈز پر ٹریک اینڈ ٹریس ٹیکس اسٹیمپ پائی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 413 میں سے صرف 95 سگریٹ برانڈز پر حکومت پاکستان کے منظور کردہ تصویری و تحریری ہیلتھ وارننگ موجود پائی گئی جبکہ 286 سگریٹ برانڈز پر نہ تو منظور کردہ ہیلتھ وارننگ اور نہ ہی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم ٹیکس اسٹیمپ موجود پائی گئی۔
پاکستان میں سگریٹ پیکٹ پر تصویری ہیلتھ وارننگ کا قانون 2009 میں نافذ ہوا، 16 سال گزرنے کے بعد بھی حکومت پاکستان کی منظور شدہ ہیلتھ وارننگ کے بغیر سگریٹ پیکٹ سرعام فروخت ہو رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2021 میں سگریٹ انڈسٹری میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نافذ کیا گیا جس کا مقصد سگریٹ انڈسٹری میں ٹیکس چوری کو روکنا تھا۔
ٹریک اینڈ ٹریس ٹیکس اسٹیمپ کے بغیر 54 فیصد غیر قانونی سگریٹ فروخت ہو رہے ییں، 332 سگریٹ برانڈز حکومت پاکستان کی جانب سے طے کردہ کم از کم قیمت 162.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹریک اینڈ ٹریس سگریٹ برانڈز ہیلتھ وارننگ ٹیکس اسٹیمپ
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