ہیٹ ٹرک گیند پر کیچ ڈراپ، روہت کی اکشر سے معذرت
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
بنگلا دیش کیخلاف چیمپئنز ٹرافی میچ میں بھارتی اسپنر اکشر پٹیل ہیٹ ٹرک سے محروم رہ گئے۔
کپتان روہت شرما نے کیچ ڈراپ کرنے پر بولر سے معذرت کرلی، ذاکر علی کا کیچ سلپ میں روہت کی جانب گیا لیکن کپتان گیند کو تھام نہیں سکے۔
دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں بنگلادیش کی ٹیم 49.4 اوورز میں 228 رنز پر آل آؤٹ ہوئی اور بھارت کو جیت کے لیے 229 رنز کا ہدف دیا۔
بنگلادیش کی آدھی ٹیم 35 رنز پر پویلین لوٹ گئی تھی جس کے بعد توحید ریدوئے اور ذاکر علی نے شاندار شراکت قائم کرکے ٹیم کو مشکل سے نکالا۔
مزید پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی؛ بھارت نے بنگلا دیش کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی
توحید ریدوئے نے ون ڈے کیریئر کی پہلی سنچری اسکور کی اور 100 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، ذاکر علی نے 68 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی، تنزید حسن نے 25 رنز بنائے۔
میچ کے نویں اوور میں اکشر پٹیل نے اپنے اوور کی دوسری اور تیسری گیند پر تنزید حسن اور مشفیق الرحیم کو پویلین کی راہ دکھائی اور تیسری بال پر ہیٹ ٹرک کرنے والے تھے۔
اسپنر نے ذاکر علی کو گیند کروائی اور ایج لگ کر کیچ روہت شرما کے پاس سلپ میں گیا جو انہوں نے ڈراپ کردیا جس کی وجہ سے اکشر پٹیل ہیٹ ٹرک نہیں کرسکے۔
روہت شرما کے کیچ ڈراپ کرنے کے بعد ذاکر علی نے شاندار 68 رنز کی اننگز کھیلی اور ٹیم کا ٹوٹل 228 رنز تک بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
صدر ٹرمپ ایک بات بھول رہے ہیں
ہیرلڈ لیم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ’’امیر تیمور نے دنیا کو درہم بر ہم کیا‘‘۔ صدر ٹرمپ کے بیانات نے اب تک دنیا کو درہم کم اور برہم زیادہ کیا ہے، خاص طور پر غزہ کو امریکی ملکیت میں لینے کے دعوے نے، جس نے بین الاقوامی اور عالمی سطح پر تنقید اور اعتراضات کے الائو بھڑکا دیے۔ وائٹ ہائوس اور اس کے ترجمان جن کی حدت اور شدت کو کم کرنے کے لیے آئے دن جنہیں نئے معانی پہنا رہے ہیں کہ ٹرمپ کے منصوبے کا مطلب غزہ پر امریکا کا قبضہ یا اس کی تعمیر نو نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے بدھ کے روز ایک پریس بریفنگ میں کہا: ’’صدر نے غزہ میں زمینی فوج بھیجنے کا وعدہ نہیں کیا… امریکا غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات برداشت نہیں کرے گا‘‘۔ ان کی یہ وضاحت اس لحاظ سے بے معنی، تضاد پر مبنی، بیکار اور فضول تھی کیونکہ صدر ٹرمپ نے اس سے پہلے منگل کے روز اپنے بیانات میں غزہ کو محفوظ بنانے میں مدد کے لیے امریکی فوج بھیجنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا تھا: ’’ہم وہ کریں گے جو ضروری ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم ایسا کریں گے‘‘۔
