اسلام آباد (خبر نگار خصوصی)  وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آئندہ پانچ سال میں ملکی برآمدات کو 60 بلین ڈالر تک لے جانے کے لئے جامع اور مؤثر حکمت عملی تشکیل دینے، معیشت کی ترقی اور برآمدات کو فروغ دینے کے لئے معاشی ٹیم کو ٹیرف کے نظام میں پائیدار اصلاحات متعارف کرانے اور برآمدات میں اضافے کے لئے سروسز، آئی ٹی اور زراعت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔  ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ملکی برآمدات بڑھانے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے جائزہ اجلاس  سے خطاب میں کہا۔ وزیراعظم  نے ہدایت کی ٹیرف کے نرخوں کو کم اور نظام کو عام فہم و سہل بنایا جائے، ٹیرف میں اصلاحات لا کر صنعتوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کی حکمت عملی اپنائی جائے۔ برآمدات پر مبنی معاشی ترقی "اڑان پاکستان" وژن کا اہم جزو ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ برآمدی صنعتوں کی ترقی کیلئے ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کے گورننس نظام میں ضروری اصلاحات کی جائیں۔ اجلاس میں وزیراعظم کو وزارت تجارت میں اصلاحات کی پیشرفت کے لئے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔ علاوہ ازیں شہباز شریف نے ملک میں ادویات کے عالمی معیار کو یقینی بنانے کیلئے اسلام آباد میں بین الاقوامی سطح کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری قائم کرنے، اسلام آباد کے مضافات، گلگت بلتستان، کشمیر اور بلوچستان میں صحت کی سہولیات پہنچانے کیلئے موبائل ہسپتالوں کے اجراء اور ملک میں جعلی ادویات کے خلاف صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعاون و مشاورت سے آپریشن کی ہدایات دی ہیں۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت صحت و دوا سازی کے شعبے میں اصلاحات پر جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔  وزیراعظم نے کہا کہ جعلسازوں کو انسانی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعاون سے دوا سازی شعبے کی ترقی اور بہتر ریگولیشن کیلئے جامع پلان مرتب کرکے پیش کیا جائے۔  ڈریپ میں دوا سازی کے شعبے میں جعلسازی کو سہولت کاری فراہم کرنے والے افسران کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف فوری کارروائی یقینی بنائی جائے۔ دوا سازی کے شعبے میں تحقیق سے دوائوں کی برآمدات میں اضافہ یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان میں اصلاحاتی پروگرام پر عملدرآمد کو تیز کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ڈریپ کے پالیسی بورڈ میں اچھی شہرت کے حامل متعلقہ تجربہ کار ماہرین کی میرٹ پر تعیناتی یقینی بنائی جائے۔ ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کو موثر و مضبوط بنانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ وزیر اعظم نے نئے ڈرگ انسپکٹرز کی تعیناتی کے عمل میں شفافیت یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان سے ادویات کی موجودہ برآمدات کا حجم 500 ملین ڈالر ہے۔ ڈریپ میں ایکسپورٹ ڈائریکٹوریٹ کا قیام بھی حتمی مراحل میں ہے۔ 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: میں اصلاحات ہدایت کی دوا سازی برا مدات کے لئے

پڑھیں:

بے غرض نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی!

امریکا میں کینسس شہر کافی بڑا ہے۔ آبادی تقریباً پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن یعنی مرکزی ایریا میں ایک Dinar ریسٹورنٹ ہے۔ کھانے پینے کی عام سی جگہ۔ اس میں کسی لحاظ سے بھی کوئی خاص بات نہیں ، سادہ سا امریکی فرنیچر‘ درمیانے درجے کا سستا کھانا اور بے ہنگم موسیقی ۔ کھلے ہوئے تقریباً چار برس ہو چکے تھے۔ اخراجات وغیرہ ڈال کر مالک کو برائے نام منافع ملتا تھا۔ ارادہ تھا کہ اس ریسٹورنٹ کو بند کر کے کوئی نیا کام شروع کر دے۔ بہر حال‘ زندگی تھی اور بس چلے جا رہی تھی۔