امریکی وزیر ِ خارجہ مارکو روبیو نے بدھ 5 فروری 2025 کو صدر ٹرمپ کے موقف کی شدت کو کم کرنے اور اس کا جواز پیش کرنے کے لیے کہا کہ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی کے بارے میں جو پیشکش کی ہے اس کا مقصد جارحانہ اقدام نہیں ہے، ان کی پیشکش اس علاقے سے ملبہ ہٹانے اور تباہی سے جگہ کو صاف کرنے میں مداخلت کرنے کی نمائندگی کرتی ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’غزہ کی تعمیر نو کے دوران لوگوں کو کہیں تو رہنا پڑے گا‘‘۔ جمعرات کے روز صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر اپنے وزیر خارجہ کے بیان کو دھواں دھواں کردیا کہ اسرائیل لڑائی کے خاتمے کے بعد غزہ کی پٹی امریکا کے حوالے کر دے گا۔ جمعہ 7 فروری 2025 کو جاپانی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا: ’’بنیادی طور پر امریکا اس معاملے کو ایک جائداد کی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھے گا، غزہ ہمارے لیے ایک جائداد کی ڈیل ہے، جہاں ہم اس علاقے میں سرمایہ کار ہوں گے، اور ہم کسی بھی قدم کو جلد بازی میں نہیں اٹھائیں گے‘‘۔
یوں دنوں میں نہیں گھنٹوں میں ٹرمپ انتظامیہ اور خود صدر ٹرمپ غزہ کے معاملے پر بیانات تبدیل کررہے ہیں جسے بہت سے مبصرین فیصلوں میں ہچکچاہٹ، تبدیلی اور نظر ثانی سے تعبیر کررہے ہیں، کچھ اسے دنیا کی توجہ منتشر کرنے اور دھیان ہٹانا قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ اس پورے معاملے کو محض ایک مفروضہ اور فرضی قصہ باور کررہے ہیں جس میں مضبوط حقائق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی شخص کے فیصلوں میں شش و پنج اور ان میں سے بعض سے دستبرداری کو ہچکچاہٹ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اس صورت میں ہو گا جب اس کی پہلے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی ہو، اور یہ امکانات اور توقعات سے باہر ہو، اور یہ بات امریکا جیسی ریاست سے بعید از امکان ہے جو اپنے منصوبے اور پروگرام، ملازمین، مفکرین اور پالیسی سازوں کی فوج کے ذریعے تیار کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ غزہ سے جبری انخلا کے لیے ماحول کو سازگار بنانا چاہتی ہے جسے خطے کے مسلم حکمران مسترد کر چکے ہیں، خاص طور پر مصر اور اردن۔ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے ہچکچاہٹ ظاہر کرتے بیانات نبض جانچنے کا عمل ہیں کہ اگر ان دونوں ممالک کے عوام اس انخلا کے خلاف اپنی حکومتوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور مسلمانوں سے غداری کو روکنے کے لیے اپنے حکمرانوں کے مقابل آگئے تو کیا یہ مسلم حکمران اپنے لوگوں پر صدر ٹرمپ کے بیان پر عمل کرنے، انہیں ان کے ملکوں سے بے دخل اور خالی کرنے اور یہودیوں کو ضم کرنے یا اسے ٹرمپ کی مرضی کے مطابق کسی اور وقت تک ملتوی کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں؟؟
صدر ٹرمپ انخلا کے منصوبے پر اس وقت عمل درآمدکا ارادہ رکھتے ہیں جب وہ اس پر عمل درآمدکو کم سے کم ضمنی نقصان کے ساتھ ممکن سمجھیں گے۔ وہ فی الحال تیاریوں میں مصروف ہیں اور تیاری کے عرصے تک تحمل کا مظاہرہ اور ہچکچاہٹ پر مبنی بیانات ان کی پالیسی کا حصہ ہیں، جیسا کہ ان کے اس بیان سے ظا ہر ہے کہ: ’’غزہ ہمارے لیے ایک جائداد کا سودا ہے، جہاں ہم اس علاقے میں سرمایہ کار ہوں گے اور ہم کوئی بھی قدم اٹھانے میں جلدی نہیں کریں گے‘‘۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے لیے صدر ٹرمپ کا یہ منصوبہ ان کے خوابوں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ ایسا منصوبہ تو کوئی اسرائیلی وزیراعظم بھی سوچنے اور پیش کرنے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔ یہ منصوبہ ان کے توراتی خوابوں، فلسطین کے لوگوں کو بے دخل کرنے اور فلسطین کو یہودیوں کے لیے خاص کرنے کے منصوبوں سے ہم آہنگ ہے۔ اس منصوبے نے نیتن یاہو اور ان کی حکومت کے لیے ایک نجات دہندہ کا کردار ادا کیا ہے۔ نیتن یاہو نے حماس سے امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کو ٹرمپ سے ملاقات کے بعد تک ملتوی کر دیا تھا جو امریکا جانے سے پہلے شروع ہونے والے تھے۔ انہوں نے واشنگٹن جانے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ مذاکرات کی بحالی کے لیے ان کی ایک شرط ہے کہ حماس اپنے رہنماؤں کو غزہ کی پٹی سے نکالنے پر راضی ہو جائے۔ جب صدر ٹرمپ سے ان کی ملاقات ہوئی اور صدر ٹرمپ نے غزہ کو خالی کرانے کا اپنا حد سے گزرتا ہوا منصوبہ پیش کیا تو انہوں نے فوری طور پر وفد کو دوسرے مرحلے کے مذاکرات کے لیے بھیج دیا اور اپنی شرط کو بھول گئے۔
صدر ٹرمپ کے غزہ انخلا کے منصوبے نے اسرائیلی وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ کو بھی نیتن یا ہو کی حکومت میں رہنے پر قائل کرلیا جس نے دھمکی دی تھی کہ اگر نیتن یاہو دوسرے مرحلے کے بعد جنگ دوبارہ شروع نہیں کرتا تو وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ لہٰذا غزہ کے لوگوں کو بے دخل کرنے، حماس کو ختم کرنے اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کا ٹرمپ کا منصوبہ، نیتن یاہو اور سموٹریچ کے منصوبوں کو جنگ میں واپس جانے اور نیتن یاہو کی حکومت کو گرنے اور مقدمات میں جانے سے بچانے کے لیے ایک تحفہ اور راستہ ثابت ہوا ہے۔
نیتن یاہو کو جنگ میں جائے بغیر صدر ٹرمپ کے منصوبے سے تمام ممکنہ اہداف حاصل ہورہے ہیں۔ فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں انہوں نے صدر ٹرمپ کے خیال کو ایک عظیم خیال قرار دیا جو شروع میں کچھ لوگوں کو عجیب لگ رہا ہے لیکن بعد میں ممکن نظر آئے گا اور غزہ کے مسئلہ کا بنیادی حل تشکیل دے گا۔ اب وہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں یرغمالیوں کو بازیاب کرانے، جنگ کے خاتمے کے لیے ماحول کو سازگار بنانے اور حماس کو منظر سے ہٹانے کے لیے انتظامات کرنا چاہتے ہیں، لیکن غزہ سے اہل غزہ کے انخلا کے منصوبے پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے غزہ کے لوگوں پر مزید سختی شروع کر دی گئی ہے، یہود انسانی امداد، خیموں اور موبائل گھروں کی ترسیل کی اجازت دینے میں تاخیر کررہے ہیں، اس کے علاوہ پانی، خوراک اور صحت سے متعلق معاملات کو بھی خراب کیا جارہا ہے، تاکہ غزہ میں رہنے اور زندگی گزارنے کا آپشن اگر ناممکن نہیں تو، مشکل ضرور ہو جائے اور اس کے مقابلے میں ایسی جگہوں پر ہجرت کا موقع فراہم کیا جائے جہاں زندگی کے قابل قبول حالات فراہم کیے جائیں۔ اس طرح ٹرمپ نے انخلا کے منصوبے کا اعلان کر کے اور معاہدہ ابراہیم میں واپسی اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور اگلے چار ہفتوں کے دوران مغربی کنارے میں توسیع کے بارے میں سوچنے کا وعدہ کر کے یہودیوں کے ساتھ اپنی وفاداری کا مکمل ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن اس سارے کھیل میں ایک چیز فراموش کردی گئی ہے، سب سے زیادہ اہم اور کھیل پلٹ دینے والی، امت مسلمہ کی ثابت قدمی اور ان کا جذبہ جہاد۔ امت مسلمہ اپنے ذلیل حکمرانوں کی طرح امریکی ایجنٹ نہیں ہے۔ وہ اس منصوبے کو پاش پاش کرکے رکھ دے گی۔