اس ریسٹورنٹ میں ایک ویٹرس تھی، جس کا نام جیسی ہوپر تھا۔ محنتی اور بااخلاق لڑکی تھی لیکن معقول وسائل نہ ہونے کی بدولت زندگی بہت کٹھن تھی۔ مگر تنگدستی نے اس کے مزاج پر کوئی منفی اثر نہ ڈالا تھا۔ خوش مزاجی سے کام کرنا اس کی سرشت میں تھا۔ علی الصبح اٹھتی تھی۔ چھوٹے سے فلیٹ سے پیدل ریسٹورنٹ آتی تھی،کرسیوں اور میزوں کی بھرپور صفائی کرتی تھی۔ ریسٹورنٹ پورے سات بجے کھل جاتا تھا۔صبح کے وقت بہت کم لوگ ہی آتے تھے ۔ البتہ لنچ پر بہت رش ہو جاتا تھا۔ ایک اسی طرح کی صبح کو‘ ایک آٹھ نو سال کا بچہ‘ اپنا اسکول بیگ کمر پر لادے‘ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا ۔ خاموشی سے کونے کی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔

کھانے کا کوئی آرڈر نہیں دیا۔ جیسی نے اس کے سامنے پانی کا گلاس رکھا۔ بچے نے آہستہ آہستہ پانی پیا ۔ آٹھ بجنے میں پانچ منٹ پر شائستگی سے اٹھ کر چلا گیا۔ پانی کا تو خیر کوئی بل نہیں تھا۔ مگر جیسی کو یہ بات عجیب لگی۔ اب ہونے یہ لگا کہ وہ بچہ سات بج کر پندرہ منٹ پر‘ ریسٹورنٹ میں داخل ہوتا تھا۔ جیسی اس کے سامنے پانی کا گلاس رکھتی تھی۔ آہستہ آہستہ پانی پیتا تھا اور آٹھ بجنے میں پانچ منٹ پر بیگ اٹھا کر چلا جاتا تھا۔ وہ اسکول یونیفارم میں ہوتا تھا اور جوتے بھی صاف دکھائی دیتے تھے۔ حلیہ سے وہ کوئی فقیر یا ہوم لیس معلوم نہیں پڑتا تھا۔ سات آٹھ دن ‘ اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن بچہ آیا۔ حسب معمول ‘ جیسی نے پانی کا گلاس سامنے رکا ۔ پھر کچن میں چلی گئی۔ وہاں سے اس نے پین کیک کا ناشتہ بنوایا۔ اور آرام سے بچے کے سامنے رکھ دیا۔

کہنے لگی، آج کچن میں کک نے ناشتہ زیادہ بنا دیا تھا۔ لہٰذا اسے ضایع کرنے کے بجائے ‘ وہ اس کے سامنے رکھ رہی ہے۔ اور اس کا کوئی بل نہیں ہو گا۔ جیسی اور بچے کی آنکھیں چند سیکنڈ کے لیے ٹکرائیں تو اس معصوم کی آنکھوں میں احساس تشکر تھا۔ ناشتہ رکھ کر جیسی چلی گئی۔ دانستہ طور پر بچے کو بالکل نہیں دیکھا۔ بچے نے آرام سے ناشتہ کیا۔ اور مقرر وقت پر اٹھ کر چلا گیا۔ یہ سلسلہ دو تین دن چلتا رہا۔ بچہ ‘ ڈائنر ریسٹورنٹ میں آتا تھا۔ جیسی اس کے لیے پین کیک کا ناشتہ بناتی تھی۔ اور پھر وہ کھا کر حد درجہ تہذیب سے واپس چلا جاتا تھا۔ ریسٹورنٹ کا منیجر اس سارے واقعے کو روزانہ دیکھتا تھا۔ تیسرے دن جیسی کو بلایا ۔ کہا کہ یہ ہوٹل کوئی یتیم خانہ نہیں ہے۔ جہاں مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہو۔

تم کس طرح ‘بچے کو فری ناشتہ کرا رہی ہو۔ جیسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ایک دم‘ منیجر سے کہا‘ ناشتہ کے پیسے وہ ٹپ سے ادا کرے گی۔ اس سے ریسٹورنٹ کو کوئی مالی نقصان نہیں ہو گا۔ منیجر حیران رہ گیا۔ کیونکہ جیسی کے اپنے مالی حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ وہ ایک سستے سے فلیٹ میں رہتی تھی۔ بہرحال منیجر نے جیسی کو اجازت دے دی۔ کہ وہ بچے کو ناشتہ بنا کر دے اور پیسے اس کی ٹپ میں سے کاٹ لیے جائیں گے۔ منیجر کو فکر یہ تھی کہ ہوٹل بس گزارے لائق منافع بنارہا ہے۔ لہٰذا جیسی قطعاً زیادہ عرصہ ‘ مفت ناشتہ‘ اپنی ٹپ میں سے ادا نہیں کر سکتی۔ مگر منیجر غلط سوچ رہا تھا۔

پورے تین ماہ‘ یہ واقعہ ‘ مسلسل ‘ روز کی بنیاد پر ہوتا رہا۔ بچہ ٹھیک سوا سات بجے آتا اور آٹھ بجنے سے پہلے اٹھ کر چلا جاتا۔ جیسی کو اس معصوم لڑکے کو ناشتہ کرانے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ پھر یکدم یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ ٹھیک نوے دن کے بعد‘ بچے نے آنا بند کر دیا۔ جیسی‘ سات بجے حسب معمول اس کا انتظار کرتی ۔ اس کی مخصوص ‘ کونے والی میز پر پانی رکھتی۔ اور تھوڑا سا ناشتہ بھی بنا کر رکھ دیتی۔ مگر ٹیبل خالی رہتی۔ منیجر اس کا مذاق اڑاتا کہ وہ بچہ دراصل ایک فقیر تھا جو تمہیں بے وقوف بنا کر چلا گیا۔ خیر جیسی کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اسی طرح بچے کے لیے ٹیل مخصوص رکھتی۔ ایک دن کوئی گیارہ بجے کے لگ بھگ چار کالی گاڑیاں ہوٹل کے سامنے رکیں ۔ ان پر امریکی حکومت کی سرکاری نمبر پلیٹیں لگی ہوئی تھیں۔

ان میں سے دس بارہ فوجی باہر نکلے ۔ اورہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سارے گاہک ‘ انھیں غور سے دیکھ رہے تھے۔ ایک سینئر افسر کاؤنٹر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کے سینے پر متعدد تمغے لگے ہوئے تھے۔ حد درجہ شائستگی سے منیجر سے پوچھا کہ جیسی کون ہے؟ جیسی یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی۔ اس کا گلہ خشک ہو گیا۔ ان فوجیوں کا اس سے کیا کام ہے؟ آفیسر نے اپنا تعارف کرایا کہ میں امریکی اسپیشل فورسز کا کرنل ہوں۔ میرا نام رابرٹ کنڈل ہے۔ جیسی اس کے سامنے گئی۔ کرنل نے اسے غور سے دیکھا۔ اور ایک خط ہاتھ میں تھما دیا۔ کہنے لگا کہ یہ خط‘ سارجنٹ ڈیوڈ نے افغانستان سے لکھا ہے۔ اور وہ ایڈم کا والد ہے۔

افغانستان کی جنگ میں ڈیوڈ مارا گیا۔ اورمرنے سے پہلے ‘ اس نے یہ خط اپنے کمانڈنگ افسر کے ہاتھ میں دیا۔ کہ اگر میں مارا جاؤں تو یہ مراسلہ‘ کینس شہر میں‘ ڈائنر ریسٹورنٹ میں جیسی نامی ویٹرس کو دے دیں۔ جیسی کے سامنے کرنل نے خط پڑھ کر سنایا۔ درج تھا ۔ میں ایڈم کا والد ہوں۔ اور امریکی اسپیشل سروسز گروپ میں کام کر رہا ہوں۔ جیسے ہی میں جنگ پر روانہ ہوا۔ تو میری بیوی ‘ ایڈم کو چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ اس کے پاس حد درجہ محدود پیسے تھے۔ وہ صبح اسکول جانے سے پہلے‘ آپ کے پاس ناشتہ کرتا تھا ۔ اور رات کو بس روکھی سوکھی کھا کر سو جاتا تھا۔ ایڈم نے چند دن پہلے ‘ یہ سب کچھ بتایا ۔ اب وہ اپنے داد دادی کے پاس کیلیفورنیا چلا گیا ہے۔ جیسی ! میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خط پڑھ کر جیسی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ریسٹورنٹ میں موجود فوجیوں نے جیسی کو تعظیمی سلیوٹ کیا۔ اور واپس چلے گئے۔ یہ واقعہ کسی نے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ یہ قصہ پوری دنیا میں وائرل ہو گیا۔

اب ہوا یہ ‘ کہ امریکی فوج کا جو بھی افسر یا سپاہی ‘ کینسس شہر کے قریب سے گزرتا۔ وہ جیسی کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے ضرور آتا۔ شہر میں جتنے بھی ریٹائر فوجی تھے۔ وہ تمام اب اس جگہ ناشتہ اور کھانا کھانے آتے تھے۔ ریسٹورنٹ کی آمدنی پہلے سے دگنی ہو گئی۔ جیسی معمول کے مطابق کام کرتی رہی۔ ایک دن‘ ریاست کا گورنر آیا۔ اس نے جیسی کو بلایا۔ اس کی مہربانی کا شکریہ ادا کیا ۔ اور اس کے نام کا ایک سکہ اور خط ‘ اس کے حوالے کیا۔ ریسٹورنٹ گاہکوں سے بھرا ہوا تھا۔ سب نے کھڑے ہو کر جیسی کے احترام میں تالیاں بجائیں ۔ گورنر کے عملے نے اسے سلیوٹ کیا۔ اور اسے ریاست کی بیٹی قرار دے دیا۔ ہوٹل کے مالک نے ریسٹورنٹ کا نام ہی تبدیل کر ڈالا ۔ نیا بورڈ لگایا کہ یہ جیسی کا ریسٹورنٹ ہے۔ جیسی پورے شہر بلکہ ملک میں بے غرض نیکی اور مہربانی کا نشان بن گئی۔ معاشرے‘ ریاستی اداروں‘ شہریوں اور نظام نے جیسی کو ایک خوبصورت مثال قرار دے دیا۔ وہ ایک دیومالائی کردار بن گئی۔

گزارش کرنے کا مقصد بالکل سادہ سا ہے۔ بے غرض نیکی کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ہمارے معاشرے میں‘ اکثر لوگ اچھے کاموں کو اپنی شخصیت کے مثبت پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی جائیداد میں سے ایک ٹکہ بھی عام لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ نہیں کرتے۔ مگر چندہ مانگ کر اسکول‘ کالج اور درسگاہیں بناتے ہیں۔ لوگوں میں دیوتا بننے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔ ان کے نیک کام اچھے لگتے ہیں مگر وہ صرف اپنے قد کو بلند دکھانے میں کام آتے ہیں۔ بلکہ حقیقت میں ‘ دوسروں کو چھوٹا دکھانے کی شعوری کوشش ہوتی ہے۔

طالب علم اس طرح کے کج ادا لوگوں سے کوسوں دور رہتا ہے۔ ذہن میں صرف ایک خیال پختہ ہے۔ کہ اصل نیکی کسی بھی صلہ اور تمنا کے بغیر ہوتی ہے اور بے غرض نیکی کبھی بھی ضایع نہیں جاتی۔ جیسی کینسس شہر کی پہچان بن چکی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت لوگ نیکی کو بے غرض نہیں بلکہ غرض سے ادا کرتے ہیں۔ مشورہ ہے کہ آپ خود‘ اپنی مرضی سے چھوٹے یا بڑے فلاحی کام کریں۔ ادنیٰ سماجی قزاقوں سے دور رہیں۔ یقین فرمائیے۔ قدرت خود آپ کا ہاتھ پکڑ کر‘ آپ کے لیے عزت کے راستے بنائے گی!

متعلقہ مضامین

  • کراچی حیدرآباد موٹر وے نئے راستے پر بنائی جائے گی، احسن اقبال
  • وزیراعلی سندھ کی ہدایت پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری
  • دہشتگردی کے خلاف کثیر الجہتی بین الاقوامی حکمت عملی تیار کی جائے: محسن نقوی
  • وزیراعظم کا ترسیلات زر میں تاریخی اضافے پر سمندر پار پاکستانیوں سے اظہار تشکر
  • دہشتگردی کیخلاف کثیر الجہتی بین الاقوامی حکمت عملی تیار کی جائے، محسن نقوی
  • تاریخی سنگ میل: مارچ 2025 میں ترسیلات زر 4.1 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر، وزیراعظم شہباز شریف کا اظہار مسرت
  • بے غرض نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی!
  • کراچی؛ جانوروں کے فضلے سے بائیو گیس کے بڑے منصوبے کیلیے حکمت عملی مرتب
  • وزیراعظم کا بیلا روس دورہ، معاہدوں سے عملی اقدامات تک
  • پہلے ہی کہا تھا کہ میچ میں خاص حکمت عملی بنائیں گے: ڈیوڈ وارنر